نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ھدایت کے درجات

اِھْدِناَ الصِّراطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔۔۔۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ سیدھے راستے کی ہدایت کے لئے دُعا  جو کہ اس آیہ مبارکہ میں ہے ۔ اس کے مخاطب جس طرح تمام انسان اور عام مسلمان ہیں ۔ اسی طرح ہدایت یافتہ لوگ  ، اولیاء اللہ اور انبیاء علیھم السلام بھی ہیں ۔ 
لفظ ہدایت کی بہترین تشریح امام راغب اصفہانی نے  مفرداتُ القرآن میں تحریر فرمائی ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایت کے اصلی معنی ہیں کسی شخص کو منزلِ مقصود کی طرف مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنا ۔ اور ہدایت کرنا حقیقی معنی میں صرف الله تعالی کا کام ہے ۔ جس کے مختلف درجات ہیں ۔ 
ایک درجہ ہدایت کا عام ہے ۔ جو کائنات و مخلوقات کی تمام اقسام جمادات ، نباتات ، حیوانات کے لئے ہے ۔ یہاں آپ یہ خیال نہ کریں کہ ان بے جان ، بے سمجھ چیزوں کو ہدایت کی کیا ضرورت ہے ۔ کیونکہ قرآنی تعلیمات سے یہ واضح ہے کہ کائنات کی تمام اقسام اور ان کا ذرہ ذرہ  زندگی بھی رکھتا ہے ۔ اور احساس بھی  ۔ عقل بھی رکھتا ہے اور سمجھ بھی ۔ 
کیونکہ قرآن مجید میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے ۔
وَ اِنْ مَّنْ شَئیءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِِ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ 
یعنی  کوئی چیز ایسی نہیں جو تعریف کے ساتھ اس ( الله تعالی ) کی پاکی بیان نہ کرتی ہو ( اپنے قول سے یا حال سے ) مگر تم لوگ ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ۔ 
سورۃ بنی اسرائیل آیہ -44- 
اور سورۃ نور میں ارشاد ہے ۔ 
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفَّاتٍ  ط  کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتُہٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ  ط۔ وَاللهُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ 
" یعنی کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ الله تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور ( خاص طور پر ) پرندے  جو پر پھیلائے ہوئے اُڑتے پھرتے ہیں ، سب کو اپنی اپنی دُعا اور تسبیح معلوم ہے ۔ اور الله تعالی خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں ۔ 
سورۃ نور آیہ 41 
ظاہر ہے کہ الله تعالی کی حمد وثنا اور اسکی پاکی بیان کرنا الله تعال کو خوب پہچان لینے کی وجہ سے ہے ۔ اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ الله تعالی کی پہچان یعنی معرفت ہی سب سے بڑا علم ہے ۔ اور یہ علم  عقل اور سمجھ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے ان آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ تمام کائنات کے اندر روح بھی ہے اور زندگی بھی ۔ احساس اور عقل و سمجھ بھی ہے ۔ مگر بعض مخلوقات میں یہ چیز اتنی کم اور چُھپی ہوئی ہے کہ عام دیکھنے والوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا ۔ اس لئے ان اشیاء کو بے جان یا بے عقل کہا جاتا ہے ۔ اسی لیا وہ احکام شریعت کے مکلف نہیں ہیں ۔یعنی ان کا حساب کتاب نہ ہو گا ۔ 
چنانچہ ہدایتِ خداوندی کا یہ پہلا درجہ تمام مخلوقات ، جمادات ، نباتات ، حیوانات ، انسان اور جنّات کے لئے ہے ۔ 
اسی ہدایتِ عام کا ذکر قرآن مجید کی آیہ 
اَعْطٰی کُلَّ شَیءٍ خَلَقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی  
میں فرمایا گیا ہے ۔ یعنی الله تعالی نے ہر چیز کو اس کی خِلقت عطا فرمائی ، پھر اس خلقت کے موافق اس کو ہدایت دی ۔ 
اور  یہی مضمون سورہ اعلی میں ان الفاظ میں ارشاد ہوا ۔ 
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی  ۔ اَلَّذِی خَلَقَ فَسَوّٰی  ۔  وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی  ۔ 
" یعنی آپ اپنے پروردگار عالی شان کی تسبیح بیان کیجئے ۔ جس نے ساری مخلوقات کو بنایا  ۔ پھر ٹھیک بنایا اور جس نے تجویز کیا ، پھر راہ بتائی ۔ 
یعنی جس نے تمام مخلوقات کے لئے خاص خاص مزاج اور خاص خاص خدمتیں تجویز فرما کر ہر ایک کو اس کے مناسب ہدایت دی ۔ الله رب العزت نے جو چیز جس کام کے لئے بنا دی ہے وہ اس کو ایسی خوبی کے ساتھ کر رہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ۔ زبان سے نکلی ہوئی بات کی سمجھ نہ تو آنکھ کو آسکتی ہے نہ ناک کو  ۔ حالانکہ یہ زبان سے زیادہ قریب ہیں ۔ یہ کام الله تعالی نے کانوں کے سپرد کیا  ہے وہی زبان کی بات کو لیتے ہیں ۔ اسی طرح کانوں سے دیکھنے یا سونگھنے کا کام نہیں لیا جا سکتا ۔ 
 دوسرا درجہ ہدایت کا اس کے مقابلے میں خاص ہے ۔ یعنی ان چیزوں کے ساتھ خاص ہے جو ذوی العقول کہلاتی ہیں ۔ یعنی انسان اور جنّ ۔ یہ ہدایت انبیاء علیھم السلام اور آسمانی کتابوں کے ذریعے ہر انسان کو پہنچتی ہے ۔ پھر کوئی اسے قبول کرکے مؤمن ومسلم ہو جاتا ہے ۔ اور کوئی انکار کرکے کافر ہو جاتا ہے ۔ 
تیسرا درجہ ہدایت کا اس سے بھی خاص ہے ۔ جو صرف مؤمنین اور متقین کے لئے خاص ہے ۔ یہ ہدایت بھی الله تعالی کی طرف سے بغیر کسی واسطے کے انسان کو ملتی ہے ۔ اس ہدایت کا دوسرا نام توفیق ہے ۔ یعنی الله کریم ایسے حالات اور اسباب پیدا فرما دیتے ہیں کہ قرآنی ہدایات کا قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ اور اُن کی خلاف ورزی کرنا مشکل ہو جائے ۔ ہدایت کی یہ قسم بہت وسیع ہے اور اس کے بے شمار درجات ہیں ۔  یہی قسم انسان کی ترقی کا میدان ہے ۔ اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ اس درجۂ ہدایت میں ترقی ہوتی رہتی ہے ۔ 
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس زیادتی کا ذکر ہے ۔ 
وَ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی 
اور جو لوگ ھدایت پر ہیں ہم اُن کو ہدایت میں بڑھا دیتے ہیں ۔ 
وَ مَنْ یُّؤْمِنْ بِاللهِ یَھْدِ قَلْبَہٗ 
جو شخص الله پر ایمان لائے اس کے دل کو ہدایت کر دیتے ہیں 
وَ الَّذِینَ جَاھَدُوا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا 
جو لوگ ہمارے راستے میں محنت کرتے ہیں ہم اُن کو اپنے راستوں کی مزید ہدایت کر دیتے ہیں ۔ 
یہی وہ میدان ہے جہاں ہر بڑے سے بڑے  نبی ورسول  اور ولی الله آخر عمر تک ہدایت کی زیادتی اور توفیق کے طلبگار نظر آتے ہیں ۔ 
چنانچہ ہدایت ایک ایسی چیز ہے ۔ جو سب کو حاصل بھی ہے ۔ اور اس کے اور بلند درجے حاصل کرنے کی ہر انسان کو ضرورت بھی ہے ۔ اسی لئے سورۃ فاتحہ کی اہم ترین دُعا ہدایت کو قرار دیا گیا ہے ۔ 
ماخذ ۔۔۔۔۔
معارف القرآن ۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...