متّقیوں کی صفات ۔۔۔۳ ۔۔۔۔ مالی قربانی

وَ ۔               مِمَّا ۔            رَزَقْنٰھُمْ ۔     یُنْفِقُوْنَ     3⃣ لا 
اور ۔ اُس میں سے جو ۔ ہم نے انہیں دیا ۔ وہ خرچ کرتے ہیں 
وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ  3⃣ لا 
اور جو کچھ ہم نے اُنہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ 
رَزَقْنٰھُمْ ۔ ( ہم نے انہیں دیا ) ۔ یہ دو لفظ ہیں ۔ رَزَقْنَا  اور۔ ھُم 
رَزَقْنَا  رزق  سے نکلا ہے ۔ عربی میں یہ لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے  ۔ رزق سے مراد ہر قسم کی نعمتیں  ہیں ۔ خواہ ظاہری ہوں یعنی مال ، صحت ، اولاد وغیرہ  یا باطنی ہوں جیسے علم دانائی اور سمجھ وغیرہ ۔ مال الله تعالی کی بخشش میں سے ایک بہت بڑا عطیہ ہے ۔ 
اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر چیز الله تعالی کی طرف سے ملتی ہے ۔ اور جو بھی نعمت انسان کو ملتی ہے الله تعالی کی عنایت سے ملتی ہے ۔ 
 یُنْفِقُونَ ۔ ( وہ خرچ کرتے ہیں ) ۔ یہ لفظ انفاق سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی خرچ کرنا ہیں ۔ 
آیہ مبارکہ کے اس حصہ میں متّقی لوگوں کی تیسری صفت کا بیان ہے ۔ یعنی جو کچھ انہیں الله تعالی نے دے رکھا ہے ۔ وہ اس میں سے مناسب اور ضروری موقعوں پر جائز اور مفید کاموں میں خرچ کرتے ہیں ۔ الله تعالی کے راستے میں مال خرچ کرنا بڑی قربانی ہے ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جسمانی عبادت تو کرتے ہیں لیکن پیسہ خرچ کرنے کا نام نہیں لیتے ۔ اس قسم کی کنجوسی دُنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں نقصان دہ ہے ۔ 
جب انسان کے عزیز واقارب ،  والدین اور رشتہ دار اس کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ ان کی ضرورتوں میں اُن کی مدد کرے اور کنجوس انکار کرتا ہے ۔ تو وہ سخت دکھی ہو جاتے ہیں اس کے علاوہ جب معاشرے میں حاجتمندوں ، یتیموں اور بے کسوں ، غریبوں کی مدد کا دستور نہیں رہتا ۔ اور قوم کی درستی ۔ عوام کی بہبودی اور دشمن کے دفاع میں خرچ نہیں کیا جاتا تو ساری قوم مصیبت میں پڑ جاتی ہے ۔ اور آخر کار افرادی دولت بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ 
 آخرت کی زندگی میں کنجوسی کا یہ انجام ہوتا ہے کہ جب دِل میں مال کی محبت بھر جاتی ہے اور موت کے وقت جسم روح کا ساتھ چھوڑتی ہے ۔ تو وہ مال کی محبت میں بڑی بے چین رہتی ہے ۔ اور یہ غیر ضروری محبت اُس جہان میں سانپ ، بچھو اور آگ کی صورت میں ظاہر ہو کر عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے انسانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ دین ودُنیا کی کامیابیوں کے لئے ضروری ہے کہ یہاں مالی قربانی کرو ۔ اور اسی طرح اس کی دی ہوئی قوّتوں ، صلاحیتوں اور کامیابیوں کو لوگوں کی خدمت میں خرچ کرو ۔ 
 ہمارا فرض ہے کہ اپنی تمام کوششوں ، قوتوں صلاحیتوں اور مال ودولت کو عام لوگوں کی خدمت میں لگانے سے پیچھے نہ ہٹیں ۔ اپنی ہمت کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اس میں ملک اور قوم کا بھی بھلا ہے اور اسی میں ہم سب کا فائدہ ہے ۔ 
یُنْفِقُونَ ۔۔۔ میں ہر قسم کا وہ خرچ شامل ہے جو الله کی راہ میں کیا جائے ۔ خواہ فرض زکٰوۃ ہو یا دوسرے واجب صدقات یا نفلی صدقات و خیرات وغیرہ ۔ اسی طرح انسان کی قوتیں ، صلاحیتیں ، ہمدردی وغیرہ کہ سب کچھ اُسی کا عطا کردہ ہے ۔ الله جل شانہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی عطا کردہ نعمتوں میں سے خوب خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور نفس کی کنجوسی سے بچائے ۔ آمین 
         جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی 
         حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 



کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں