نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

متّقیوں کی صفات ۔۔ ۔۔۔ 1. ( ایمان بالغیب )

الَّذِیْنَ  ۔  یُؤْمِنُونَ۔           بِالْغَیْبِ  ۔ 
جو لوگ ۔  ایمان لاتے ہیں۔ ۔  غیب پر 
اَلّذِینَ یُؤْمِنُونَ بُالْغَیْبِ 
جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔  
الَّذِیْنَ ؛  وہ لوگ جو کہ ۔ یہ اسم موصول ہے ۔ اس کا واحد الَّذِی ہے ۔  قرآن مجید میں یہ لفظ بار بار استعمال ہو گا ۔ ذہن نشین کر لیں ۔ 
یؤْمِنُونَ ۔  ایمان لاتے ہیں ۔ یہ لفظ ایمان سے نکلا ہے ۔ ایمان سے مراد ہے کسی حقیقت کو زبان سے ماننا ۔ دل سے اس پر یقین کرنا  اور اس کے مطابق اس پر عمل کا ارادہ کر لینا ۔ جو ایمان لاتا ہے وہ ہر قسم کے شک وشبہ سے امن میں آجاتا ہے ۔  یہی ایمان ہے جو شریعت میں قابل اعتبار ہے ۔ 
لغت میں کس کی بات کو کسی کے اعتبار پر پورے طور پر مان لینے کا نام ایمان ہے ۔ اسی لئے دیکھ کر یا محسوس کر کے کسی کی بات مان لینے کو ایمان نہیں کہتے ۔ مثلا کوئی شخص سفید کپڑے کو سفید یا سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے اور دوسرا اس کی تصدیق و تائید کر رہا  اس کو ایمان لانا نہیں کہیں گے ۔ کیونکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بنا پر ہے اس میں کہنے والے پر اعتماد ویقین کا کوئی دخل نہیں ۔
شریعت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی باتوں  کو بغیر مشاہدہ کے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے مان لینے کا نام ایمان ہے ۔ 
غیب سے مراد وہ عالم ہے ۔ جو اس ظاہری دنیا سے بُلند ہے ۔ اور جس کی خبریں صرف نبی کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں ۔ 
قرآن مجید میں غیب سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کی خبر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دی ہے ۔ اور ان کا علم عقل سمجھ اور مشاہدہ یا حواس خمسہ سے نہیں ہو سکتا ۔ 
مثلا الله تعالی کی ذات و صفات ، فرشتے ، جنت و دوزخ ، حساب و کتاب ، قیامت  ، اسں میں پیش آنے والے واقعات  ،  جزاء اور سزا ،   تمام آسمانی کتابیں اور انبیاء سابقین  وغیرہ 
تو اب ایمان بالغیب کے معنی یہ ہو گئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جو ہدایات اور تعلیمات لے کر آئے ہیں اُن سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا ۔ شرط یہ ہے کہ ان تعلیمات کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نقل ہونا قطعی طور پر ثابت ہو ۔ چنانچہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر ایمان بالغیب کامل نہیں ہوتا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ صرف جان لینے کو ایمان نہیں کہتے ۔ کیونکہ جہاں تک جاننے کا تعلق ہے تو وہ ابلیس و شیطان اور بہت سے کافروں کو بھی حاصل ہے ۔ کیونکہ اُن کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سچائی کا یقین تھا ۔ مگر اس کو مانا نہیں اس لئے وہ مؤمن نہیں ہیں ۔ 
اس سے پہلے سبق میں بتایا گیا تھا ۔ کہ قرآن مجید اُن لوگوں کے لئے دستورِ حیات ہے جو نہایت خلوص اور پاک نیت سے اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جن میں احتیاط اور نگہداشت سے زندگی بسر کرنے کا جذبہ اور صلاحیت موجود ہو ۔ اور وہ محتاط اور پاکیزہ زندگی گزارنے کا شوق رکھتے ہوں ۔ اس آیہ مبارکہ میں متقین کی پہلی صفت بیان کی جاتی ہے ۔ جو قرآنی ہدایت سے ان میں پیدا ہو گی ۔ وہ یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں ۔جن کا وجود ظاہری حواس سے بلند ہو ۔ 
ایمان کے بغیر دل میں بے چینی اور بے قراری ہی رہتی ہے ۔ کیونکہ ایمان اور یقین نہ ہو تو شک اور تردّد ، وہم و گمان  دل میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ۔ لیکن ایک ایمان والا سخت سے سخت مصیبت اور آزمائش کے وقت بھی کبھی نہیں گبھراتا ۔ بلکہ اس کو امید لگی رہتی ہے اور یقین ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑا سہارا اور مضبوط آسرا رکھتا ہے ۔ اس سے دماغ کو سکون ، دل کو  اطمینان اور روح کو چین نصیب ہوتا ہے ۔  غیب پر یقین رکھنے کا یہ عقیدہ دین کا مغز اور ایمان کی روح ہے ۔ اس کے بغیر ایمان پختہ نہیں ہوتا ۔ 
ہم نے اپنے آپ کو قرآن کریم سے ہدایت لینے کے لئے تیار کر لیا  اور متقی لوگوں میں شامل ہو گئے ۔ اب ہمیں چاہئے کہ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق اپنے اندر وہ صفات پیدا کر لیں ۔ جن کا حکم الله جل شانہ قرآن مجید میں دیتا ہے ۔ ہمیں بغیر  چون وچرا غیب کی تمام حقیقتوں پر ایمان لے آنا چاہیے ۔ جن کی خبر ہمیں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی معرفت دی گئی ہے ۔ الله تعالی ہمیں اس کی توفیق دے  ۔ آمین 
ماخذ ۔۔۔ 
معارف القرآن ۔۔۔۔۔ مفتی محمد شفیع  رحمہ الله تعالی 
درس قرآن ۔۔۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...