*حق کو چھپانے کی ممانعت*

وَلَا      ۔ تَلْبِسُوا       ۔ الْحَقَّ        ۔ بِالْبَاطِلِ 
اور نہ ۔      تم ملاؤ      ۔ سچ ۔     جھوٹ سے 
وَتَكْتُمُوا      ۔ الْحَقَّ      ۔ وَأَنتُمْ       ۔ تَعْلَمُونَ۔  4️⃣2️⃣
اور نہ تم چھپاؤ ۔     سچ  ۔     اور تم ۔              تم جانتے ہو 
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ.  4️⃣2️⃣
اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور سچ کو نہ چھپاؤ اور تم جانتے 

لَا تَلْبِسُوا ۔ ( مت ملاؤ ) ۔ یہ لفظ لَبس  سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز میں ملا دینا تاکہ اس کا پہچاننا مشکل ہو جائے ۔ اور جھوٹ کو سچ کی شکل میں ظاہر کرنا جس سے سچ کی پہچان مشکل ہو جائے ۔ یا جھوٹ کے اوپر ایسا ملمّع کرنا کہ دیکھنے میں بالکل سچ معلوم ہو ۔ 
تَکْتُمُوا ۔ ( چھپاؤ) یہ کَتَمَ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چھپانا ۔ الله جل شانہ کے حکموں کو بدلنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ان کے معنی یا الفاظ بدل دینا ۔ دوسری یہ کہ سرے سے چھپا دینا ۔
 یہودی دونوں طریقوں سے آسمانی کتابوں کی تعلیم اور رسولِ عربی صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں پیش گوئیوں کو بدلتے تھے ۔ تورات کے ضائع ہو جانے سے بعض احکام تو ویسے ہی سرے سے غائب اور گم ہوگئے تھے ۔ پھر جو باقی رہ گئے انہیں بھی ان لوگوں نے اپنی مصلحتوں اور ذاتی فائدوں کے لئے بدل ڈالا ۔ 
ظہور اسلام کے وقت یہودی عالموں نے اپنے دین کی رہی سہی شکل کا حلیہ بگاڑ رکھا تھا ۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق آسمانی کتابوں کے احکام بدل دیتے تھے ۔ جو کتابیں گم ہو چکی تھیں اُن کی جگہ اپنی طرف سے اور کتابیں لکھ کر اُن کے نام پر پیش کر دی تھیں ۔ کبھی تفسیر اور تشریح لکھ کر اصلی عبارت کے ساتھ ملا دیتے اور دونوں میں فرق کی کوئی نشانی نہ رکھتے ۔ آسمانی احکام جس عالم یا راہب کے پاس ہوتے وہ کسی مالی لالچ یا کسی دنیاوی طمع کی خاطر انہیں گھٹا بڑھا دیتا تھا ۔ 
حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش اور نبوت کی تمام نشانیاں ان کی کتابوں میں موجود تھیں ۔ لیکن جب آپ تشریف لائے ۔ تو حسد کی آگ میں جل کر ان نشانیوں کو چھپانے لگے ۔ اور بعض کو اُلٹ پلٹ کر بیان کرنے لگے ۔ اس لئے الله جل جلالہ نے فرمایا کہ حق کو نہ چھپایا کرو ۔ تمہاری گمراہی سے دوسرے لوگ بھی گمراہ ہوتے ہیں ۔ 
بنی اسرائیل کی تاریخ کے اہم واقعات جو قرآن مجید بیان کرتا ہے ۔ ان کی سب سے بڑی غرض ایک طرف تو خود یہود اپنی برائیوں سے آگاہ ہو جائیں ۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھا دیا جائے کہ اس قسم کی باتوں کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں ہے ۔ 
ہمیں چاہئیے کہ الله جل شانہ کے ان بیان کردہ واقعات اور بنی اسرائیل کے عروج و زوال پر غور کریں اور اپنے اندر ان جیسی بُری باتیں پیدا نہ ہونے دیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*جہاد اور نیت*

*حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنھا*سےروایت ہے کہ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ارشاد فرمایا : فتح کے بعد ہجرت تو باقی نہیں رہی ۔ لیکن جہاد اور نیت باقی ہیں ۔ جب بھی تمہیں جہاد کے لئے روانہ ہونے کی دعوت دی جائے تو فوراً روانہ ہو جاؤ ۔ 
*ھجرت* 
مکہ معظمہ کے فتح ہونے سے پہلے مکہ سے مدینہ ھجرت کرنا فرض تھا ۔ اگر مکہ کا رہنے والا قدرت کے باوجود مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ھجرت  نہیں کرتا تھا تو اس کا اسلام اور ایمان بھی معتبر نہ ہوتا تھا تھا ۔ لیکن مکہ کے فتح ہو جانے اور دار الاسلام بن جانے کے بعد یہ خاص ہجرت باقی نہیں رہی ۔ چنانچہ اب دار الکفر میں مسلمانوں کو اگر کفّار اسلامی عبادات اور احکامات پر عمل کرنے سے نہ روکیں تو ان کے لئے ھجرت کر کے اسلامی ملک میں جا کر آباد ہونا ضروری نہیں ۔ اس لئے ترکِ وطن (ھجرت ) فرض نہیں رہی ۔ یہی مطلب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان کا ہے ۔ 
*جہاد* 
لیکن اسلام اور کُفر کا مقابلہ اور مسلمانوں کی کافروں سے لڑائی اور اس کی تیاریاں رہتی دنیا تک باقی رہیں گی ۔
 حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔ جہاد قیامت تک جاری رہے گا ۔ جہاد ،  اس میں نیک نیتی کا اعتبار اور اس پر اجر وثواب ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا ۔ اسی لئے جب کسی اسلامی ملک کا فرماں روا الله کی راہ میں کافروں سے جنگ کرنے کے لئے میدانِ جنگ جانے اور لڑنے کی دعوت دے تو حسب استطاعت ہر مسلمان کا ۔۔۔۔۔ خواہ وہ اس ملک کا باشندہ ہو یا کسی دوسرے اسلامی ملک کا ۔۔۔۔ فرض ہے کہ وہ محض الله جل جلالہ کے دین کی حفاظت کے لئے کفّار سے جنگ کرے ۔ سوائے ان معذور لوگوں کے جن کو الله جل شانہ نے خود اپنی رحمت سے معذور و مجبور قرار دیا ہے 
*جہاد اسلام کی سب سے بڑی عبادت ہے* 
فتح مکہ سے پہلے ھجرت اور جہاد ۔۔۔۔۔۔  اور اسکے بعد صرف جہاد اسلام کی سب سے اہم اور اجر و ثواب والی عبادتیں ہیں مگر ان دونوں کی الله جل شانہ کے ہاں مقبولیت اور اجرو ثواب ملنے کا دارو مدار صرف اخلاص اور نیت پر ہے اگر رضائے الٰہی کے علاوہ کسی بھی اور نیت سے کرے گا تو یہ عبادتیں بھی مردود ہیں ۔ اگر الله جل شانہ کے لئے کرے گا تو دنیا اور آخرت دونوں میں اجر عظیم پائے گا یہی اس حدیث کی اصل روح ہے ۔ 
*مأخذ* 
يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ 
اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔  
سورۃ مائدہ آیہ ۔ 54 

*آیاتِ الٰہی کا مول*

وَلَا                  ۔ تَشْتَرُوا۔          ۔ بِآيَاتِي     ۔ ثَمَنًا          ۔ قَلِيلًا     ۔ 
اور نہ ۔ تم خرید و فروخت کرو  ۔ میری آیات کی ۔ قیمت ۔             تھوڑی 
وَإِيَّايَ       فَاتَّقُونِ.   4️⃣1️⃣
اور صرف مجھ ہی سے ۔ پس تم ڈرتے رہو 

   4️⃣1️⃣ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ
اور میری آیات پر تھوڑا مول نہ لو  اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو ۔ 

ثَمَناً قَلِیْلاً ۔ ( تھوڑی قیمت ) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حق کو چھوڑ کر دنیا کے طلب گار نہ بنو ۔ دنیا بظاہر کیسی ہی بڑی اور شاندار نظر آئے پھر بھی سچائی اور حق کے مقابلے میں حقیر اور بے قدر چیز ہے ۔ کیونکہ عارضی اور نا پائیدار ہے ۔ 
وَ ایَّایَ فَاتَّقُوْنَ ۔( اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو ) ۔ اِتِّقَا کے معنی ہیں برائیوں سے بچنا یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ برائیوں سے بچنے کی وجہ صرف الله جل جلالہ کے عذاب اور ناراضگی کاخوف ہونا چاہئیے ۔کیونکہ خرابیوں سے وہی بچ سکتا ہے جس کے دل میں الله تعالی کا ڈر ہو ۔ 
قرآن مجید  نے یہودیوں کے ساتھ جو نرمی اختیار کی ۔ اور جس خوبی کے ساتھ انہیں اسلام کی دعوت دی ہے وہ بجائے خود قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے کا ثبوت ہے ۔ واقعات کے اظہار کے طریقے اور خطاب کے طرز سے یہود کا پورا احترام ظاہر ہوتا ہے ۔ کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جو اُن کے لئے اشتعال کا باعث ہو ۔ سچائی کے اظہار کے لئے اس کے مناسب ماحول پیدا کرنا قرآن مجید فرقانِ حمید کا معجزہ ہے ۔ جس کی ہم مسلمانوں سے اگر تھوڑی سی بھی نقل ہو جائے تو دنیا کے تمام ڈر دور ہو جائیں ۔ 
یہود نے جو طرزِ عمل اسلام کے ساتھ اختیار کیا اس کی بنیاد ہٹ دھرمی اور ناسمجھی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ آیاتِ الٰہی فروخت کرنے سے مراد یہ ہے کہ یہودی علماء دنیا کے عارضی فائدوں کے لئے الله جل جلالہ کے احکام بدل ڈالتے تھے ۔ چند سکّوں کی خاطر خود ساختہ فتوے جاری کر دیتے تھے ۔ اپنے عیب چھپانے کے لئے الله کریم کے احکام کو چھپاتے اور خلط ملط کر دیتے تھے ۔ جب کسی قوم کے علماء میں اس قسم کے عیب پڑ جائیں ۔ تو اس قوم کا تباہی سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ 
اس سبق میں الله رحیم و کریم نیک اخلاق کی سب سے زیادہ تلقین فرماتا ہے ۔ دُنیا کی زندگی اور اس کے فائدے صرف چند روزہ ہیں ۔ اس وجہ سے وہ یہودیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ تم نذرانوں اور حقیر ہدیوں کی خاطر میرے کُھلے کھُلے حکموں کو بدل کر لوگوں کی خواہشات کے مطابق فیصلے نہ دیا کرو ۔ میرے احکام صاف صاف اور ٹھیک ٹھیک بتا دینے سے جو دُنیا اور آخرت میں انعام ملے گا وہ ان عارضی اور تھوڑے تھوڑے معاوضوں سے بہت زیادہ ہے ۔۔ 
درسِ قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 
الله کریم ہمارے علماء کرام کو حق و باطل کو کھول کھول کر بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور اس پر استقامت بخشے ۔ 

*دعوتِ قرآن*

وَآمِنُوا    ۔    بِمَا    ۔    أَنزَلْتُ              ۔     مُصَدِّقًا۔          
اور تم مان لو ۔     وہ جو ۔ میں نے اُتاری ۔ سچ بتانے والی 
 لِّمَا                    ۔ مَعَكُمْ       ۔ وَلَا       ۔   تَكُونُوا      ۔    أَوَّلَ      ۔ كَافِرٍ     ۔     بِهِ 
اس کے لئے جو ۔ تمہارے پاس ہے ۔ اور نہ       ۔ تم ہو جاؤ  ۔ پہلے      ۔ کافر    ۔ اس کے  

وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ 
اور ایمان لے آؤ اس کتاب پر جو میں نے اتاری  اس کی تصدیق کرنے والی ہے  جو تمہارے پاس ہے ۔ اور تم سب سے پہلے اس کا انکار کرنے والے نہ ہو جاؤ ۔ 

مَا اَنْزَلْتُ ۔ ( جو میں نے نازل کیا ) ۔ اس سے مراد قرآن مجید ہے جو آخری نبی صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوا ۔ اور الله جل جلالہ کی آخری کتاب ہے ۔ 
قرآن مجید پر ایمان لانے کی دعوت سب سے پہلے بنی اسرائیل کو دی گئی ۔ اہلِ کتاب میں یہی سب سے زیادہ مشہور تھے ۔ مدینہ طیبہ اور اس کے اردگرد بستے تھے ۔ یہ اصول اس قاعدے کے بھی مطابق تھا کہ نیکی اور اس کی دعوت سب سے پہلے اپنے قرابت داروں اور ہمسائیوں سے شروع کرنی چاہئیے ۔ 
سورة بقرہ قرآن مجید کے ذکر سے شروع ہوئی  ۔ اور بتایا گیا کہ قرآن مجید کی ہدایت اگرچہ ساری مخلوق کے لئے عام ہے لیکن اس سے فائدہ اور نفع صرف مؤمنین اٹھائیں گے ۔ اس کے بعد اُن لوگوں پر شدید عذاب کا ذکر کیا جو اس پر ایمان نہیں لائے ۔ کھلا انکار کرنے والے کافر اور دنیاوی  غرض کے لئے اسلام میں شامل ہونے والے منافق اور مشرک تینوں طبقے اس میں شامل ہیں ۔ منافقین اور کافر ان دونوں ہی میں دو طرح کے لوگ تھے ۔ بت پرست مشرکین جن کے پاس کوئی علم جدید یا قدیم نہیں تھا ۔ عام طور پر اَن پڑھ اُمّی تھے دوسرے وہ لوگ جو اہلِ کتاب کہلاتے ہیں ۔ 
سورۃ بقرہ چونکہ "مدنی "سورۃ ہے اس لئے اس میں مشرکین اور منافقین کے بیان کے بعد اہل کتاب کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے ۔ اہلِ کتاب کے بھی دو طبقے ہیں ایک یہود جو موسٰی علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے ۔اور دوسرے نصارٰی جو عیسٰی علیہ السلام کے پیرو کار تھے ۔ ان دونوں کو قرآن مجید میں اس وجہ سے اہلِ کتاب کہا گیا ہے کہ یہ دونوں الله جل جلالہ کی آسمانی کتاب " تورات " اور " انجیل"  پر ایمان رکھتے تھے ۔ 
چالیسویں آیت سے لیکر ایک سو تیس آیات آخر پارہ *الٓم* تک انہی لوگوں سے خطاب ہے ۔ اس سے پہلی آیت میں الله جل شانہ نے انہیں اپنے انعام و احسانات یاد کروا کر یہ فرمایا کہ وہ اپنے وعدے کو جو وہ الله تعالی سے کر چکے ہیں پورا کریں ۔ 
اس میں سب سے اہم  معاھدہ تمام رسولوں پر ایمان لانے کا شامل ہے ۔ جن میں ہمارے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم خصوصیت سے شامل ہیں ۔ اسی لئے حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اس عہد سے مراد *محمد صلی الله علیہ وسلم* کا اتباع ہے ( ابنِ جریر بسند صحیح ) ۔    اس کے علاوہ نماز ۔ زکوٰۃ اور صدقات بھی اس عہد میں شامل ہیں 
*امت ِ محمدیہ صلی الله علیہ وسلم کی ایک خاص فضیلت* 
تفسیرِ قرطبی میں ہے کہ الله جل شانہ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں اور احسانات یاد کروا کر اپنی یاد اور اطاعت کی طرف دعوت دی ہے ۔ اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی امت کو اسی کام کی طرف بغیر انعامات و آحسانات جتائے فرمایا ! 
فَاذْکُرُوْنِی ٓ اَذْکُرْکُمْ ۔۔۔۔   تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا ۔ 
امت محمدیہ  کا تعلق الله کریم سے بغیر کسی واسطہ کے ہے ۔۔۔۔ محسن کو پہچان کر احسان مانتے ہیں اور دوسر ی قومیں احسانات کے ذریعے اپنے محسن کو پہچانتی ہیں ۔۔۔۔۔ 
 اس کے بعد انہیں سمجھایا جا رھا ہے کہ الله جل جلالہ اور اسکی ھدایت کو پہچاننے کے باوجود ایسا نہ ہو کہ تم ہی سب سے پہلے کفر کرنے والے ہو جاؤ ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پہچان کا علم اور قرآن مجید کی سچائی کا پتہ جتنا تمہیں ہے اور کسی قوم کو نہیں ۔قرآن مجید میں خود تمہاری کتابوں کے اصولوں کی تصدیق کی گئی ہے  اس لئے دوسری قوموں کے لئے کفر و انکار کا نمونہ نہ بنو ۔ 
تمہیں یہ خوف ہرگز نہ کرنا چاہئیے کہ اس آخری کتاب اور آخری نبی پر ایمان لانے سے تمہارا دنیوی جاہ و جلال اور اثر رسوخ ختم ہو جائے گا بلکہ تم دیکھ لو گے کہ اسلام کی برکت سے ساری خرابیاں زائل ہو جائیں گی ۔ دُنیا بھی تمہارے لئے باعثِ آرام ہو گی اور آخرت کی سزا سے بھی بچ جاؤ گے ۔ 
مأخذ ۔۔۔۔۔ 
معارف القرآن ۔۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی 
درسِ قرآن مرتبہ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درسِ قرآن بورڈ

*بنی اسرائیل پر انعاماتِ خداوندی*


يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ     ۔ اذْكُرُوا۔               ۔  نِعْمَتِيَ      
اے اولاد یعقوب ۔       یاد کرو ۔    میرے احسان ۔ 
الَّتِي۔          أَنْعَمْتُ           ۔    عَلَيْكُمْ           ۔   وَأَوْفُوا      ۔ 
وہ جو ۔ میں نے انعام کیا       ۔ تم پر      ۔ اور تم پورے کرو 
بِعَهْدِي         أُوفِ                          بِعَهْدِكُمْ۔      
میرا عھد ۔   میں پورا کروں گا ۔     تمہارے عہد کو 
 وَإِيَّايَ                   فَارْهَبُونِ۔  4️⃣0️⃣
اور خاص مجھ سے         ۔ پس تم ڈرتے رہو 

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ.   4️⃣0️⃣
اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے  اور تم میرا اقرار پورا کرو تو میں تمہارا اقرار پورا کروں گا اور تم صرف مجھ ہی سے ڈرو ۔ 
بنی اسرائیل ۔ ( اولاد ِ اسرائیل ) ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔ جو حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے اور 
 حضرت ابراھیم علیہ السلام کے پوتے تھے ۔ ۔ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے ۔ اور اس کے معنی الله کا بندہ ہیں ۔ بنی اسرائیل سے مراد یہودی ہیں ۔ 
نِعْمَتِیْ ۔ ( میری نعمت ، میرا احسان ) ۔ مراد الله تعالی کی وہ نعمتیں اور احسانات ہیں جو اس نے یہودیوں پر کئے ۔ مثلاٌ غلامی کے عذاب سے نجات دی ۔ اُن کے دشمن فرعون کو غرق کیا ۔ اُن کے لئے بحیرۂ قلزم میں راستہ بنایا ۔ بیابان میں من و سلوٰی جیسی لذیذ خوراک انہیں بغیر کسی محنت اور مشقت کے دی ۔ مصیبتوں میں غیب سے ان کی مدد کی ۔ 
عَھْدِی ( میرا عھد ، میرا اقرار ) ۔ دو فریقوں کے آپس کے قول و اقرار کو کہتے ہیں ۔ یہاں عہد سے مراد بندوں کا الله جل شانہ سے وہ اقرار ہے ۔ جو انہوں نے دنیا میں آنے سے پہلے اس سے کیا تھا ۔ وہ اس طرح کہ الله تعالی نے انسان کو عقل بخشی ۔ اپنی قدرت کی نشانیوں میں غور کرنے کی طاقت عطا کی ۔ اور اس کے بعد انسان نے یہ ذمہ لیا کہ وہ الله جل شانہ کو پہچانے گا ۔ اس کے بھیجے ہوئے نبیوں پر ایمان لائے گا ۔ اور الله کریم و رحیم کی ھدایت پر چلے گا ۔ اس کے بدلے الله جل شانہ نے وعدہ فرمایا کہ انہیں الله کی رضا حاصل ہو گی اور جنت عطا کی جائے گی ۔ 
فَارْھَبُونَ ( تم ڈرتے رھو ) ۔ یعنی الله تعالی کے سوا کسی اور کا ڈر اور خوف دل میں نہ رکھو ۔ 
الله جل شانہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے اور زمین میں بھیجنے کے بعد اس سے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ اس کی اولاد کے لئے موقع کے مطابق اپنے نبی بھیجتا رہے گا ۔ اور ان کے ذریعے بندوں تک اپنے احکام اور ہدایات پہنچائے گا ۔ اس وعدے کے مطابق دنیا میں نبی آتے رہے ۔ سب سے آخر میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم الله تعالی کے نبی بنا کر بھیجے گئے ۔ ان کو جو دین بخشا گیا وہ ایک عالمگیر دین ہے ۔
اس بنا پر اس رکوع سے تبلیغِ اسلام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ۔ یہودی الله تعالی کے دین کے طریقے سے واقف تھے ۔ اس لئے سب سے پہلے ان ہی سے خاص طور پر خطاب کیا جاتا ہے ۔ اور انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ دینِ الٰہی کی برکتیں تمھارے بزرگ دیکھ چکے ہیں ۔ اور تم اُن سے خوب واقف ہو ۔ اب اس آخری نبی پر ایمان لاؤ تاکہ تم پھر سے انہی نعمتوں کے مستحق ہو سکو۔ ایسا کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے وعدہ پورا کرنے کے برابر سمجھا جائے گا ۔ اور اس کے بدلے میں الله جل شانہ اپنا وعدہ پورا فرمائے گا ۔ تمہارے گناہ بخش دیے جائیں گے ۔ اور تمہیں دنیا اور آخرت میں کامیابی عطا فرمائے گا ۔ 
درس قرآن  ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*بنی اسرائیل*

يَا  ۔      بَنِي        ۔    إِسْرَائِيلَ 
اے  ۔      اولاد۔          بندۂ خدا  
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ 
اے بنی اسرائیل  

اب پانچویں رکوع سے بنی اسرائیل کی تاریخ ، اُن کے بلند مرتبے ، لغزشوں ، گناہوں اور فضیلت کے چھن جانے کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کا یہ حصہ خاص طور پر توجہ سے پڑھنے کے لائق ہے ۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں مسلمانوں کے لئے بہت سے عبرت اور نصیحت کے مواقع ہیں ۔ تاکہ ہم ان لغزشوں اور غلطیوں سے بچ سکیں جن کی وجہ سے یہ عظیم الشان قوم تباہ و برباد ہوئی ۔ اور الله جل جلالہ کے غضب کا نشانہ بنی ۔ 
بنی ٓ اسرَائیل ۔ ( بنی =اولاد ۔۔۔۔۔۔۔ اسرا = بندہ ۔۔۔ ئیل = خدا ) ۔  یعنی خُدا کے بندے کی اولاد ۔ اسرئیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔ اس وجہ سے ان کی اولاد اور خاندان کو بنی اسرائیل کا لقب ملا ۔ انہیں یہودی بھی کہتے ہیں ۔ 
بنی اسرائیل کا سلسلہ اصل میں حضرت ابراھیم علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے ۔ اُن کے دو بیٹے تھے ۔   
 حضرت اسمٰعیل علیہ السلام  :  یہ حجاز میں آباد ہوئے اور اُن کی اولاد میں آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پیدا ہوئے ۔ 
حضرت اسحاق علیہ السلام : ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام تھے ۔ جن کا لقب اسرائیل ہوا ۔ ان کی اولاد فلسطین میں ہوئی ۔ 
یہ لوگ آپس میں لڑتے جھگڑتے رہے ۔ کچھ عرصہ بعد اہلِ مصر نے ان پر غلبہ حاصل کر لیا ۔ انہیں غلاموں کی طرح رکھا ۔ اور شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ۔ آخر حضرت موسٰی علیہ السلام  پیدا ہوئے ۔ اور اس قوم کو مصر کی غلامی سے نکال کر وادئ سینا میں لے گئے ۔ 
کچھ عرصہ کے بعد یہ لوگ اپنے وطن کنعان میں لوٹے ۔ اس قوم کا بہترین زمانہ حضرت داود علیہ السلام  اور حضرت سلیمان علیہ السلام  کا تھا ۔ پھر اس قوم میں پھوٹ پڑ گئی ۔ دین کی مخالفت اور انبیاء علیھم السلام کی دشمنی کی وجہ سے مصیبتوں کا شکار ہوئی ۔ 
دو مرتبہ اس قوم پر ایسے زبردست حملے ہوئے اور اس قدر تباہی آئی کہ یہ لوگ اپنا وطن چھوڑ کر ادھر اُدھر بھاگنے پر مجبور ہو گئے ۔ مگر افسوس  اپنی شرارتوں اور نافرمانیوں سے باز نہ آئے ۔  
درس قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*منکرینِ وحی کا انجام*

وَالَّذِينَ     ۔ كَفَرُوا  ۔      ۔     وَكَذَّبُوا                      ۔ بِآيَاتِنَا
اور وہ لوگ ۔ کافر ہوئے ۔ اور انہوں نے جھٹلایا  ۔ ہماری آیات کو 
 أُولَئِكَ      ۔ أَصْحَابُ     ۔ النَّارِ       ۔ هُمْ    ۔ فِيهَا        ۔ خَالِدُونَ۔ 3️⃣9️⃣
یہی ہیں ۔ صاحب ۔  مم۔  آگ ۔        وہ۔    اس میں ۔ ہمیشہ رہنے والے ہیں 

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ. 3️⃣9️⃣
اور جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہی جھنمی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ 

اصحاب النّار ۔ ( جہنمی) ۔  اس کا مطلب ہے دوزخ میں رہنے والے ۔ گویا جو لوگ شریعت سے انکار کرکے الله جل جلالہ کے قانون کو جھٹلاتے ہیں ۔ انہوں نے اپنا تعلق دوزخ سے جوڑ لیا ہے  اُن کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہو گی ۔ 
حضرت آدم علیہ السلام جب دنیا میں آئے تو الله تعالی نے انہیں دُنیا میں رہنے سہنے کا قانون ، الله تعالی کو راضی رکھنے کا طریقہ اور دوبارہ جنت میں جانے کا راستہ بتا دیا ۔ یعنی یہ کہ الله جل شانہ انہیں ضرورت کے وقت اپنا پیغام بھیجتا رہے گا ۔ جو ان کی راہنمائی کا ذریعہ ہوگا ۔ اور ان کی نسل کو بھی انبیاء علیھم السلام کے ذریعے ھدایت ملتی رہے گی ۔ انسان صرف اپنی عقل سے سیدھی راہ نہیں پا سکتا ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ الله تعالی کی طرف رجوع کرے ۔ جو اس کی فطرت بنانے والا ہے ۔ 
جو لوگ اس کی ہدایت کو سچے دل سے قبول کریں گے ۔ اس کی بھیجی ہوئی نشانیوں میں  غور کریں گے اور اس کے حکموں پر پختگی سے عمل کریں گے ۔ وہ ہر طرح کے غم اور افسوس سے نجات پائیں گے ۔ اور الله جل شانہ کو راضی کر لینے کے سبب دنیا کی زندگی کے بعد جنت میں داخل ہوں گے ۔ جہاں ہمیشہ کا آرام اور ہر طرح کا چین انہیں نصیب ہو گا ۔ 
البتہ جو لوگ اُس کی ہدایت سے منہ موڑ لیں گے ۔ اس کے حکموں سے سرتابی کریں گے ۔ وہ اپنی ناقص عقل کی وجہ سے ساری زندگی گمراہی میں بھٹکیں گے ۔ انہیں وہ موت کے بعد دوزخ میں داخل کرے گا ۔ جہاں وہ آگ میں جلیں گے ۔ اور طرح طرح کے عذابوں میں گرفتار ہوں گے ۔ 
آپ نے غور کیا ان لوگوں کا انجام کس قدر خوفناک ہے ۔ جو الله جل جلالہ کی ہدایت سے منہ موڑیں ۔ اور ان لوگوں کا انجام کیسا بہترین ہے جو اس کی ہدایت پر چلیں ۔ آئیے ہم الله جل شانہ کی ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے اس گروہ میں شامل ہو جائیں جو الله کریم کا پسندیدہ ہے ۔ اب اس کی صورت یہی ہے کہ الله تعالی کے آخری نبی *حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم* کی تعلیمات کو دل و جان سے قبول کر لیں اور پختہ ارادے کے ساتھ نیک نیتی سے اس پر عمل کریں ۔
 اس یقین کے ساتھ کہ  ۔۔۔۔۔ یہ تعلیم آخری تعلیم ہے ۔۔۔۔۔ یہ نبی آخری نبی صلی الله علیہ وسلم ہے ۔۔۔۔ 
*جس کے بعد کوئی اور نبی دنیا میں نہیں آئے گا* 

*وحی کی ضرورت*

قُلْنَا۔     اهْبِطُوا۔                       مِنْهَا   ۔      جَمِيعًا                 فَإِمَّا     
ہم نے کہا ۔ اتر جاؤ تم سب        ۔ اس سے ۔      سارے  ۔ پھر جب کبھی
    ۔ يَأْتِيَنَّكُم   ۔          مِّنِّي                      ۔ هُدًى 
 ۔ آئے تمہارے پاس ۔ میری طرف سے              ۔ ھدایت 
فَمَن      ۔ تَبِعَ۔                   ۔ هُدَايَ               ۔ فَلَا     ۔ خَوْفٌ  
پس جو ۔ پیروی کی اس نے ۔     میری ھدایت کی   ۔ پس نہیں   ۔ خوف
   ۔ عَلَيْهِمْ     ۔ وَلَا      ۔ هُمْ         ۔ يَحْزَنُونَ۔  3️⃣8️⃣
      ان پر ۔     اور نہ ۔       وہ        ۔ غمزدہ ہوں گے 
قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.   3️⃣8️⃣
ہم نے کہا تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ  جب کبھی تمہیں میری طرف سے کوئی ھدایت پہنچے ۔ جو میری ھدایت پر چلا ان پر نہ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ 

اِھبِطُوا ۔ ( نیچے جاؤ ) ۔ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو یہ حکم سزا کے طور پر نہیں دیا جا رہا ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش معاف کر دی گئی ۔ لیکن زمین میں رہنے کا حکم بدستور باقی رہا ۔ چونکہ آدم علیہ السلام زمین کے خلیفہ بنائے گئے تھے ۔ زمین میں رکھنے  کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں رہ کر دنیا اور شیطان کی ترغیبات ہوتے ہوئے  میری فرمانبرداری اور اطاعت کریں ۔ اور فرشتوں سے بلند مرتبہ حاصل کریں ۔ 
خَوْفٌ ۔ ( خوف ) ۔ کسی آنے والے نقصان اور تکلیف کے احساس کو کہتے ہیں ۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ میدان حشر میں الله جل شانہ کے اطاعت گزار اور فرمانبردار بندوں کو کوئی ڈر نہیں ہوگا 
لَا یَحزَنُونَ ۔ ( نہ وہ غمگین ہوں گے ) ۔ اس لفظ کا مادہ حزن سے ہے ۔ جس کے معنی ہیں کسی دل پسند چیز کے جاتے رہنے کا دکھ ۔ یہاں اس سے مراد ہے کہ الله تعالی کے نیک اور مؤمن بندے اپنی دُنیا کی زندگی پر حسرت اور افسوس نہیں کریں گے ۔ 
حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی اولاد کے لئے الله جل شانہ نے فرمایا تم سب کے سب زمین پر اُتر جاؤ ۔ اور کچھ فکر نہ کرو وہاں بھی میری نظرِ عنایت تم پر رہے گی ۔ اور میری رحمت تمھارے شاملِ حال رہے گی ۔ اور ساتھ ہی انہیں بتا دیا کہ ضرورت کے وقت میری ہدایات نبیوں کے ذریعے تم تک پہنچتی رہیں گی ۔ تُم اُن کی پیروی کرتے رہنا ۔ جو شخص میری ہدایات کے مطابق چلے گا ۔ اس کو نہ جہنم کا خوف ہوگا اور نہ جنت سے نکالے جانے کا ڈر ہوگا ۔ 
اس قصے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انسان کو روحانی چین اور سکون الله جل جلالہ کی ہدایات پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے  اس کے بغیر بالکل ممکن نہیں ۔ 
الله جل شانہ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی اور پھر انہیں دُنیا میں رہنے سہنے اور اُس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ بتا دیا ۔ 
ہمیں بھی چاہئیے کہ ہم اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کریں ۔ الله کریم سے معافی کی درخواست کریں ۔ اور آئندہ اُس کی دی ہوئی ہدایات پر عمل کریں ۔ جو اس نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک بھیجیں ۔ 

*حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ*

فَتَلَقَّى     ۔ آدَمُ       ۔ مِن      ۔ رَّبِّهِ         ۔ كَلِمَاتٍ       ۔ فَتَابَ                  ۔ عَلَيْهِ        
پس سیکھ لئے ۔ آدم۔        ۔ سے ۔۔ اسکا رب     ۔ الفاظ       ۔ پس وہ متوجہ ہوا ۔ اُس پر 
إِنَّهُ        هُوَ                  ۔ التَّوَّابُ             ۔      الرَّحِيمُ.    3️⃣7️⃣
بے شک وہ     ۔ وہ        ۔ بڑا توبہ قبول فرمانے والا۔        ۔    بہت مہربان 
فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ.    3️⃣7️⃣
پھر آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں ۔  پھر وہ اُن پر متوجہ ہوا ۔ بے شک وہی توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان ہے ۔ 
فَتَلَقّٰٓی  ۔ ( پھر سیکھ لئے ) ۔ یہ لفظ تلقی سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں ملنا ۔ کسی چیز کا پانا یا حاصل کرنا ۔ 
کَلِمٰتٍ ۔ ( کلمات ، باتیں  ) یہ لفظ کلمہ کی جمع ہے ۔ جس کے معنی ہیں بات ۔  الله کریم نے بڑی رحمت اور شفقت سے 
حضرت آدم علیہ السلام کو توبہ کے کلمات سکھا دیئے ۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر انہیں یوں بیان فرمایا ہے ۔
*قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ*
دونوں عرض کرنے لگے کہ پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم تباہ ہو جائیں گے۔
سورہ الاعراف ۔ آیہ 23 
فَتَابَ ۔ ( توجہ فرمائی ) ۔ یہ لفظ توبہ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں کسی کی طرف توجہ کرنا ، لوٹ آنا ، رجوع کرنا ۔
 گناہوں سے معافی مانگنے کو توبہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ انسان گناہوں کا احساس ہونے پر ان کا اعتراف کرتا ہے ۔ اور آئندہ ان گناہوں سے باز رہنے کا اقرار اور عہد کرتا ہے ۔ 
جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلنے کا حکم ہوا تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔ وہ اس پر بہت پچھتائے ۔ پریشانی کی حالت میں اپنی خطا پر روتے رہے ۔ اور بے قراری میں پشیمان پھرتے رہے ۔ آخر الله رحیم و کریم کو ان پر رحم آیا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں بخشش کی دُعا کے چند الفاظ ڈال دئیے ۔ انہوں نے انہیں الفاظ میں دُعا کی ۔
 الله جل شانہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ۔ کیونکہ وہ یقیناً توبہ قبول کرنے والا اور اپنے بندوں پر ہر حال میں رحمت اور مہربانی فرمانے والا ہے ۔ 
توبہ کے لئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے ۔ پہلی یہ کہ انسان اپنے گناہ کو مان لے ۔  اور اس پر پچھتائے ۔ 
دوسرا یہ کہ اس کام کو چھوڑ دینے کا پکا ارادہ کر لے ۔۔ 
اور تیسری یہ کہ وہ اس گناہ کو آئندہ ہرگز نہ کرے ۔ 
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں توبہ کی بہت تاکید آئی ہے ہمیں ہر وقت اپنے دانستہ اور غیر دانستہ  بڑے اور چھوٹے ہر قسم کے گناہوں کی معافی کے لئے الله رحیم و کریم کے آگے توبہ کرنی چاہئیے ۔ 
درسِ قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 

*احادیث پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت*

اسلام اور مسلمانوں کے لئے آج کے دور میں سب سے مہلک مرض دین اور دین کی بنیادی معلومات کی حقیقت سے نا واقفیت اور جہالت ہے جس کے نتیجہ میں دین سے خصوصاً عملی زندگی میں بے تعلقی اور بیزاری پیدا ہوتی ہے ۔  اسلام اور مسلمانوں کی تایخ گواہ  ہے کہ مسلمانوں میں اسلامی انحطاط کا لازمی نتیجہ دنیا میں زوال کی صورت ظاہر ہوا ۔ مسلمانوں نے الله جل شانہ کو بھلا دیا ۔ الله کریم نے مسلمانوں سے توجہ ہٹا لی ۔ ارشادِ باری تعالی ہے :۔ 
نَسُوا اللهَ فَنَسِيَهُمْ ----التوبة: 67
انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انکو بھلا دیا۔ 
اسی پر بس نہیں بلکہ الله جل جلالہ کو بھلانے کی سزا دنیا ہی میں اپنے آپ کو فراموش کر دینے کی صوت میں دے دی گئ ۔ 
ارشاد باری تعالی ہے ۔۔۔۔ و
وَلَا تَکُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔۔۔۔ سورۃ الحشر آیہ 19
اور ان لوگوں جیسے نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں ایسا کر دیا کہ وہ خود اپنے آپکو بھول گئے۔ یہی لوگ ہیں نافرمان۔
اسلامی ملکوں اور حکومتوں کو تاراج کرنے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے اور ہیں ۔ کہ مسلمانوں کی روحانی طاقت و قوت  دینداری کی طاقت اور ایمان بالله کی قوت ہے جب تک مسلمانوں کے دل سے اسے ختم نہ کر دیا جائے اور مسلمانوں کے معاشروں کو مکمل طور پر غیر اسلامی اور بے دین نہ بنا دیا جائے ۔ اور ان کے ذہن و فکر کو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے کلی طور پر دور نہ کر دیا جائے اس وقت تک ہمیں چین نصیب نہیں ہوسکتا اور ہماری ان کو ذلیل کرنے اور ان پر حکومت کرنے کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی ۔ 
چنانچہ عہدِ رسالت صلی الله علیہ وسلم سے دُوری ، بڑھتا ہوا دینی انحطاط ، غیر اسلامی بلکہ مغربی تہذیب و معاشرت کا تسلط ۔ غیر مسلم اقوام اور  دشمنان اسلام کےتجویز کردہ جدید علوم و فنون اور دیگر بے شمار وجوھات کی وجہ سے نہ صرف ہمارا نظام ، ہمارا ماحول اور معاشرہ مکمل طور پر غیر اسلامی اور بے دین ہو چکا ہے بلکہ ذہن وفکر بھی اسی رنگ میں رنگے جاچکے ہیں ۔ 
تقریبا پوری قوم بنیادی دینی معلومات تک سے ناواقف ہے ۔ عبادت کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ عبادت کی روح اور اس کی قبولیت کی شرط کیا ہے ؟ اول تو اکثریت نماز ادا کرنے سے ہی لاپرواہ ہے اور جو پڑھتے ہیں انہیں خبر ہی نہیں کہ نماز کی حقیقت کیا ہے  ؟ اس کی شرائط کیا ہیں ؟ دیگر عبادات روزہ ،  زکوۃ ، حج وعمرہ کر لیتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ ان تمام عبادات کو بے اثر ، بے نتیجہ اور بےکار بنا دینے والی چیزیں کیا ہیں ؟ 
رو رو کر اور گڑ گڑا کر الله کریم سے دعائیں کرتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ توبہ ، استغفار اور دعاؤں کو بے اثر کر دینے والی چیزیں کون کونسی ہیں ؟
  ہم نہیں جانتے صبر و شکر ، صدق و اخلاص ، تقوٰی اور پرھیز گاری کی حقیقت کیا ہے ؟ اور انسان کی دنیاوی زندگی میں ان تمام چیزوں کے فائدے کیا ہیں ؟ کیا اجر ہیں اور کیا برکتیں ہیں ؟ ہم دین کی باتیں شوق سے  سنتے ہیں ، اسلامی اور مذہبی کتابیں و تحریریں پڑھتے ہیں لیکن صرف اس نیت سے کہ یہ ایک نیک کام ہے ، اتنا وقت اچھے کام میں گزر جائے گا یا ثواب ملے گا ۔ ہم الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اس نیت اور عزم کے ساتھ نہیں پڑھتے یا سنتے ہیں کہ اس پر ہمیں اپنی روز مرہ زندگی میں عمل بھی کرنا ہے ۔  حالانکہ قرآن و حدیث کی تمام تر تعلیمات واضح لفظوں میں اعلان کر رہی ہیں کہ عمل کے بغیر ہر چیز بے کار محض ہے ۔  
احادیث کو ماننے والے مسلمان خاص کر تعلیم یافتہ طبقہ اپنی نا واقفیت کی وجہ سے کہتے یا کم ازکم دل میں ضرور سوچتے ہیں کہ : ہم مانتے ہیں بے شک یہ احادیث سب صحیح ہیں لیکن ہماری آج کی مصروف انفرادی یا اجتماعی زندگی میں ان احادیث کو پڑھنے یا عمل کرنے کا کیا فائدہ ؟ ہماری موجودہ مشکلات کو حل کرنے میں ان سے ہمیں کیا مدد مل سکتی ہے ؟  یہ تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے لوگوں اور مسلمانوں کو تعلیمات دیں تھیں یا اُس دور کے معاشرے کو سُدھارنے کے لئے بیان کی تھیں آج نہ وہ زمانہ ہے نہ ویسا معاشرہ ، نہ ہی حالات  ہمیں اس جدید زمانے کے طور طریقے جاننے کی ضرورت ہے نا کہ اتنے پرانے قاعدے قوانین جاننے کی ۔ 
یہ شیطانی وسوسہ اور یقین صرف دینِ اسلام کی وسیع اور ٹھوس تعلیمات سے نا واقفی کا نتیجہ ہے ۔ قرآن مجید فرقانِ حمید اور احادیث مبارکہ کی تعلیمات ہر دور ہر زمانے کے لئے تا قیامت موثر و کار آمد ہیں ۔ مسلمانوں کے تمام موجودہ مسائل و مشکلات کا حل صرف اور صرف ان تعلیمات کو جاننے ان پر عمل کرنے میں پوشیدہ ہے ۔ اور مسلمانوں کے  تمام مسائل اور مصائب کی وجہ ان تعلیمات سے دوری ، بے زاری ، بے پرواہی اور لاعلمی ہے ۔ 
پس اگر آج مسلمان سچے دل کے ساتھ پورے یقین اور ارادے سے قرآن و احادیث کی تعلیمات پر عمل کرنے لگیں تو ساری پریشانیاں ،  دُکھ تکلیف اور ناکامیاں مٹ جائیں ۔ اور دُنیا اور آخرت دونوں کی فلاح و کامیابی مقدر بن جائے ۔ 

*حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش*

فَأَزَلَّهُمَا      ۔ الشَّيْطَانُ       ۔ عَنْهَا       ۔ فَأَخْرَجَ۔                          هُمَا۔    
پھر اس نے پھسلا دیا اُن دونوں کو ۔     ابلیس  ۔ اس سے  ۔ پس نکال دیا اس نے ۔ ان دونوں کو
   ۔  مِمَّا       ۔ كَانَا   ۔             فِيهِ 
اس سے جو ۔    وہ دونوں تھے ۔     اُس میں 

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ 
پھر شیطان نے انہیں اس کے بارے میں پھسلایا ۔ پس نکال دیا اس نے اس ( جگہ ) سے جہاں وہ تھے ۔

فَاَزَّلَّھُمَا ۔ ( پھر اس نے انہیں پھسلا دیا ) ۔ یہ لفظ زَلَّه سے بنا ہے جس کے معنی ہیں جگہ سے ہٹا دینا یا پھسلا دینا ۔ اس لفظ کے مفہوم میں جان بوجھ کر نافرمانی یا سر کشی داخل نہیں ۔ بلکہ ایسی لغزش مُراد ہوتی ہے جو بھول چُوک یا انجان پنے میں ہو جائے ۔ 
اَلشَّیْطٰن۔ ( شیطان ) ۔ شیطان سے مراد وہ مخلوق ہے جو الله جل شانہ کی رحمت سے دور ہو گئی ۔ یہ ابلیس کا دوسرا نام ہے ۔ اُس نے الله جل شانہ کی نافرمانی کی ۔ اس لئے اسے جنت سے نکال دیا گیا ۔ وہ آدم علیہ السلام کا سخت دشمن ہو گیا ۔ وہ انسان کو بدکاری اور الله تعالی کی نافرمانی پر مجبور نہیں کر سکتا ۔ بلکہ مختلف طریقوں سے اسے بُرے کاموں کی ترغیب دیتا ہے ۔ اس کا اثر دور سے بھی ہو سکتا ہے اور نزدیک سے بھی ۔ مادی رکاوٹیں اس کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں ۔
عَنْھَا ۔ ( اس کے سبب ) ۔ اس سے اشارہ درخت کی طرف بھی ہو سکتا ہے ۔ یعنی اس درخت کے ذریعے پھسلا دیا ۔ اور اس کا اشارہ جنت کی طرف بھی ہو سکتا ہے ۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ آدم علیہ السلام کو اس  جنت سے نکلوا دیا ۔ 
الله جل شانہ نے آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کو جنت میں بسایا اور حکم دیا فلاں درخت کا پھل نہ کھانا ۔ بلکہ اس کے قریب بھی نہ جانا ۔ شیطان نے چونکہ اپنی سرکشی اور تکبر کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا تھا  اسی لئے دُھتکار دیا گیا ۔ وہ حسد کے طور پر ان کا دشمن بن گیا ۔ اس نے ٹھان لی کہ کسی نہ کسی طرح وہ انہیں جنت سے نکلوا دے گا ۔ 
قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ بیان ہے کہ شیطان   آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کے پاس پہنچا ۔ انہیں اپنی دوستی اور خیر خواہی کی قسمیں کھا کھا کر یقین دلایا کہ اگر تم اس درخت کا پھل کھا لو گے تو فرشتے بن جاؤ گے یا تم ہمیشہ کے لئے جنت میں رہو گے اور تم یہاں سے کبھی نہیں نکالے جاؤ گے ۔ 
حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی اس کے فریب میں آگئے ۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ کوئی الله تبارک و تعالی کی جھوٹی قسم بھی کھا سکتا ہے ۔ انہوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا ۔ کھاتے ہی جنت کا لباس ان کے بدن سے اُتر گیا ۔ اور وہ دونوں شرم کے مارے اپنے بدن پر درختوں کے پتے چپکانے لگے ۔ الله تعالی نے انہیں حکم دیا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ ۔
 شیطان جنت جیسی نعمت سے نکلوانے کا سبب بنا ۔ ہم پر لازم ہے کہ اس کے فریب سے بچتے رہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 

*شجرِ ممنوعہ*

وَلَا    ۔ تَقْرَبَا      ۔ هَذِهِ      ۔ الشَّجَرَةَ          ۔ فَتَكُونَا  ۔                مِنَ         ۔ الظَّالِمِينَ.   3️⃣5️⃣
اور نہ ۔ تم دونوں قریب ہو ۔ یہ  ۔      درخت    ۔ پس تم دونوں ہو جاؤ گے ۔     سے                        ۔ ظالم 
 وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ۔  3️⃣5️⃣
اور تم اس درخت کے قریب نہ جانا  ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔ 

لَا تَقْرَبَا ۔۔۔ ( قریب نہ جاؤ )  اس حکم سے اصل مراد یہ تھی کہ حضرت آدم علیہ السلام اس درخت کا پھل نہ کھائیں ۔ انہیں قریب جانے سے اس لئے روک  لیا کہ اس کے پھل کی خواہش ہی پیدا نہ ہو ۔ 
ھٰذِہِ الشَّجَرَۃ ۔۔ ( یہ درخت ) ۔ جنت کے درختوں میں سے کوئی درخت تھا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی پہچان کرا دی گئی تھی ۔ قرآن مجید میں حق تعالی جل شانہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے ۔ 
مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔۔۔ ( گنہگاروں میں سے ) ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے رہتے ہیں ۔ اپنے آپ پر سب سے زیادہ ظلم الله جل جلالہ کی نافرمانی سے ہوتا ہے ۔ 
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے ۔ کہ اس وقت جبکہ جنت کی حیثیت نیک اعمال کے بدلے کی سی نہ تھی  جیسی کہ اب ہے ۔ تب بھی وہاں پر شرعی حکم تھے ۔ بعض ایسی باتیں تھیں جن کے کرنے کا حکم تھا اور بعض ایسے کام تھے جن سے باز رہنے کا حکم تھا ۔ 
الله جل شانہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا خلیفہ مقرر کرنے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور جب انہوں نے تنہائی محسوس کی ۔ تو الله تعالی نے اُن کے لئے حضرت حوّا رضی الله تعالی عنھا کو پیدا کیا ۔ اور پھر یہ اور احسان کیا کہ انہیں اجازت دے دی کہ جنت میں وہ میں جہاں سے چاہیں بافراغت کھائیں ۔ البتہ وہاں ایک درخت تھا جس کے بارے میں الله کریم نے یہ فرمایا کہ تم اس کے قریب بھی نہ جانا ۔ ورنہ نافرمان قرار دئیے جاؤ گے ۔ 
اس سبق سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جو شخص شک و شبہ والے کام کرتا ہے ۔ اس کے لئے غلطی کرنے کا شدید خطرہ ہوتا  ہے ۔ ہمیں بھی چاہئیے کہ ہم شک وشبہ والی باتوں سے دور رہیں ۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ الله جل جلالہ کے احکام کی نا فرمانی اور خلاف ورزی سے انسان درحقیقت اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ اس کی دُنیا بھی خراب ہوتی ہے اور آخرت بھی ۔ 
درسِ قرآن ۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 

*حضرت آدم علیہ السلام جنت میں

وَقُلْنَا    ۔ يَا۔    آدَمُ    ۔ اسْكُنْ          ۔ أَنتَ     ۔ وَزَوْجُكَ               الْجَنَّةَ         
اور ہم نے کہا ۔ اے ۔    آدم      ۔ تو رہ        ۔ تو ۔     اور تیری بیوی ۔ جنت میں 
وَكُلَا    ۔ مِنْهَا          ۔ رَغَدًا     ۔ حَيْثُ              ۔ شِئْتُمَا 
اور دونوں کھاؤ   ۔ اس میں  ۔  با فراغت ۔ جہاں ۔ تم دونوں چاہو  ۔

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا 
اور ہم نے کہا ! اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو  اور اس میں جہاں سے چاہو با فراغت کھاؤ ۔ 

جَنَّۃَ ۔۔ ( جنت ) اس کے لغوی معنی ہیں وہ باغ جس کے گھنے درخت زمین کو چھپا لیں ۔ شرع کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ عظیم الشان باغ ہے جس میں بے شمار نعمتیں ہیں اور جو آخرت میں نیکو کاروں کو رہنے کے لئے ملے گا ۔ اسے جنت اس لئے بھی کہتے ہیں کہ اس کی نعمتیں ہماری نظروں سے بھی پوشیدہ ہیں ۔ 
زَوْجُکَ ۔۔( تیری بیوی ) ۔ اس سے مراد حضرت حوّا علیھا السلام ہیں جو اُس وقت تک پیدا ہو چکی تھیں ۔ وہ ہم سب کی ماں ہیں 
حَیْثُ شِئتُمَا ۔۔ ( جہاں سے چاہو ) ۔ اس لفظ سے جنت کی وسعت اور بڑائی ظاہر ہوتی ہے ۔ 
 الله تعالی نے اپنی مشیّت اور مرضی کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ اور انہیں زمین میں اپنا خلیفہ قرار دیا ۔ ان کے اس درجے کو واضح کرنے کے لئے الله تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اُن کے سامنے جھک جائیں ۔ تاکہ بعد میں کسی کو بغاوت اور نافرمانی کی جرأت نہ رہے ۔ ۔ فرشتوں نے حضرت آدم کی بڑائی کا اقرار کیا ۔ اور اُن کے آگے تعظیم کے طور پر جھک گئے ۔ 
 حضرت آدم علیہ وسلم کی خلافت کے بعد الله تعالی نے انہیں موقع دیا کہ وہ اور اُن کی بیوی جنت میں رہائش اختیار کریں ۔ اسی میں رہیں سہیں اور جہاں سے جو چاہیں کھائیں پیئیں ۔ 
 حضرت حوّا علیہا السلام کے بارے میں مفسرین کرام نے بیان کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جنت میں اکیلے تھے ۔ تُو ان کی طبیعت گھبرائی ۔ اس لئے الله جل شانہ نے حضرت حوّا علیہا السلام کو پیدا کیا ۔ اور فرمایا کہ تم دونوں جنت میں رہو ۔ اور جہاں سے چاہو با فراغت کھاؤ ۔ 
 اس سبق سے واضح ہوتا ہے کہ الله تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو کس قدر درجے بخشے ہیں ۔ پہلے علم کی نعمت دی ۔ پھر اپنا نائب بنایا ۔ اس کے بعد اس کی راحت اور آرام کے لئے بیوی کی صورت میں اُنہیں ساتھی دیا ۔ جنت میں جگہ دی ۔ اور کھانے کو بے شمار نعمتیں دیں ۔ الله جل جلالہ اپنے بندوں کو ہمیشہ انعامات سے نوازتا ہے ۔ اور ان پر طرح طرح کی نوازشیں فرماتا ہے ۔ اب یہ بندوں کا فرض ہے کہ اس کے شکر گزار رہیں ۔ اور اس کی نعمتوں کی قدر پہچانیں ۔ 
درس قرآن  ۔۔۔۔ مرتبہ  درس قرآن بورڈ 

کلمہ طیبہ

کلمہ طیبہ کا مقصد یہ ہے کہ چار لائن کا یقین ہمارے دل کے اندر آجائے .
لاالہ الا اللہ سے دو باتوں کا یقین اور محمدرسول اللہ سے دو باتوں کا یقین .
*لَا الٰہ الا الله سے دو باتوں کا یقین*
1) *لَا اِلٰہ* ۔۔۔۔  یعنی زمین سے لیکر آسمان تک جتنی چیزیں ہیں وہ سب اللہ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں 
2) *الّا الله* ۔۔۔۔  يعنی اللہ تعالی ان ساری چیزوں کے بغیر سب کچھ کرسکتے ہیں. 
*محمدٌ رّسول الله*
3) اگر ہماری زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے موجود ہوں دنیا کی کوئی چیز بھی موجود نہ ہو تو بھی ہم دونوں جہاں میں کامیاب ہوجائیں گے.
4) اگر ہماری زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم کے طریقے موجود نہ ہوں لیکن دنیا جہاں کی ہر چیز موجود ہو تو بھی ہم دنیا و آخرت میں برباد ہوجائینگے.
*فضائل*
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارکہ کا مفہوم ہے ۔۔۔۔کہ جو بھی بندہ کسی وقت بھی دن میں یا رات میں
 "لا الہ الا اللہ" کہتا ہے تو اعمال نامہ میں سے برائیاں مٹ جاتی ہیں اور انکی جگہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں.
(رواہ ابو یعلیٰ)
 حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے۔۔۔۔ کہ"  لا الہ الا اللہ " پر پکا یقین رکھنے والوں پر نہ قبروں میں وحشت ہوگی نہ میدان محشر میں. اسوقت گویا وہ منظر میرے سامنے ہے کہ جب وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے قبروں سے اٹھیں گے. اور کہیں گے کہ تمام تعریف اس اللہ کے لیئے ہے جس نے ہم سے ہمیشہ کے لیئے رنج و غم کو دور کر دیا۔۔۔
 (طبرانی)
 کلمہ طیبہ کا یقین حاصل کرنے کا طریقہ:
 کلمہ کا یقین حاصل کرنے کے لیئے چار باتوں  کی مشق کی جائے .
1) اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سفر و حضر میں کلمہ کی خوب دعوت دی  جائے. اس سے دوسرے کو  دعوت کا فرض ساقط ہوگا اور آپکی اصلاح ہو جائیگی.
2) تعلیم و تعلم کے حلقوں میں بیٹھ کر غور وعظمت سے سنا جائے.
3) خدا کی قدرت پر غور کیا جائے .
 یعنی یہ آسمان بغیر ستنوں کے کیسے کھڑا ہو گیا, بادل سے بارش کیسے برستی ہے, زمین سے غلہ کیسے اگتا ہے , زندہ مرغی سے مردہ انڈہ کا پیدا ہونا پھر اس سے زندہ مرغی کا تخلیق ہونا غرضیکہ کائنات کا ذرہ ذرہ کس کا محتاج ہے؟؟؟ ہر چیز صرف میرے اور آپکے مالک اللہ وحدہ لا شریک کے حکم کی محتاج ہے.
4) رو رو کر اللہ پاک سے کلمہ طیبہ کا یقین و استقامت مانگی جائے. اگر کلمہ ہماری نس نس میں سرایت کرگیا تو ہماری دنیا و آخرت کامیاب ورنہ دنیا متاع غرور یعنی دھوکہ کا گھر ہے.
اللہ کریم  ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے اور کلمہ طیبہ ہماری شریانوں میں خون کے ساتھ سرایت کر جائے.
 آمین ثم آمین 
الھم تقبل منّا  ...
جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء فی الدارین.


*عمل کا دارومدار نیت پر ہے*


امیر المومنین ابو حفص عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول  صلی الله علیہ وسلم ہی کی جانب ہے۔  ( یعنی دنیا اور آخرت دونوں میں اسے پھل ملے گا ) اور جس کی ہجرت دنیا کےلیے ہے کہ اسےکمائے یا عورت سے شادی کرنے کے لئے ہجرت کی ہو گی اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہو گی ۔ جس کے لئے اس نے ہجرت کی ۔ ( ملے یا نہ ملے یہ اس کی قسمت ہے ۔ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے اسے کچھ نہ ملے گا ۔ )  ۔
*نیت کا بیان* 
نیت کے معنی اگرچہ قصد اور ارادے کے ہیں ۔ لیکن نیت دراصل اُس وجہ کا نام ہے جس کے لئے انسان کوئی کام کرتا  ہے ۔ خواہ وہ وجہ اچھی ہو یا بُری ۔ 
حضرت امام غزالی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں کہ " نیت وہ خواہش ہے جو تجھے کسی کام میں لگا دے اور کام وہ چیز ہے جس کے کرنے پر تُو قادر ہوتا ہے " اور یہ کہ کسی عمل کی نیت کا اعلان کر دینا ہی کافی نہیں ۔ کیونکہ یہ زبانی جمع خرچ ہے 
اور اگر صرف دل میں ہی کہہ رہا ہے تو وہ حدیث نفس ہے ۔ " بلکہ جو دل میں بغیر اعلان کے سچی ہو اور عمل میں اُسی طرح ہو تو نیت کہلائے گی " 
اعمال تین طرح کے ہوتے ہیں ۔
 ایسے اعمال جو صرف الله جل شانہ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لئے کئے جائیں ۔ 
دوسر ے ۔۔۔ گناہ اور معصیت کے اعمال ۔ 
تیسری قسم مباح اعمال کی ہے ۔ یعنی جن کے کرنے سے نہ ثواب ہے نہ گناہ۔ 
گناہ اور نافرمانی والے کاموں میں اگر نیت اچھی بھی ہو تو وہ نیکی میں نہیں بدل سکتے ۔ 
البتہ اچھی نیت کی وجہ سے اطاعت کے کام اور مباح کاموں کا درجہ بلند ہو سکتا ہے 
اور بُری نیت کی وجہ سے یہی  کام گناہ میں بدل سکتے ہیں ۔ 
 عبادات و طاعت کی قبولیت کا تمام تر دارومدار صرف اخلاص اور نیت کی موجودگی پر ہے ۔ چنانچہ دکھاوے اور شہرت کی غرض سے یا کسی بھی اور دُنیوی غرض سے کسی بھی نیک کام کے کرنے کو محققین نے "شرکِ خفی " قرار دیا ہے یہانتک کہ ایمان و اسلام بھی اگر صرف ریا کاری ، شہرت یا کسی دُنیوی غرض کے لئے ہو تو معتبر نہیں اور اس کو شریعت میں نفاق کہا جاتا ہے ۔ 
 الله جل شانہ کے ہاں ہر عملِ خیر ، عبادت و طاعت یہاں تک کہ ایمان بھی صرف اسی وقت مقبول ہوتا ہے جب خالص اسی کے لئے ہو ۔  یہی اخلاص عبادت واطاعت کی روح ، اس کی حقیقت اور سب سے پہلی شرط ہے ۔ 
اس حدیث مبارکہ میں اچھی اور بُری دونوں قسم کی نیتوں کا ذکر ہے ۔ -------- نیکی کے کام کے لئے اچھی نیت اسے مقبولیت کے اعلی درجہ تک پہنچا دیتی ہے ۔ اور اسی کام میں اگر دُنیا کے فائدے  یا عورت سے نکاح کی نیت شامل ہوجائے ۔تو اجر ضائع ہو جاتا ہے ۔ الله جل شانہ کے ہاں وہی عبادت مقبول و مطلوب ہے جو دل کی پوری توجہ کے ساتھ ہو اور صرف الله تعالی کے لئے ہو اور کسی دوسری غرض کے لئے نہ ہو ۔ اس لئے ہر عملِ خیر اور عبادت کے وقت دل کا پوری طرح الله جل شانہ کی طرف متوجہ ہونا نہایت ضروری ہے ۔ اور اسی کو نیت کا حاضر ہونا یا احضارِ نیت کہتے ہیں 
آج کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ نماز روزے کے پابند لوگوں میں بھی وہ اثرات نظر نہیں آتے جن کا ذکر قرآن و احادیث میں ہے ۔ 
مثلاً نماز کی خاصیت ہے ۔۔۔۔ الله جل شانہ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ۔
اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمنْکَرِ
عنکبوت:۸۵

بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے

آج لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں اور فحش اور بُرے کام بھی کرتے ہیں ، جھوٹ بولتے ، خیانت کرتے ، دھوکہ دیتے ، ظلم اور حق تلفی کرتے اور طرح طرح کے حرام اور ممنوع کام کرتے ہیں ۔ اور نمازی کے نمازی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نماز ہی وہ نماز نہیں جس کی خبر قرآن حکیم اور مخبرِ صادق صلی الله علیہ وسلم نے دی ہے ۔ اول تو ہماری نمازوں میں وہ خلوص ہی نہیں ہوتا جو بندگی کا حقیقی تقاضا ہے ۔ اور الله جل جلالہ کو مطلوب ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ ہماری توجہ نماز اور عبادت کی طرف عموما نہیں ہوتی ۔ اور ہم سمجھتے ہی نہیں کہ ہم کس کے سامنے کھڑے ہیں ۔ یہی حال ہماری اور تمام عبادتوں کا ہے ۔ہمیں اُن کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے  ۔ جیسے دوسرے بہت سے کام  حسب عادت کر لیتے ہیں ۔ اسی لئے ہمارے نماز روزے اور دوسرے نیک اعمال میں وہ اثر نہیں جو الله اور اس کے محبوب صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔  

عادت اور عبادت  میں فرق اور حدّ فاصل نیت ہے ۔ اگر نیت ہو تو عادت بھی عبادت بن جاتی ہے ۔ اور اگر نیت نہ ہو تو عبادت بھی عادت بن جاتی ہے ۔ 

ذرا سوچئے ! ہم کتنے بڑے خسارے میں جارہے ہیں ۔ اس لئے سب سے اہم اور ضروری چیز جس سے ہم محروم ہیں اور جسے ہمیں سب سے پہلے حاصل کرنا چاہئیے ۔ یہی حقیقی اخلاص اور پوری توجہ کے ساتھ نیت اور عبادت کا ارادہ اور قصد ہے ۔ 

*نیت کا زبان سے کرنا ضروری نہیں بلکہ دل کا الله جل شانہ اور اس کی عبادت کی طرف پوری طرح متوجہ ہونا ضروری ہے ۔ اگر زبان سے بھی کہہ لے تو کوئی حرج نہیں ۔ خواہ عربی میں کہے یا اُردو میں یا کسی اور زبان میں* 

الله جل جلالہ ہماری نیتوں کو صرف اور صرف اپنے لئے خالص فرما دے ۔۔۔۔ 





*فرشتوں کا سجدہ*

وَإِذْ    ۔ قُلْنَا   ۔      لِلْمَلَائِكَةِ    ۔      اسْجُدُوا   ۔         لِآدَمَ     ۔                        فَسَجَدُوا
اور جب ۔ ہم نے کہا۔ ۔ فرشتوں سے ۔     تم سجدہ کرو ۔ آدم کے لئے ۔ پس انہوں نے سجدہ کیا 
 إِلَّا      ۔ إِبْلِيسَ     ۔ أَبَى     ۔              وَاسْتَكْبَرَ                ۔ وَكَانَ    ۔ مِنَ       ۔ الْكَافِرِينَ۔   3️⃣4️⃣
سوائے    ۔ ابلیس ۔ انکار کیا اُس نے ۔ اور تکبر چاہا اُس نے ۔ اور تھا وہ  ۔ سے                      ۔ کافروں 

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ.   3️⃣4️⃣
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کے سامنے سجدہ کرو سو وہ جھکے  مگر ابلیس  ( نہ  جھکا ) اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا ۔ 

اُسْجُدُوْا  ۔ ( سجدہ کرو )  ۔ لُغت میں سجدے سے مراد ہے سر جھکا کر عاجزی اور فرمانبرداری ظاہر کرنا ۔ شرع نے خاص طور پر سجدہ کے معنی زمین پر پیشانی رکھنا قرار دئیے ہیں ۔ سجدہ انتہائی تعظیم کا نشان ہے ۔ اس لئے شریعت نے الله جل شانہ کے سوا کسی اور کےلئے حرام کر دیا  ۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ فرشتے اُن کی بزرگی اور برتری ماننے کے لئے اُن کے آگے اپنے سر تعظیم کے طور پر جھکا دیں ۔ اگر شرعی معنی لئے جائیں تو پھر یہ مطلب ہو گا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی طرف منہ کرکے الله رب العزت کو سجدہ کریں کیونکہ یہاں  لِاٰدَمَ کے معنی آدم کے واسطے نہیں  بلکہ آدم کی طرف ہیں ۔ 
 اِبلیسَ  ( شیطان ) ۔  اس کے لفظی معنی نا اُمید کے ہیں ۔ یہ ابلیس کوئی فرشتہ نہ تھا ۔ بلکہ آگ سے بنا ہوا جن تھا ۔ کیونکہ نوری مخلوق سے انکار اور بغاوت کی امید نہیں ہو سکتی ۔ ابلیس الله تعالی کی عبادت اور اطاعت کی وجہ سے فرشتوں کی جماعت میں داخل کر لیا گیا  تھا ۔
 آبٰی ۔ ( اس نے انکار کیا ) یہ لفظ اِبا سے ہے ۔ اس کا مطلب ہے جان بوجھ کر کسی چیز سے انکار کرنا ۔ 
 اِستَکبَرَ ۔ ( تکبر کیا ) یہ لفظ کبر سے بنا ہے  ۔ اس کے معنی ہیں اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا سمجھنا اور غرور کرنا ۔ 
 جب یہ بات واضح ہو گئی ۔کہ آدم علیہ السلام  علم اور درجہ میں فرشتوں سے بڑھ کر ہیں اور خلافت کے حقدار وہی ہیں ۔ تو الله جل شانہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کی بزرگی تسلیم کرنے کے لئے اُن کے آگے جھک جائیں ۔ 
 اس حکم کی تعمیل میں تمام فرشتے سجدہ میں گر پڑے ۔ البتہ ابلیس نے انکار کیا ۔ وہ کہنے لگا کہ میں آگ سے بنا ہوں اور آدم کو مٹی سے بنایا گیا ہے ۔ اس لئے میں اس کے آگے نہیں جھکوں گا ۔
الله جل شانہ کے حکم کا انکار کرنے سے ابلیس کافر ہو گیا ۔ اور اسے الله تعالی کی رحمت سے محروم کر دیا گیا ۔  وہ راندۂ درگاہ ہوا ۔ اُسے الله جل جلالہ کا قرب بھی حاصل نہ رہا ۔ اور وہ لعنت میں گرفتار ہوا اور عذاب کا مستحق قرار پایا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*افضل اعمال کا بیان* -2

*افضل اعمال کا بیان*

*ابو ذر رضی الله تعالی عنہ*  کا دوسرا سوال ہے 
اَیُّ الِّرِقَابُ اَفْضَلُ ۔۔۔۔  کونسے غلام کو آزاد کرنا سب سے افضل ہے ۔ 
نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں :   اَنْفَسَھَا عِنْدَ اَھْلِھَا وَ اَکْثَرُھَا ثَمَنًا    ۔  جو غلام مالک کے نزدیک سب سے زیادہ نفیس ہو  اور سب سے زیادہ قیمت والا ہو ۔ 
مالک کے نزدیک نفیس تر ہونے کا معیار حسنِ خدمت پر ہے ۔  بعض  غلام اپنے مالک کے ایسے مزاج آشنا ہوتے ہیں کہ مالک کو جس چیز کی ضرورت ہو اس کے کہنے سے پہلے ہی حاضر کر دیتے ہیں ۔ اور اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے ۔ ایسے غلام کو مالک اپنے آپ سے کبھی جُدا کرنا نہیں چاہے گا ۔ اس لئے یہ ایک مشکل اور دشوار کام ہے ۔ اور وہی کر سکتا ہے جو الله کا دوست اور محبت کرنے والا ہو اور اس کی زندگی کا مقصد ہی الله جل شانہ کی رضا ہو ۔ اسی وجہ سے اس کا اجر وثواب بھی زیادہ ہے ۔ ہر کوئی اس کام کو انجام نہیں دے سکتا 
قرآن مجید میں الله جل  جلالہ کا فرمان ہے ۔ 
لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
مومنو! جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم خرچ کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔
سورۃ آل عمران ۔ آیہ92 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس بات پر عمل کرنا بھی اعلٰی درجہ کے مؤمنوں اور فرمانبرداروں کا کام ہے ۔ 
اس لئے حضرت ابو ذر رضی الله عنہ ایک عام مسلمان کو نظر میں رکھتے ہوئے سوال کرتے ہیں ۔ 
"اگر میں کم ہمتی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں تو " 
 رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں " تم کسی کاریگر کی مدد کرو  یا کسی ناکارہ کی " ۔ 
اس جواب کے دو  حصے ہیں ۔ 
اول : کوئی شخص کاریگر یا ہنر مند ہے لیکن وہ دن بھر میں اتنا کام نہیں کر پاتا کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی بنیادی ضروریات زندگی  روٹی ، کپڑا ، مکان وغیرہ پوری کر سکے  ۔ دن بھر میں وہ جتنا کام کرتا ہے اس کی کمائی سے ایک وقت پیٹ بھرتا ہے تو دوسرے وقت فاقہ ہوتا ہے یا دونوں وقت روٹی تو مل جاتی ہے ۔ لیکن تن ڈھانپنے کے لئے ، کپڑا خریدنے کے لئے پیسے نہیں بچتے ۔ یا کپڑا بھی میسر آجاتا ہے لیکن مکان کے کرایہ کے لئے یا بجلی ، پانی کے بِل کے لئے پیسے نہیں بچتے ۔ اس لئے سخت معاشی تنگی میں گرفتار ہے ۔ ایسے ضرورت مند کی مدد اس طرح کی جائے کہ وہ جو کام کرتا ہے اس میں اس کی مدد کی جائے تاکہ وہ ضروریات زندگی پوری کر سکے ۔
دوئم : وہ آدمی جو نکما ہے کوئی کام نہیں جانتا ، اپاہج ہے یا معذور ہے نابینا گونگا یا بہرا ہے اور بال بچے دار ہے تو ایسے شخص کی مدد ایسے کی جائے کہ خود کوئی کام کرے اور اس کی آمدنی سے اس نکمے یا معذور آدمی اور اس کے بال بچوں کی معاشی کفالت کرے تاکہ وہ در بدر بھیک مانگتے نہ پھریں ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم  ہے کہ 
مخلوق الله جل شانہ کی عیال ہے ( جن کی کفالت اس کے ذمہ ہے )  لہذا الله جل شانہ کو وہ شخص محبوب ہے جو اس کی عیال کے ساتھ احسان کرے ۔
ابو ذر غفاری رضی الله عنہ اس کے بعد سوال کرتے ہیں ۔۔۔ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ! بتائیے ذرا اگر میں ( اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے ) ان دونوں میں سے کوئی کام نہ کر سکوں ۔ 
نبئ رحمت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  !  تم لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ ۔  اس لئے کہ یہ تمہارا احسان ہے اپنے حق میں  ۔
 اگر تم نے کسی شخص کو کسی قسم کی تکلیف یا نقصان پہنچایا تو تم یقیناً گنہگار ہو گے ۔ لہذا تم نے لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھ کر خود کو گناہ سے بچا لیا ۔ اس لئے یہ کام خود تمہارے حق میں خیر اور نفع کا باعث ہے ۔ جس میں نہ کوئی پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے ، نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے نہ ہی ہاتھ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں ۔ 
کوئی مسلمان  کسی بھی حالت میں اس خیر کے کام سے محروم نہیں رہ سکتا ۔ 
مگر یہ کارہائے خیر اسی صورت میں فائدہ اور نفع پہنچاتے ہیں جب ان میں اخلاص اور اطاعت کی روح ہو کہ میرے رب کا حکم اور میرے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔ اور یہی اسلام کی حقیقی روح اور بنیاد ہے جس سے ہم دن بدن دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ 
الله جل شانہ ہمیں اسلام کی حقیقی تصویر سے روشناس کرائے ۔ اور ہمیں اپنے اور اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے 

*علم کی فتح*

قَالَ    ۔    يَا    ۔ آدَمُ       ۔ أَنبِئْ۔          هُم    ۔ بِأَسْمَائِ  ۔       هِمْ    ۔ 
فرمایا ( الله تعالی نے ) ۔    اے ۔      آدم ۔    تو خبر دے  ۔ اُن کو ۔ ناموں کی ۔         اُنکے 
 فَلَمَّا   ۔           أَنبَأَ ۔         هُم   ۔   بِأَسْمَائِ  ۔ هِمْ    ۔ 
پس جب ۔     اس نے بتایا ۔ اُن کو ۔   ان کے نام ۔     ان کو 
قَالَ   ۔    أَلَمْ    ۔      أَقُل          ۔ لَّكُمْ             ۔ إِنِّي  
فرمایا ۔ کیا نہیں ۔ میں نے کہا ۔ تم سے ۔ بے شک میں 
  ۔ أَعْلَمُ                ۔ غَيْبَ          ۔ السَّمَاوَاتِ    ۔ وَالْأَرْضِ     ۔  
میں جانتا ہوں ۔ چھپی ہوئی باتیں ۔   آسمانوں کی   ۔ اور زمین کی 
وَأَعْلَمُ           ۔ مَا       ۔ تُبْدُونَ               ۔ وَمَا    ۔ كُنتُمْ    ۔ تَكْتُمُونَ۔ 3️⃣3️⃣
اور میں جانتا ہوں ۔    جو ۔ تم ظاہر کرتے ہو ۔    اور جو    ۔ ہو تم ۔      تم چھپاتے ہو 

قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنبَأَهُم بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ 
وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ۔   3️⃣3️⃣
فرمایا " اے آدم ! انہیں انکے نام بتا دے " پھر جب اس نے انہیں ان چیزوں کے نام بتائے  فرمایا ! "کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمان اور زمین کی چھپی ہوئی باتیں  اور میں جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو" ۔ 

حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ مسلسل بیان ہو رہا ہے ۔ الله جل شانہ نے جب فرشتوں کے سامنے آدم علیہ السلام کی خلافت کا اعلان فرمایا ۔ تو انہوں نے سب سے پہلے تو یہ عرض کی ۔ کہ ہم تیری حمد و ثنا اور بزرگی  و پاکیزگی کا ہر وقت اقرار کرتے ہیں ۔ گویا اگر صرف حمد و ثنا درکار ہے تو یہ کام ہم انجام دے رہے ہیں ۔ پھر فرشتوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اولادِ آدم دنیا میں خونریزی کرے گی اور فساد مچائے گی ۔ 
الله جل شانہ نے آدم علیہ السلام کا استحقاق ثابت کرنے کے لئے عِلم کا امتحان رکھا ۔ آدم علیہ السلام کو ان کی فطری صلاحیّت اور استعداد کے مطابق عِلمِ اسماء سے نوازا ۔ فرشتے اس کے اہل نہ تھے ۔ لہٰذا انہیں علمِ اسماء حاصل نہ تھا ۔ جب دونوں سے سوال وجواب ہوئے تو فرشتوں نے اپنی بے خبری کا اقرار کیا ۔ مگر آدم علیہ السلام نے تمام چیزوں کے نام بتا دئیے ۔ اور اپنی برتری ثابت کر دی ۔ 
 اس موقع پر الله تعالی نے فرمایا ۔ کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا ۔کہ میں ظاہر و باطن کی ہر بات جانتا ہوں ۔ زمین و آسمان کے رازوں سے باخبر ہوں ۔ آدم کے متعلق جو خدشے تم نے ظاہر کئے ۔ انہیں بھی جانتا ہوں ۔ اور جن باتوں کو کُھل کر ظاہر نہ کیا ۔ ان سے بھی باخبر ہوں ۔ گویا علمِ الٰہی تمام باتوں پر حاوی ہے ۔ وہ ہر کسی کو اس کی صلاحیت اور استعداد کے مطابق ہی درجہ اور ذمہ داری عطا کرتا ہے ۔ 

*بچوں کے لئے دل چسپ اور سچی کہانی*


*قرآن مجید میں کل سات جگہوں پر حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے*

یہ بالکل ایک کہانی کی طرح ہے ۔ اور کیونکہ الله جل شانہ نے اپنی کتاب حق میں  بیان کیا ہے اس لئے ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے ۔ اپنے بچوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو جھوٹی اور خیالی کہانیاں سنانے کے بجائے یہ واقعہ سنائیں ۔ تاکہ اُن کے دلوں میں الله جل شانہ کی عظمت اجاگر ہو ۔ اور الله رب العزت کی ذات پر اُن کا یقین بنے ۔ 

اللہ جلَّ شانہُ نےجب انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :بے شک میں زمین میں اپنا نائب (خلیفہ) بنانے والا ہوں

فرشتوں نے عرض کی، "کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق بنائیں گے جو زمین میں فساد مچائے گی اور خون بہائے گی اورہم آپ کی تسبیح بیان کرتے ہیں آپ کی تعریف کے ساتھ اور آپ کی بزرگی بیان کرتے ھیں

اللہ تعالی نے فرمایا :بے شک میں خوب جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے 

سورۃ بقرہ آیۃ 30

پھر اللہ جلَّ شانہُ نے آدم علیہ السلام کو سڑی ہوئی مٹی  کے سوکھے ہوئے گارے سےبنایا 

سورۃ الحجر آیۃ 26

اور فرشتوں سے کہا : جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا - سورۃ الحجر آیۃ 29  

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ساری چیزوں کے نام سکھائے   پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا 
اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ خلیفہ بنانے سے زمین کا انتظام بگڑ جائے گا ) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ ؟
فرشتوں نے عرض کیا : ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ نے ہم کو سکھایا ہے - حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ہے 
پھر اللہ تعالیٰ نے آدم  علیہ السلام  سے فرمایا : تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاؤ :ـ جب آدم علیہ السلام نے فرشتوں  کو سب چیزوں کے نام بتا دئے تو اللہ جلّ شانہ نےفرمایا :میں نے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمینوں کی ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تمہیں معلوم نہیں ہیں    
  جوکچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو تم چھپاتے ہو اسے بھی میں جانتا ہوں                              سورۃ بقرہ آیۃ 31-32-33 
اور جب کہا ہم نے فرشتوں سے کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو - تو سب سجدے میں گر پڑے سوائے ابلیس کے وہ جنّوں میں سے تھا - پس اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی- کیا تم مجھے چھوڑ کر اسے اور اسکی اولاد کو اپنا دوست بناتے ہو - حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں - بُرا بدلہ ھے ظالموں کے لیے - 
سورۃ کہف آیۃ 50
اللہ جلّ شانہ نے پوچھا ِ " اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تُو نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ سجدہ نہ کیا ؟ حالانکہ میں نے اس     بات کا حکم دیا ہے- اس نے  کہا میں اس سے بہتر ہوں آپ  نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے   ۔ 
  سورۃ اعراف 3 2
شیطان نے جواب دیا : میرا یہ کام نہیں کہ میں اس بشر کو سجدہ کروں جسے آپ نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے ہوئے گارے سے پیدا کیا                            - سورۃ الحجر آیۃ33
اللہ جلّ شانہ نے فرمایا :تو اس لائق نہیں کہ تکبر کرے پس یہا ں  سے نکل تو مردود ہے اور روز جزا تک تجھ پر لعنت ہے - ابلیس نے کہا  : "اے میرے رب یہ بات ہے تو مجھے اُس دن تک مہلت دے دیں جب سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے ۔
"اللہ تعالیٰ نے فرمایا :  ٹھیک ہے تجھے مہلت ہے - ابلیس نے کہا :  جیسا کہ آپ نے مجھے گمراہ کیا میں آدم اور اس کی اولاد کو بہکانے اور گمراہ کرنے کے لیے آپ کی سیدھی راہ پر تاک لگا کر بیٹھوں گا - پھر میں ان کے پاس اُن کے سامنے سے اور اُن کے پیچھے سے اور ان کے دائیں طرف سے اور ان کے بائیں طرف سے آؤں گا  اور ان میں سے زیادہ تر انسانوں کو شکر گزار نہ رہنے دوں گا 
سورۃ اعراف آیۃ ۔13-14-15-16-17 ۔
فرمایا اللہ تعالیٰ نے نکل یہاں سے بُرے حال میں مردود ہو کر جو کوئی ان میں سے تیری راہ پر چلے گا تو میں تم سب سے دوزخ کو بھر دوں گا 
سورۃ اعراف آیۃ ۔  18
ابلیس نے کہا : ( اے میرے الله)  دیکھ تو سہی کیا یہ اس قابل تھا کہ آپ نے اسے مجھ پر فضلیت دی ؟ اگر آپ مجھے قیامت کے دن تک مہلت دیں تو میں اسکی پوری نسل کے پاؤں سلامتی کی راہ سے اکھاڑ پھینکوں گا - بس تھوڑے ہی لوگ مجھ سے بچ سکیں گے
سورۃ بنی اسرائیل آیۃ  ۔ 62  
اللہ تعالیٰ نے فرمایا  : اچھا تو جا ِ ان میں سے جو بھی تیری پیروی کریں تجھ سمیت اُن سب کے لیے جہنم ہی بھرپور سزا ہے - تو جس جس کو اپنی دعوت سے پھسلا سکتا ہے پھسلا لے ، ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا ، مال اور اولاد میں ان کے ساتھ شامل ہو جا ، ان کو اپنے وعدوں کے جال میں پھانس لے اور شیطان کے وعدے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہیں - بے شک میرے بندوں پر تجھے کوئی قدرت اور اختیار حاصل نہ ہو گا - اور توکل کے لیے تیرا رب ہی کافی ہے -
سورۃ بنی اسرائیل آیۃ 63-64-65       
                     اور اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رھو پھر کھاؤ جہاں سے چاہو اور اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ تم ہو جاؤ گے گنہگاروں میں سے 
سورۂ اعراف آیۂ - 19
پھر بہکایا ان کو شیطان نے تاکہ کھول دے ان پر وہ چیز جو ان کی نظر سے پوشیدہ تھی ان کی شرمگاھوں سے ۔ اور بولا تمہیں تمہارے رب نے اس لئے اس درخت سے روکا ہے کہ اس کو کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے یا ہمیشہ زندہ رہنے والے ہو جاؤ گے ۔
سورہ اعراف آیہ -20- 
اور ان کے سامنے قسم کھائی کہ میں۔ تمہارا دوست ہوں پھر مائل کر لیا ان کو فریب سے  ۔ پھر جب چکھا ان دونوں نے درخت کو  تو کھل گیئں ان پر شرمگاہیں  (جنت کا لباس اتر گیا)۔
اور وہ اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑنے لگے ۔ اور پکارا ان کو ان کے رب نے کیا میں نے منع نہ کیا تھا تم کو اس درخت سے اور کہہ دیا تھا تمہیں کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے  ۔
سورۂ اعراف آیۃ -21- 22-      
وہ دونوں بولے، حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیھا السلام : 
اے دب ہمارے ! ہم نے  اپنی جانوں پر ظلم کیا  اور اگر آپ نے ہماری مغفرت نہ کی  اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم  ضرور   تباہ  ہو جائیں  گے ۔  
فرمایا اللہ تعالی نے :- تم اترو ،  تم ایکدوسرے کے دشمن ہو گے اور تمہارے لیے  مقررہ وقت تک زمین میں  ٹھکانا اور نفع اٹھانا ہے ۔ فرمایا تم اسی زمین میں زندہ رہو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی زمین سے نکالے جاؤ گے ۔ 
اے اولاد آدم !
ہم نے اتاری تم پر پوشاک اور آرائش کے کپڑے  جو ڈھانپتے ہیں تمہاری شرمگاہیں اور پرھیزگاری کا لباس  
   سب سے بہتر ہے ۔ یہ اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں -تاکہ لوگ غوروفکر کریں 
سورۃ اعراف آیۃ - 23-24-25-26 
اور اس سے پہلے ہم نے تاکید کر دی تھی آدم علیہ السلام کو پھر وہ بھول گئے - اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا - اور جب 
 کہا ہم نے فرشتوں سے  ! آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے  
پس کہا ہم نے ، "اے آدم یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے - سو تم کو جنت سے نکلوا نہ دے پھر تم مصیبت میں پڑ جاؤ گے - بے شک جنت میں تو نہ تمہیں بھوک لگتی ہے اور نہ تم ننگے ہو ( جنت کے لباس میں ہو) اور نہ تمہیں پیاس لگتی ہے اور نہ دھوپ 
سورۃ طہ آیۃ  115-116-117-118-119
پھر وسوسہ ڈالا شیطان نے کہا ، اے آدم ! کیا میں تجھے بتاؤں  (درختِ حیات ) ہمیشہ رہنے والا درخت اور بادشاہی جو کبھی پرانی نہ ہو  - پھر دونوں نے کھا لیا اسمیں سے - پھر کھل گئیں ان پر ان کی بری چیزیں اور وہ جوڑنے لگے ان پر جنت کے پتے - اور حکم ٹالا آدم علیہ السلام نے اپنے رب کا پھر راہ سے بھٹکا 
سورۃ طہ آیۃ 120-121  

پھر نواز دیا اس کو اسکے رب نے  پھر اس پر متوجہ ہوا اور راہ پر لایا - فرمایا اللہ تعالی نے          ،اتر جاؤ یہاں سے سارے - تم ایکدوسرے کے دشمن ہو گے - پھر جب پہنچے تم کو ہماری طرف سے ھدایت پھر جو ہماری بتائی ہوئی راہ پر چلے گا  سو نہ تو وہ بھٹکے گا اور نہ تکلیف میں پڑے گا - اور جس نے میری یاد سے منہ پھیرا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی  اور اسے ہم قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے - وہ کہے گا ، اے رب میرے کیوں اٹھا لائے آپ مجھے اندھا اور میں تو دیکھنے والا تھا (آنکھوں والا  تھا ) اللہ جل شانہ فرمائیں گے ،اسی طرح تیرے پاس میری آیات آئی تھیں پھر تو نے ان کو بھلا دیا اسی طرح آج ہم تجھ کو بھلا دیں گے - اور اس طرح بدلہ دیں گے ہم اس کو جو حد سے نکلا اور اپنے رب کی باتوں پر ایمان نہ لایا اور آخرت کا عذاب سخت اور ہمیشہ رہنے والا ہے - 
سورۃ طہ آیۃ 122-123-124-125-126-127


*افضل اعمال کا بیان*. 1

*حضرت ابو ذر*  جن کا نام۔ جُندُب بن جُنَادہ ہے  رضی الله تعالی عنہ سے رویت ہے کہ 
میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا ۔ 
*یا رسول الله* !  کونسا عمل ( سب سے زیادہ) افضل ہے ۔ ؟ 
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا   الله جل شانہ پر ایمان لانا  اور۔ اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ 
 میں نے عرض کیا  : کونسا غلام آزاد کرنا زیادہ افضل ہے ؟ 
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :  " جو مالکوں کے نزدیک سب سے زیادہ نفیس ہو اور اس کی قیمت سب سے زیادہ ہو ۔ 
میں نے عرض کیا ، پس اگر میں ( اپنی تہیدستی کی وجہ سے ) نہ کروں ۔  ( یعنی غلام آزاد نہ کر سکوں ) ۔ 
 آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : تم کسی کاریگر کی مدد کرو ، یا کسی ناکارہ کے لئے کام کرو  " ۔ 
 ۔ ( خود محنت مزدوری کر کے اسے اس کو دے دو یا اس کی معاش کی کفالت کرو ) ۔ 
میں نے عرض کیا  " یا رسول الله ! ذرا بتائیے  اگر میں ان میں سے بھی کوئی کام نہ کر سکوں ؛ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :  " تم اپنے شر سے لوگوں کو بچاؤ " ( یعنی کس بھی شخص کو کسی بھی طرح کا دُکھ یا تکلیف نہ پہنچاؤ ) ۔ 
کہ یہ تمہارا خود اپنے اوپر احسان ہے ۔ ( اور  ثواب کا کام ہے) ۔ 
 متفقٌ علیہ ۔
*اعمال صالحہ اور کار ہائے خیر کی ضرورت اور اہمیت* 
اعمال صالحہ کے بغیر صرف ایمان ایک ایسا درخت ہے  جس کی صرف جڑ ہو وہ بھی زمین کے اندر ۔ لیکن زمین کے اوپر نہ اس کی کوئی شاخ ہو ، نہ تنا،  نہ ٹہنیاں ۔ نہ ٹہنیوں پر پتے نہ پھول نہ پھل ۔ظاہر ہے کہ جب تک یہ درخت پھوٹ کر باہر نہ نکلے  اس کی جڑ پر تنا نہ بنے ، شاخیں نہ ہوں شاخوں پر پتے پھول ُپھل نہ لگیں یہ نام کا درخت ہو گا اور محض بے کار ۔ اسی طرح جو شخص صرف دل سے الله تعالی کو مانتا ہے  لیکن زبان سے نہ کلمہ پڑھتا ہے  نہ نماز ، روزہ کا اہتمام کرتا ہے نہ ہی اسلام کے کسی بھی حکم پر عمل کرتا ہے اس کو ایمان نہیں کہا جا سکتا ۔ وہ صرف گوشت کھانے کا مسلمان ہے ۔ اس لئے کہ مسلمان بننے  کے لئے دل سے ایمان لانے کے بعد زبان سے کلمۂ توحید پڑھنا  فرض عبادتوں  ( نماز ، روزہ ، زکٰوۃ ،  حج  وغیرہ ) پر عمل کرنا اور الله جل شانہ کے ہر حکم پر عمل کرنا ہی مسلمان ہونا ہے ۔ 
اسی لئے حضرت ابو ذر غفاری رضی الله تعالی عنہ --- جو ایک قدیم الا سلام  جلیل القدر صحابی ہیں اور ایسے متقی اور پرھیزگار ہیں کہ ان کا تصور اور خیال بھی معصیت اور گناہ سے ناآشنا ہے  اعمالِ صالحہ اور کارہائے خیر کی حرص اور جستجو کی وجہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نیک اعمال اور بھلائی کے کاموں کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔ اور نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم بھی ابو ذر کو جواب میں ----- ایسے ہمہ گیر اور دور رس اعمالِ صالحہ اور بھلائیوں کے کاموں کے بارے میں بتاتے ہیں جن سے کوئی بھی مسلمان خواہ کسی دَور سے تعلق رکھتا ہو کسی حالت میں محروم نہیں رہ سکتا ۔ بشرطیکہ عبادت سمجھ کر اور خالص نیت کے ساتھ کرے ۔ اگر نیت ہی درست نہ ہو تو اس کا کچھ علاج نہیں ۔ 
حضرت ابو ذر  کا پہلا سوال کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے ؟ 
لغت کے اعتبار سے  افضل ، فضل سے بنا ہے اور فضل کے معنی ہیں زیادت ۔ یہ زیادتی دُنیا میں عمل کی دشواری اور مشقت کی وجہ سے ہے اور آخرت میں اجر و ثواب کی زیادتی کے اعتبار سے ہیں ۔ 
اور حقیقت بھی یہ ہے کہ ۔ *اشَقُّ الاَعمَالِ اکثرُھا ثَواباً* 
جس کام میں جتنی زیادہ محنت اور مشقت ہو گی اس کا ثواب بھی اس قدر زیادہ ہو گا ۔ 
چنانچہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جواب میں فرماتے ہیں : الله جل شانہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ 
کسی بھی انسان کے لئے اپنے باپ دادا کے دین کو اور ہوش سنبھالتے ہی جس کو عبادت کے لائق سمجھا  اس معبود کو چھوڑ کر ایک نئے معبود پر اور اس کی واحدانیت پر ایمان لانا  اور ایک نئے مذہب کو قبول کرنا بہت مشکل ہے ۔ اگرچہ اس کی سچائی کا پورا یقین بھی ہو تب بھی نفسیاتی طور پر ایک انسان کے لئے بہت مشکل اور نا قابلِ برداشت کام ہے 
دیکھئے ابتدائے اسلام میں قریش نے  بدر و اُحد کی لڑائیوں میں اپنے اعلٰی درجہ کے بہادر جنگجو جو کہ ایک ایک  ہزاروں پر بھاری تھا صرف اپنے آبائی دین کی حفاظت اور بتوں کی پرستش پر قربان کر دیا ۔ مگر آپ صلی الله علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے ۔ یہاں تک کہ چند سال ہی میں مکہ مکرمہ فتح ہو گیا اور کفار و قریش کا نام و نشان مٹ گیا ۔ 
یہ کفار قریش ہی کی خصوصیت نہ تھی بلکہ آج بھی کسی غیر مسلم کے لئے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر اسلام قبول کرنا اور الله جل شانہ و رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانا اتنا ہی مشکل اور دشوار ہے ۔ 
ہم اگرچہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں الحمدُلله اور الله جل شانہ کے سوا کسی اور معبود کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔پھر بھی   ہم نے اپنے خاندانی اور علاقائی رسم و رواج کو اس شدت سے اختیار کر لیا ہے کہ انہیں چھوڑنا سخت دشوار ہو گیا ہے ۔ اگرچہ ہم پر ان کی برائی اور غیر اسلامی ہونا بھی واضح ہو جائے ۔
اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر الله جل شانہ پر ایمان لانا ہی کافی مشکل اور دشوار کام ہے اسی کے ساتھ زندگی کے سب سے بڑے سرمایہ " جان و مال"  کو الله جل شانہ کی راہ میں قربان کرنا  اور سر بکف ، کفن بر دوش کافروں سے جنگ کے لئے نکل پڑنا ۔ دونوں ہی نہایت دشوار اور مشکل کام ہیں ۔ کیونکہ انسان کے لئے جان و مال کی محبت فطری اور خلقی ہے ۔ الله جل شانہ کی راہ میں اس فطری محبت کو چھوڑ کر نتائج سے بے پرواہ ہو کر جنگ کی آگ میں کود پڑنا بڑے دل جگرے کا کام ہے  ایسے ہی مؤمنوں کے متعلق الله جل شانہ فرماتے ہیں 
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ 
سور ۃ التوبہ آیہ-  ۱۱۱
بلا شبہ الله جل شانہ نے اہلِ ایمان سے اُن کے جان و مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں ۔
الله جل شانہ خریدار ہے مؤمن دکاندار ہیں ، جان ومال سودا ہے اور جنت اس کی قیمت ہے ۔ ہر الله پر ایمان لانے والا اپنا مال و جان جنت کے عوض الله جل جلالہ کے ہاتھ بیچ چکا ہے ۔ اسی لئے مؤمنِ کامل ایمان کے بعد بغیر کسی جھجھک کے جان و مال الله کی راہ میں قربان کرنے کے لئے جب بھی موقعہ ملتا ہے میدانِ جنگ میں کود پڑتا ہے 
اوّل تو حق تعالی جل جلالہ پر کامل ایمان لانا دشوار ہے اور اس کے بعد الله کی راہ میں جہاد کرنا اس سے بھی مشکل ہے اسی لئے سب سے زیادہ الله جل شانہ کا پسندیدہ اور افضل عمل ہے جو اعلٰی درجہ کے ایمان والوں ہی کو نصیب ہوتا ہے ۔ 
 جاری ہے ~~~~~~~

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں