نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

منافق ۔۔۔

سورۃ بقرہ کے شروع میں قرآن کریم کا شک وشبہ سے پاک ہونا بیان کرنے کے بعد بیس آیات میں اُس کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ پہلی پانچ آیات میں ماننے والوں کا ذکر متقین کے عنوان سے ہے ۔ پھر دو آیتوں میں ایسے نا ماننے والوں کا ذکر ہے جو کُھلے طور پر قرآن مجید سے دشمنی رکھتے ہوئے انکار کرتے ہیں ۔ اب اگلی تیرہ آیتوں میں ایسے منکرین اور وکفار کا ذکر ہے جو ظاہر میں  اپنے آپ کو مؤمن مسلمان کہتے ہیں لیکن حقیقت میں مومن نہ تھے ۔ اِن لوگوں کا نام قرآن مجید میں منافقین رکھا گیا ہے 
یہ بات گزر چکی ہے۔ کہ ہر تحریک کی طرح اسلام کے آنے پر بھی تین گروہ پیدا ہوئے ۔ ایک اس کی سچائی پر ایمان لانے والے مؤمن ۔ دوسرے اس کا انکار اور مخالفت کرنے والے  کافر ۔ تیسرا وہ گروہ جو بظاہر ساتھ ہو گیا ۔ مگر حقیقت میں دل سے ایمان نہ لایا ۔ یہ منافق تھے ۔ مؤمن اور کافر کا ذکر پہلے رکوع میں ہوا ۔ اب تیسرے گروہ منافقین کاذکر شروع ہوتا ہے ۔ 
منافق لفظ نفق سے نکلا ہے ۔ اس کے معنی ہیں سُرنگ لگانا ۔ جیسے جنگلی جانور زمین کے اندر اندر سُرنگیں بناتے ہیں ۔ تاکہ وقت آنے پر ان میں چھپ سکیں ۔ اور خفیہ راستوں سے بھاگ سکیں ۔اس لحاظ سے منافق اس بد بخت انسان کو کہا جاتا ہے ۔ جو بظاہر اسلام قبول کر لے ۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف خفیہ چالیں چلے اور دشمنی کے لئے وقت کا انتظار کرتا رہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب مکہ معظمہ  سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ میں خزرج قبیلے کے ایک شخص عبد الله بن ابی بن سلول کو شہر کا سردار بنانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔ وہ بڑا چالاک اور جوڑ توڑ کرنے والا آدمی تھا ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آمد پر اس کی تاج پوشی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ۔ اور سب کی توجہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف ہو گئی۔ 
عبد الله نے یہ دیکھا تو خاموش رہا ۔ اس نے مصلحت اسی میں سمجھی ۔ کہ اسلام اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف کوئی آواز نہ اُٹھائے ۔  لہذا وہ خود بھی مسلمان ہو گیا ۔ اور اس کے ساتھی بھی مسلمان ہو گئے ۔ لیکن اندرونی طور پر اس انتظار میں رہے کہ آئندہ جب موقعہ ملے گا اسلام چھوڑ دیں گے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں گے ۔ 
جوں جوں وقت گزرتا گیا ۔ اسلام کا اثر بڑھتا گیا اور یہ لوگ دل ہی دل میں جلتے رہے ۔ دشمنی کی آگ اُن کے دلوں میں بڑھتی گئی ۔ چنانچہ جب بھی ان کا بس چلا انہوں نے اسلام کی مخالفت کی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دھوکا دیا۔ یہ لوگ آستین کے سانپ ثابت ہوئے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھنے کے باوجود اُن لوگوں نے ہمیشہ وقت پڑنے پر اسلام کی مخالفت کی ۔ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ تعمیر کی ۔ جسے الله تعالی  نے  " مسجد ضرار" کا نام دیا ۔ غزوہ اُحد کے موقعہ پر عین مقابلہ کے وقت مسلمانوں کا ساتھ چھوڑا ۔ دوسرے رکوع میں ان ہی منافقین کی عادات اور خصائل بیان ہوں گی ۔ 
آج بھی اسلام کو سب سے بڑا خطرہ مسلمان جیسے کافروں سے ہے ۔ یعنی جو لوگ بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتے ہیں ۔ مسلمانوں جیسے نام رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں ان کے دل کفر سے بھرے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف انہیں کفّار سے ہمدردی ہے ۔  الله تعالی ہم سب کو ان خرابیوں سے بچائے اور ایمان کامل نصیب فرمائے ۔
ماخذ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...