نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

منافقوں کا دعوٰی ایمانی ۔۔۔۔

وَ ۔ مِنَ ۔النَّاسِ ۔ مَن ۔      يَقُولُ  ۔                 آمَنَّا ۔             بِاللَّهِ۔       ۔ وَبِالْيَوْمِ  الْآخِرِ ۔    وَمَا  ۔ هُم ۔   بِمُؤْمِنِينَ۔  8️⃣م
اور۔  سے ۔ لوگوں ۔ جو ۔ وہ کہتا ہے ۔ ہم ایمان لاتے ہیں ۔ الله تعالی پر ۔ اور آخرت کے دن پر ۔ اور نہیں ۔ وہ ۔ ایمان والے  ۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ۔   8️⃣م 
اور کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم الله تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں  حالانکہ وہ ایما ن والے نہیں ہیں ۔ 

اب تک الله تعالی نے قرآن مجید میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔ ایک الله جل شانہ کے قانون کے فرمانبردار  مومن ۔ اور دوسرے قانونِ الٰہی کا انکار کرنے والے کافر ۔ اب تیسری قسم کے لوگوں کا ذکر شروع ہو رہا ہے ۔ یہ لوگ بھی اسلام کے مخالف اور دشمن ہی ہیں مگر یہ اپنے کفر اور دشمنی پر فریب کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں ۔ زبان پر اسلام کا دعوٰی رکھتے ہیں لیکن دل میں کفر ۔ انہیں قرآن مجید کی اصطلاح میں مُنافق کہا گیا ہے ۔ نفاق یہ ہے کہ انسان اعلان تو نیکی اور اسلام کا کرتا پھرے  لیکن دل میں بدی اور کفر چھپائے رکھے ۔ 
اسلام نے جب ایمان بالله اور ایمان بالاخرہ کے عقیدوں کا اعلان کیا ۔ تو جس کو مسلمان بننا منظور ہوتا اُس کے لئے ان دونوں عقیدوں کو ماننا ضروری تھا ۔ چنانچہ مدینہ طیبہ کے لوگوں کےایک خاص گروہ نے انہی دو عقیدوں کا اظہار کر کے چاہا کہ مسلمانوں میں شامل ہو جائیں ۔ وہ مسلمانوں میں شامل کر لئے گئے ۔ لیکن اُن کے دل صاف نہ تھے ۔ اُن کی چالوں سے بچنا ضروری تھا ۔ اس لئے الله تعالی نے قرآن مجید میں خبر دے دی کہ یہ لوگ ان عقیدوں کو دل سے نہیں مانتے ۔ اس لئے مسلمانوں کو ان سے خبردار رہنا چاہئے ۔ 
معلوم یہ ہوا کہ اس زمانے میں منافق کی علامت یہ تھی کہ وہ زبان سے اسلام کے ان دونوں عقیدوں پر اپنے ایمان کا دعوٰی کرتے تھے ۔ لیکن دل سے انہیں نہیں مانتے تھے ۔ اگر آج بھی کسی کا ظاہر اور باطن ایک نہ ہو ۔ تو اسے اپنے طور پر خود اپنا محاسبہ کر لینا چاہئے ۔ جب تک زبان اور دل ایک نہ ہوں ۔ اس وقت تک ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔ بلکہ یہ حالت نفاق کی ہوتی ہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضوان الله علیھم اپنی بزرگی اور کمال کے باوجود خود اپنا محاسبہ کیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ایمان اور اخلاص کے اعلٰی درجہ تک پہنچے ۔ الله تعالی نے انہیں بلند مقامات عطا کئے اور انہیں کامیابیوں سے نوازا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔مرتبہ درس  قرآن بورڈ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...