نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کفر کا نتیجہ ۔۔۔۔

خَتَمَ     اللَّهُ۔           عَلَى۔    قُلُوبِهِمْ         وَ۔   عَلَى    سَمْعِهِمْ۔     وَعَلَى۔    أَبْصَارِهِمْ      غِشَاوَةٌ    وَلَهُم۔     عَذَابٌ۔      عَظِيمٌ
مہر لگا دی ۔ الله تعالی نے ۔پر  ۔ اُن کے دلوں اور ۔ پر ۔ اُن کے کان ۔ اور پر ۔ اُنکی آنکھیں ۔  پردہ  ۔ اور ان کے لئے ۔ عذاب۔ بڑا 
خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
الله تعالی نے اُن کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ۔ اور اُن کی آنکھوں پر پردہ ہے اور اُن کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔ 
خَتَمَ ۔۔۔ مُہر لگا دی ۔ اس سے مراد وہ نتیجہ ہے جو مسلسل انکار اور مخالفت حق سے پیدا ہوتا ہے ۔ مہر لگانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس پر مہر لگائی گئی ہے ۔ باہر سے کوئی چیز اس کے اندر نہ جا سکے اور اندر سے کوئی چیز باہر نہ آسکے ۔ مثلا دل پر مہر لگ جائے تو نہ حق بات دل میں داخل ہو سکتی ہے ۔ اور نہ کسی اچھی بات کے اظہار کی جرأت رہتی ہے ۔ 
قُلُوبِھِم ۔ اُن کے دل ۔ یہ قلب کی جمع ہے ۔ یہاں قلب سے مراد گوشت کا ٹکرا نہیں بلکہ وہ قوّت ہے جو شعورِعقل اور ارادے کی بنیاد ہے ۔ 
سَمْعِھِم ۔۔۔ اُن کے کان ۔ سمع کے معنی سننے کی قوت ہے اور مراد ہے کان ۔ 
اَبْصارِھِمْ ۔۔۔ ان کی آنکھیں  ۔ ابصار کا واحد بصر ہے اور اس سے مراد دیکھنے کی قوت ہے ۔ 
غِشَاوَہ ۔۔۔ پردہ ۔ یہ لفظ غَشِیٌّ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ڈھانپنا ہیں ۔ یہاں مراد وہ پردۂ غفلت ہے جو حق کی نشانیاں دیکھ کر بھی حق کو ماننے کے درمیان میں آجاتا ہے ۔ 
 دنیا میں ہر چیز کے لئے یہ قانون ہے ۔ کہ جب کوئی قوت مسلسل طور پر کام میں نہ لائی جائے تو آخرکار وہ اپنا عمل چھوڑ دیتی ہے ۔ یہی حال حق بات کو سمجھنے اور دیکھنے کی قوّتوں کا ہے ۔ اگر انہیں مسلسل بے کار رکھا جائے ۔ تو الله تعالی کا یہ فطری قانون یہاں بھی نافذ ہوتا ہے ۔ اسی قانون کے جاری ہونے کا ذکر اس آیہ میں کیا گیا ہے ۔ 
الله تعالی کی طرف سے مہر لگ جانے کا عمل انسان کے جان بوجھ کر کفر اختیار کرنے اور اس پر اصرار کرنے کے بعد ہوتا ہے 
۔ ہر شخص کو الله تعالی کی طرف سے صحیح فطرت عطا ہوئی ہے ۔ اور اس میں الله تعالی کی نشانیوں پر غور کرنے کی قوّت بھی شامل ہے ۔ لیکن جب اپنی قوتوں کا غلط استعمال کرنے لگتا ہے ۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے منہ موڑ کر شیطان کے پیچھے چلنے کا ارادہ کر لیتا ہے ۔ تو وہ دینِ اسلام کے رحمت کے سلسلے سے نکل جاتا ہے ۔ اور الله تعالی کی مدد اُس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے ۔ اور اب وہ غلط راستے ہی کو سیدھا راستہ سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ 
کفر اور ہر گناہ کی  اصل سزا تو آخرت میں ملے گی ۔ لیکن بعض گناہوں کی کچھ سزا اس دُنیا میں بھی مل جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں اصلاح کی توفیق ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ انسان آخرت کے حساب و کتاب سے بے خبر ہو کر اپنی نافرمانیوں اور گناہوں میں بڑھتا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ بُرائی کا احساس بھی اس کے دل سے ختم ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ گناہ کی ایک سزایہ بھی ہوتی ہے کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ جس طرح نیکی کا فوری بدلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچ لاتی ہے ۔ 
حدیث مبارکہ  ہے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  ۔ مفہوم ۔ کہ انسان جب گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔ پھر اگر وہ توبہ کر لے تو صاف ہو جاتا ہے ۔  ( ترمذی  بروایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ ) ۔
 ظاہر ہے جس طرح زہر کھانے کا قدرتی نتیجہ موت ہے ۔ اسی طرح الله تعالی کے حکموں  کی جان بوجھ کر نافرمانی  روحانی موت کی وجہ بن جاتی ہے ۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں انسانی زندگی موت کے بعد ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے جو اس دنیا کی زندگی کا نتیجہ ہے ۔ اس دُنیا میں مسلسل نافرمانی سزا کے طور پر ایک بہت بڑے عذاب کی شکل میں ظاہر ہو گی ۔ 
اللہ تعالی ہمیں دنیا اور آخرت کے ہر طرح کے عذاب سے محفوظ رکھے 
ماخذ ۔۔۔
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...