نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کافر ۔۔۔۔

إِنَّ  ۔ الَّذِينَ  ۔ كَفَرُوا      ۔ سَوَاءٌ    ۔ عَلَيْهِمْ    ۔ أَ     ۔ أَنذَرْتَهُمْ     ۔    أَمْ    ۔ لَمْ             ۔ تُنذِرْهُمْ۔       لَا        ۔  يُؤْمِنُونَ 6⃣
بے شک ۔ جو لوگ ۔ کافر ہیں ۔ برابر ہے ۔ اُن پر ۔ کیا ۔ آپ ڈرائیں اُن کو ۔ یا ۔ نہ ۔ آپ ڈرائیں اُن کو ۔ نہیں ۔ وہ ایمان لائیں گے 

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ 6⃣
بےشک جن لوگوں نے کفر کیا ۔ برابر ہے اُن کے لئے  آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ نہیں ایمان لائیں گے  ۔ 
کفروا ۔۔۔ جو انکار کرتے ہیں ۔ یہ لفظ کفر سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چھپانا ۔ نا شُکری کو بھی کفر اس لئے کہتے ہیں ۔ کہ محسن کے احسان کو چھپانا ہے ۔  شریعت میں جن چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے ۔ ان میں سے کسی کا انکار کرنا کفر کہلاتا ہے ۔ کافر اسے کہتے ہیں جو حق کا منکر اور مخالف ہو ۔ اور الله جل شانہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو نہ مانتا ہو ۔ 
سورہ بقرہ کی پہلی پانچ آیتوں میں قرآن مجید کا کتاب ہدایت  اور ہر شک و شبہ سے پاک ہونے کابیان ہے ۔ اور ساتھ ہی اُن خوش نصیب لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اس کتاب کی ہدایت سے پورا فائدہ اُٹھایا ۔ جنہیں الله جل شانہ نے مؤمنین اور متقین کا لقب دیا ۔ اور اُن کی خاص خاص صفتیں اور علامتیں بھی بیان کر دیں ۔ 
الله تعالی نے جب فلاح حاصل کرنے والے متقیوں کا حال اور اُن کی کامیابیوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ تو ضروری ہے کہ منکروں اور کافروں کا حال اور انجام بھی بیان کیا جائے ۔ تاکہ دونوں کا فرق واضح ہو جائے ۔ اور پرہیز گاروں اور نیکو کاروں کا مرتبہ روشن ہو جائے ۔ 
اس آیت سے ایسے لوگوں کا ذکر شروع ہوا جو ایمان والوں کی بالکل ضد واقع ہوئے ہیں ۔ دل سے بھی اسلام کے دشمن ہیں اور اپنا وقت ، قوت ، دولت غرض ہر چیز اسلام کی مخالفت میں لگاتے ہیں ۔ ایسے لوگ دلیلیں سامنے آنے کے باوجود کفر پر آڑے رہتے ہیں ۔ حق قبول کرنے کی صلاحیت مسلسل انکار اور مخالفت کی وجہ سے کمزور ہوتی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ اس حالت میں نبی کریم صلی الله علیہ وسم کا انہیں ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے ۔ 
اِنْذار ۔۔۔ ایسی خبر دینا جس سے خوف پیدا ہو ۔ اردو زبان میں اس کا ترجمہ " ڈرانے " سے کیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں مطلقاً ڈرانے کو انذار نہیں کہتے ۔ بلکہ ایسا ڈرانا جو شفقت اور رحمت کی وجہ سے ہو ۔ جیسے بچوں کو سانپ ، بچھو یا جانور وغیرہ سے ڈراتے ہیں ۔ اسی لئے جو چور ، ڈاکو یا ظالم کسی انسان کو ڈراتے ہیں اسے انذار نہیں کہا جاتا ۔ نہ ایسے لوگوں کو نذیر کہتے ہیں ۔ 
صرف انبیاء علیھم السلام کو نذیر کا لقب دیا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ شفقت ومحبت کی وجہ سے آئندہ آنے والی تکلیفوں سے ڈراتے ہیں ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ سب لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہو جائیں ۔ اس آیت میں آلله جل شانہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم تسلی دینے کے لئے  یہ حقیقت بتائی کہ آپ خواہ کچھ کریں ۔ یہ حق کو ماننے کی صلاحیت کھو چکے ہیں ۔ 
یہ جو کہا گیا ہے کہ  " رسول الله صلی الله علیہ وسلم آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔ " یہ خبر فیصلے کی صورت میں نہیں ہے ۔ بلکہ اُن کے مسلسل انکار اور مخالفت کے نتیجے کا اظہار اور اعلان ہے ۔ الله تعالی نے ہر شخص میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے ۔ لیکن جو لوگ ذاتی فائدوں ، کوہ تانظری ، غلط تعلیم یا بُری صحبت کی وجہ سے سچائی کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اُن میں حق قبول کرنے کی قوت آہستہ آہستہ باقی نہیں رہتی ۔ یہ برابری کفار کے لئے ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو تو تبلیغ و تعلیم اور اصلاحِ انسانیت کی کوشش کا ثواب ہر حال میں ملے گا ۔ اسی لئے پورے قرآن مجید میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایسے لوگوں کو ایمان کی دعوت دینے سے روکا نہیں گیا ۔ اس سے معلوم ہوا جو شخص دعوت وتبلیغ کا کام کرتا ہے ۔ اُس کا اثر ہو یا نہ ہو ۔ اس شخص کو ہر حا ل میں اپنے عمل کا ثواب ملتا ہے ۔ 
 اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ تلاش حق کی جو قوت ہمارے اندر فطری طور پر موجود ہے ۔اس کو ضائع نہ ہونے دیں ۔ ہمیشہ حق اور صداقت کی جستجو میں لگے رہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ حق کی تعلیم عام کریں ۔ اور اس خوش اسلوبی اور حکمت سے الله تعالی کا پیغام بندوں تک پہنچائیں ۔ کہ ان کے دلوں میں نرمی اور الله تعالی کا خوف پیدا ہو ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
معارف القرآن 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...