نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

متّقیوں کی صفات ۔۔۔۔۴ ۔۔۔۔ کتابوں پر ایمان 🍀🌺🍀

وَ     ۔ الَّذِیْنَ           ۔ یُؤْمِنُونَ         ۔ بِمَا ۔     اُنْزِلَ     ۔ اِلَیْ      ۔ کَ ۔    وَ ۔     مَا ۔    اُنْزِلَ ۔    مِنْ ۔            قَبْلِکَ   ۔ ج
اور ۔ جو لوگ ۔ ایمان لاتے ہیں ۔ اس پر جو ۔ اُتارا گیا ۔  طرف ۔  آپ کی ۔ اور ۔ جو ۔  اُتارا گیا ۔ سے ۔  آپ سے پہلے  ۔۔
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ  ۔  ج
اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ پر نازل ہوا اور جو آپ سے پہلے نازل ہوا۔ 
اس آیہ مبارکہ میں متقی لوگوں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی یہ لوگ تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ 
 گویا اس آیہ مبارکہ میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ جو کتاب یعنی قرآن مجید  رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اس پر سچے دل سے ایمان لایا جائے اور دوسرا یہ کہ جو کتا بیں آپ سے پہلے نبیوں پر نازل ہوئیں انہیں بھی حق اور الله تعالی کی طرف سے سچا مانا جائے ۔ یہاں یہ بات بھی خوب واضح ہے کہ قرآن مجید میں آخری نبی صلی الله علیہ وسلم کی کتاب اور آپ سے پہلے نبیوں کی کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ آپ کے بعد ہونے والے نہ کسی نبی کا ذکر ہے اور نہ کسی کتاب کا ۔ چنانچہ معلوم ہو گیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور قرآن مجید آخری کتاب ہے ۔ 
اگر قرآن مجید کے بعد کوئی کتاب یا وحی نازل ہونے والی ہوتی تو جس طرح اس آیہ مبارکہ میں پچھلے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ۔ ۔ اسی طرح آئندہ آنے والے نبی اور کتاب کا ذکر ضرور ہوتا ۔ بلکہ اس کی زیادہ ضرورت تھی ۔ مگر قرآن مجید میں جہاں ایمان کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے نازل ہونے والی وحی اور پہلے انبیاء علیھم السلام کا ذکر ہے بعد میں آنے والی وحی یا کسی قسم کے نبی کا قطعاً ذکر نہیں ہے ۔ ان آیات میں اور ان جیسی دوسری آیات میں جہاں کہیں نبی یا رسول یا وحی و کتاب کا ذکر ہے سب کے ساتھ  مِنْ قَبْلِ ۔۔ یا مِنْ قَبْلِکَ  ۔۔ ضرور موجود ہے ۔اس سے ثابت ہو جا تا ہے کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم آخری نبی اور قرآن مجید آخری کتاب ہے 
جو نبی آپ سے پہلے آئے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ قرآن مجید میں اُن میں بعض کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے ۔ باقی کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ نبیوں پر ایمان لانے سے مُراد یہ ہے ۔کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تک جتنے نبی آئے ہیں ۔ اُن سب کے بارے میں یہ یقین رکھنا کہ وہ سب الله تعالی کے بھیجے ہوئے تھے ۔ اور اپنے اپنے زمانے میں الله تعالی کی توحید اور احکام کی تعلیم دیتے رہے ۔ 
پہلی آسمانی کتابوں میں سے چار کتابوں کا ذکر قرآن مجید میں خاص طور پر کیا گیا ہے ۔ 
حضرت موسٰی علیہ السلام پر الله تعالی نے تورات نازل فرمائی ۔ 
حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور نازل فرمائی ۔
 حضرت عیسٰی علیہ السلام پر انجیل نازل فرمائی ۔ 
اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر آخری کتاب قرآن مجید نازل فرمائی ۔ 
اس کے علاوہ قرآن مجید میں حضرت ابراھیم علیہ السلام پر صحیفے نازل ہونے کا ذکر ہے ۔ 
پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ لیکن قرآن مجید نازل ہونے کے بعد کیونکہ پہلی کتابیں اور پہلی شریعتیں ختم ہو گئیں ۔ اسلئے عمل صرف قرآن مجید کے احکام پر ہو گا ۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سلسلہ نبوّت کو ایک محل سے تشبیہ دی ۔ فرمایا  ( مفہوم ) کہ ہر نبی اس  عمارت کے بنانے میں اپنے اپنے زمانے میں ایک ایک اینٹ رکھتا رہا ۔ آخر کار حضرت عیسٰی علیہ السلام تشریف لائے  اور انہوں نے بھی قصر نبوت میں ایک اینٹ لگا دی ۔ لوگ اس عمارت کو دیکھتے تھے اور بڑی تعریف کرتے تھے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ اس میں ایک اینٹ کی کمی باقی ہے ۔ کاش وہ بھی اپنی جگہ پر ہوتی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ( مفہوم ) وہ آخری اینٹ میں ہوں اور قصر ِ نبوت میں اب کسی اور اینٹ کی ضرورت نہیں رہی ۔ 
الله کے نبی دُنیا والوں کے سامنے ہمیشہ ایک ہی سچائی پیش کرتے رہے کہ تمام جہانوں کا رب ایک الله تعالی ہے ۔ اب قرآن مجید میں الله تعالی اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان سب پر ایمان لائیں ۔ روداری اور سچائی کو قبول کرنے کی اس سے اعلٰی مثال اور کیا ہو سکتی ہے ۔ 
ماْخذ                         ۔۔۔    
درس قرآن ۔۔۔مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...