نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جنوری, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

*حق کو چھپانے کی ممانعت*

وَلَا      ۔ تَلْبِسُوا       ۔ الْحَقَّ        ۔ بِالْبَاطِلِ  اور نہ ۔      تم ملاؤ      ۔ سچ ۔     جھوٹ سے  وَتَكْتُمُوا      ۔ الْحَقَّ      ۔ وَأَنتُمْ       ۔ تَعْلَمُونَ۔  4️⃣2️⃣ اور نہ تم چھپاؤ ۔     سچ  ۔     اور تم ۔              تم جانتے ہو  وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ.  4️⃣2️⃣ اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور سچ کو نہ چھپاؤ اور تم جانتے  لَا تَلْبِسُوا ۔ ( مت ملاؤ ) ۔ یہ لفظ لَبس  سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز میں ملا دینا تاکہ اس کا پہچاننا مشکل ہو جائے ۔ اور جھوٹ کو سچ کی شکل میں ظاہر کرنا جس سے سچ کی پہچان مشکل ہو جائے ۔ یا جھوٹ کے اوپر ایسا ملمّع کرنا کہ دیکھنے میں بالکل سچ معلوم ہو ۔  تَکْتُمُوا ۔ ( چھپاؤ) یہ کَتَمَ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چھپانا ۔ الله جل شانہ کے حکموں...

*جہاد اور نیت*

*حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنھا*سےروایت ہے کہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ارشاد فرمایا : فتح کے بعد ہجرت تو باقی نہیں رہی ۔ لیکن جہاد اور نیت باقی ہیں ۔ جب بھی تمہیں جہاد کے لئے روانہ ہونے کی دعوت دی جائے تو فوراً روانہ ہو جاؤ ۔  *ھجرت*  مکہ معظمہ کے فتح ہونے سے پہلے مکہ سے مدینہ ھجرت کرنا فرض تھا ۔ اگر مکہ کا رہنے والا قدرت کے باوجود مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ھجرت  نہیں کرتا تھا تو اس کا اسلام اور ایمان بھی معتبر نہ ہوتا تھا تھا ۔ لیکن مکہ کے فتح ہو جانے اور دار الاسلام بن جانے کے بعد یہ خاص ہجرت باقی نہیں رہی ۔ چنانچہ اب دار الکفر میں مسلمانوں کو اگر کفّار اسلامی عبادات اور احکامات پر عمل کرنے سے نہ روکیں تو ان کے لئے ھجرت کر کے اسلامی ملک میں جا کر آباد ہونا ضروری نہیں ۔ اس لئے ترکِ وطن (ھجرت ) فرض نہیں رہی ۔ یہی مطلب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان کا ہے ۔  *جہاد*  لیکن اسلام اور کُفر کا مقابلہ اور مسلمانوں کی کافروں سے لڑائی اور اس کی تیاریاں رہتی دنیا تک باقی رہیں گی ۔  حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔ جہاد قیامت تک جار...

*آیاتِ الٰہی کا مول*

وَلَا                  ۔ تَشْتَرُوا۔          ۔ بِآيَاتِي     ۔ ثَمَنًا          ۔ قَلِيلًا     ۔  اور نہ ۔ تم خرید و فروخت کرو  ۔ میری آیات کی ۔ قیمت ۔             تھوڑی  وَإِيَّايَ       فَاتَّقُونِ.   4️⃣1️⃣ اور صرف مجھ ہی سے ۔ پس تم ڈرتے رہو     4️⃣1️⃣ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ اور میری آیات پر تھوڑا مول نہ لو  اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو ۔  ثَمَناً قَلِیْلاً ۔ ( تھوڑی قیمت ) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حق کو چھوڑ کر دنیا کے طلب گار نہ بنو ۔ دنیا بظاہر کیسی ہی بڑی اور شاندار نظر آئے پھر بھی سچائی اور حق کے مقابلے میں حقیر اور بے قدر چیز ہے ۔ کیونکہ عارضی اور نا پائیدار ہے ۔  وَ ایَّایَ فَاتَّقُوْنَ ۔( اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو ) ۔ اِتِّقَا کے معنی ہیں برائیوں سے بچنا یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ برائیوں سے بچنے کی وجہ صرف الله جل جلالہ کے عذاب اور ناراضگی...

*دعوتِ قرآن*

وَآمِنُوا    ۔    بِمَا    ۔    أَنزَلْتُ              ۔     مُصَدِّقًا۔            اور تم مان لو ۔     وہ جو ۔ میں نے اُتاری ۔ سچ بتانے والی   لِّمَا                    ۔ مَعَكُمْ       ۔ وَلَا       ۔   تَكُونُوا      ۔    أَوَّلَ      ۔ كَافِرٍ     ۔     بِهِ  اس کے لئے جو ۔ تمہارے پاس ہے ۔ اور نہ       ۔ تم ہو جاؤ  ۔ پہلے      ۔ کافر    ۔ اس کے   وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ  اور ایمان لے آؤ اس کتاب پر جو میں نے اتاری  اس کی تصدیق کرنے والی ہے  جو تمہارے پاس ہے ۔ اور تم سب سے پہلے اس کا انکار کرنے والے نہ ہو جاؤ ۔  مَا اَنْزَلْتُ ۔ ( جو میں نے نازل کیا ) ۔ اس سے مراد قرآن مج...

*بنی اسرائیل پر انعاماتِ خداوندی*

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ     ۔ اذْكُرُوا۔               ۔  نِعْمَتِيَ       اے اولاد یعقوب ۔       یاد کرو ۔    میرے احسان ۔  الَّتِي۔          أَنْعَمْتُ           ۔    عَلَيْكُمْ           ۔   وَأَوْفُوا      ۔  وہ جو ۔ میں نے انعام کیا       ۔ تم پر      ۔ اور تم پورے کرو  بِعَهْدِي         أُوفِ                          بِعَهْدِكُمْ۔       میرا عھد ۔   میں پورا کروں گا ۔     تمہارے عہد کو   وَإِيَّايَ                   فَارْهَبُونِ۔  4️⃣0️⃣ اور خاص مجھ سے         ۔ پس تم ڈرتے رہو  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ...

*بنی اسرائیل*

يَا  ۔      بَنِي        ۔    إِسْرَائِيلَ  اے  ۔      اولاد۔          بندۂ خدا   يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ  اے بنی اسرائیل   اب پانچویں رکوع سے بنی اسرائیل کی تاریخ ، اُن کے بلند مرتبے ، لغزشوں ، گناہوں اور فضیلت کے چھن جانے کا بیان شروع ہوتا ہے ۔ قرآن مجید کا یہ حصہ خاص طور پر توجہ سے پڑھنے کے لائق ہے ۔ بنی اسرائیل کی تاریخ میں مسلمانوں کے لئے بہت سے عبرت اور نصیحت کے مواقع ہیں ۔ تاکہ ہم ان لغزشوں اور غلطیوں سے بچ سکیں جن کی وجہ سے یہ عظیم الشان قوم تباہ و برباد ہوئی ۔ اور الله جل جلالہ کے غضب کا نشانہ بنی ۔  بنی ٓ اسرَائیل ۔ ( بنی =اولاد ۔۔۔۔۔۔۔ اسرا = بندہ ۔۔۔ ئیل = خدا ) ۔  یعنی خُدا کے بندے کی اولاد ۔ اسرئیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔ اس وجہ سے ان کی اولاد اور خاندان کو بنی اسرائیل کا لقب ملا ۔ انہیں یہودی بھی کہتے ہیں ۔  بنی اسرائیل کا سلسلہ اصل میں حضرت ابراھیم علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے ۔ اُن کے دو بیٹے تھے ۔      حضرت ا...

*منکرینِ وحی کا انجام*

وَالَّذِينَ     ۔ كَفَرُوا  ۔      ۔     وَكَذَّبُوا                      ۔ بِآيَاتِنَا اور وہ لوگ ۔ کافر ہوئے ۔ اور انہوں نے جھٹلایا  ۔ ہماری آیات کو   أُولَئِكَ      ۔ أَصْحَابُ     ۔ النَّارِ       ۔ هُمْ    ۔ فِيهَا        ۔ خَالِدُونَ۔ 3️⃣9️⃣ یہی ہیں ۔ صاحب ۔  مم۔  آگ ۔        وہ۔    اس میں ۔ ہمیشہ رہنے والے ہیں  وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ. 3️⃣9️⃣ اور جو لوگ کفر کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہی جھنمی ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔  اصحاب النّار ۔ ( جہنمی) ۔   اس کا مطلب ہے دوزخ میں رہنے والے ۔ گویا جو لوگ شریعت سے انکار کرکے الله جل جلالہ کے قانون کو جھٹلاتے ہیں ۔ انہوں نے اپنا تعلق دوزخ سے جوڑ لیا ہے  اُن کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہو گی ۔  حضرت آدم علیہ السلام...

*وحی کی ضرورت*

قُلْنَا۔     اهْبِطُوا۔                       مِنْهَا   ۔      جَمِيعًا                 فَإِمَّا      ہم نے کہا ۔ اتر جاؤ تم سب        ۔ اس سے ۔      سارے  ۔ پھر جب کبھی     ۔ يَأْتِيَنَّكُم   ۔          مِّنِّي                      ۔ هُدًى   ۔ آئے تمہارے پاس ۔ میری طرف سے              ۔ ھدایت  فَمَن      ۔ تَبِعَ۔                   ۔ هُدَايَ               ۔ فَلَا     ۔ خَوْفٌ   پس جو ۔ پیروی کی اس نے ۔     میری ھدایت کی   ۔ پس نہیں   ۔ خوف    ۔ عَلَيْهِمْ     ۔ وَلَا      ۔ هُمْ       ...

*حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ*

فَتَلَقَّى     ۔ آدَمُ       ۔ مِن      ۔ رَّبِّهِ         ۔ كَلِمَاتٍ       ۔ فَتَابَ                  ۔ عَلَيْهِ         پس سیکھ لئے ۔ آدم۔        ۔ سے ۔۔ اسکا رب     ۔ الفاظ       ۔ پس وہ متوجہ ہوا ۔ اُس پر  إِنَّهُ        هُوَ                  ۔ التَّوَّابُ             ۔      الرَّحِيمُ.    3️⃣7️⃣ بے شک وہ     ۔ وہ        ۔ بڑا توبہ قبول فرمانے والا۔        ۔    بہت مہربان  فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ.    3️⃣7️⃣ پھر آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں ۔  پھر وہ اُن پر متوجہ ہوا ۔ بے شک وہی توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان...

*احادیث پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت*

اسلام اور مسلمانوں کے لئے آج کے دور میں سب سے مہلک مرض دین اور دین کی بنیادی معلومات کی حقیقت سے نا واقفیت اور جہالت ہے جس کے نتیجہ میں دین سے خصوصاً عملی زندگی میں بے تعلقی اور بیزاری پیدا ہوتی ہے ۔  اسلام اور مسلمانوں کی تایخ گواہ  ہے کہ مسلمانوں میں اسلامی انحطاط کا لازمی نتیجہ دنیا میں زوال کی صورت ظاہر ہوا ۔ مسلمانوں نے الله جل شانہ کو بھلا دیا ۔ الله کریم نے مسلمانوں سے توجہ ہٹا لی ۔ ارشادِ باری تعالی ہے :۔  نَسُوا اللهَ فَنَسِيَهُمْ  ---- التوبة: 67 انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انکو بھلا دیا۔  اسی پر بس نہیں بلکہ الله جل جلالہ کو بھلانے کی سزا دنیا ہی میں اپنے آپ کو فراموش کر دینے کی صوت میں دے دی گئ ۔  ارشاد باری تعالی ہے ۔۔۔۔ و وَلَا تَکُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔۔۔۔ سورۃ الحشر آیہ 19 اور ان لوگوں جیسے نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں ایسا کر دیا کہ وہ خود اپنے آپکو بھول گئے۔ یہی لوگ ہیں نافرمان۔ اسلامی ملکوں اور حکومتوں کو تاراج کرنے والے اس حقیقت سے بخوبی...

*حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش*

فَأَزَلَّهُمَا      ۔ الشَّيْطَانُ       ۔ عَنْهَا       ۔ فَأَخْرَجَ۔                          هُمَا۔     پھر اس نے پھسلا دیا اُن دونوں کو ۔     ابلیس  ۔ اس سے  ۔ پس نکال دیا اس نے ۔ ان دونوں کو    ۔  مِمَّا       ۔ كَانَا   ۔             فِيهِ  اس سے جو ۔    وہ دونوں تھے ۔     اُس میں  فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ  پھر شیطان نے انہیں اس کے بارے میں پھسلایا ۔ پس نکال دیا اس نے اس ( جگہ ) سے جہاں وہ تھے ۔ فَاَزَّلَّھُمَا ۔ ( پھر اس نے انہیں پھسلا دیا ) ۔ یہ لفظ زَلَّه سے بنا ہے جس کے معنی ہیں جگہ سے ہٹا دینا یا پھسلا دینا ۔ اس لفظ کے مفہوم میں جان بوجھ کر نافرمانی یا سر کشی داخل نہیں ۔ بلکہ ایسی لغزش مُراد ہوتی ہے جو بھول چُوک یا انجان پنے میں ہو جائے ۔  اَلشَّیْطٰن۔ ( شیطان ) ۔ شیطان سے مراد وہ مخلوق ہے...

*شجرِ ممنوعہ*

وَلَا    ۔ تَقْرَبَا      ۔ هَذِهِ      ۔ الشَّجَرَةَ          ۔ فَتَكُونَا  ۔                مِنَ         ۔ الظَّالِمِينَ.   3️⃣5️⃣ اور نہ ۔ تم دونوں قریب ہو ۔ یہ  ۔      درخت    ۔ پس تم دونوں ہو جاؤ گے ۔     سے                        ۔ ظالم   وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ۔  3️⃣5️⃣ اور تم اس درخت کے قریب نہ جانا  ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔  لَا تَقْرَبَا ۔۔۔ ( قریب نہ جاؤ )  اس حکم سے اصل مراد یہ تھی کہ حضرت آدم علیہ السلام اس درخت کا پھل نہ کھائیں ۔ انہیں قریب جانے سے اس لئے روک  لیا کہ اس کے پھل کی خواہش ہی پیدا نہ ہو ۔  ھٰذِہِ الشَّجَرَۃ ۔۔ ( یہ درخت ) ۔ جنت کے درختوں میں سے کوئی درخت تھا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی پہچان کرا دی گئی تھی ۔ قرآن مجید میں حق تعالی جل...

*حضرت آدم علیہ السلام جنت میں

وَقُلْنَا    ۔ يَا۔    آدَمُ    ۔ اسْكُنْ          ۔ أَنتَ     ۔ وَزَوْجُكَ               الْجَنَّةَ          اور ہم نے کہا ۔ اے ۔    آدم      ۔ تو رہ        ۔ تو ۔     اور تیری بیوی ۔ جنت میں  وَكُلَا    ۔ مِنْهَا          ۔ رَغَدًا     ۔ حَيْثُ              ۔ شِئْتُمَا  اور دونوں کھاؤ   ۔ اس میں  ۔  با فراغت ۔ جہاں ۔ تم دونوں چاہو  ۔ وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا  اور ہم نے کہا ! اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو  اور اس میں جہاں سے چاہو با فراغت کھاؤ ۔  جَنَّۃَ ۔۔ ( جنت ) اس کے لغوی معنی ہیں وہ باغ جس کے گھنے درخت زمین کو چھپا لیں ۔ شرع کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ عظیم الشان باغ ہے جس میں بے شمار نعمتیں ہیں اور جو ...

کلمہ طیبہ

کلمہ طیبہ کا مقصد یہ ہے کہ چار لائن کا یقین ہمارے دل کے اندر آجائے . لاالہ الا اللہ سے دو باتوں کا یقین اور محمدرسول اللہ سے دو باتوں کا یقین . *لَا الٰہ الا الله سے دو باتوں کا یقین* 1) *لَا اِلٰہ* ۔۔۔۔  یعنی زمین سے لیکر آسمان تک جتنی چیزیں ہیں وہ سب اللہ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں کر سکتیں  2) *الّا الله* ۔۔۔۔  يعنی اللہ تعالی ان ساری چیزوں کے بغیر سب کچھ کرسکتے ہیں.  *محمدٌ رّسول الله* 3) اگر ہماری زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے موجود ہوں دنیا کی کوئی چیز بھی موجود نہ ہو تو بھی ہم دونوں جہاں میں کامیاب ہوجائیں گے. 4) اگر ہماری زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم کے طریقے موجود نہ ہوں لیکن دنیا جہاں کی ہر چیز موجود ہو تو بھی ہم دنیا و آخرت میں برباد ہوجائینگے. *فضائل* حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارکہ کا مفہوم ہے ۔۔۔۔کہ جو بھی بندہ کسی وقت بھی دن میں یا رات میں  "لا الہ الا اللہ" کہتا ہے تو اعمال نامہ میں سے برائیاں مٹ جاتی ہیں اور انکی جگہ نیکیاں لکھی جاتی ہیں. (رواہ ابو یعلیٰ)  حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد...

*عمل کا دارومدار نیت پر ہے*

امیر المومنین ابو حفص عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول  صلی الله علیہ وسلم ہی کی جانب ہے۔  ( یعنی دنیا اور آخرت دونوں میں اسے پھل ملے گا ) اور جس کی ہجرت دنیا کےلیے ہے کہ اسےکمائے یا عورت سے شادی کرنے کے لئے ہجرت کی ہو گی اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہو گی ۔ جس کے لئے اس نے ہجرت کی ۔ ( ملے یا نہ ملے یہ اس کی قسمت ہے ۔ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے اسے کچھ نہ ملے گا ۔ )  ۔ *نیت کا بیان*  نیت کے معنی اگرچہ قصد اور ارادے کے ہیں ۔ لیکن نیت دراصل اُس وجہ کا نام ہے جس کے لئے انسان کوئی کام کرتا  ہے ۔ خواہ وہ وجہ اچھی ہو یا بُری ۔  حضرت امام غزالی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں کہ " نیت وہ خواہش ہے جو تجھے کسی کام میں لگا دے اور کام وہ چیز ہے جس کے کرنے پر تُو قادر ہوتا ہے " اور یہ کہ کسی عمل کی نیت کا اعلا...

*فرشتوں کا سجدہ*

وَإِذْ    ۔ قُلْنَا   ۔      لِلْمَلَائِكَةِ    ۔      اسْجُدُوا   ۔         لِآدَمَ     ۔                        فَسَجَدُوا اور جب ۔ ہم نے کہا۔ ۔ فرشتوں سے ۔     تم سجدہ کرو ۔ آدم کے لئے ۔ پس انہوں نے سجدہ کیا   إِلَّا      ۔ إِبْلِيسَ     ۔ أَبَى     ۔              وَاسْتَكْبَرَ                ۔ وَكَانَ    ۔ مِنَ       ۔ الْكَافِرِينَ۔   3️⃣4️⃣ سوائے    ۔ ابلیس ۔ انکار کیا اُس نے ۔ اور تکبر چاہا اُس نے ۔ اور تھا وہ  ۔ سے                      ۔ کافروں  وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ.   3️⃣4️⃣ اور جب ہم نے فرشتوں...

*افضل اعمال کا بیان* -2

*افضل اعمال کا بیان* *ابو ذر رضی الله تعالی عنہ*  کا دوسرا سوال ہے  اَیُّ الِّرِقَابُ اَفْضَلُ ۔۔۔۔  کونسے غلام کو آزاد کرنا سب سے افضل ہے ۔  نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں :   اَنْفَسَھَا عِنْدَ اَھْلِھَا وَ اَکْثَرُھَا ثَمَنًا    ۔  جو غلام مالک کے نزدیک سب سے زیادہ نفیس ہو  اور سب سے زیادہ قیمت والا ہو ۔  مالک کے نزدیک نفیس تر ہونے کا معیار حسنِ خدمت پر ہے ۔  بعض  غلام اپنے مالک کے ایسے مزاج آشنا ہوتے ہیں کہ مالک کو جس چیز کی ضرورت ہو اس کے کہنے سے پہلے ہی حاضر کر دیتے ہیں ۔ اور اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے ۔ ایسے غلام کو مالک اپنے آپ سے کبھی جُدا کرنا نہیں چاہے گا ۔ اس لئے یہ ایک مشکل اور دشوار کام ہے ۔ اور وہی کر سکتا ہے جو الله کا دوست اور محبت کرنے والا ہو اور اس کی زندگی کا مقصد ہی الله جل شانہ کی رضا ہو ۔ اسی وجہ سے اس کا اجر وثواب بھی زیادہ ہے ۔ ہر کوئی اس کام کو انجام نہیں دے سکتا  قرآن مجید میں الله جل  جلالہ کا فرمان ہے ۔  لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُ...

*علم کی فتح*

قَالَ    ۔    يَا    ۔ آدَمُ       ۔ أَنبِئْ۔          هُم    ۔ بِأَسْمَائِ  ۔       هِمْ    ۔  فرمایا ( الله تعالی نے ) ۔    اے ۔      آدم ۔    تو خبر دے  ۔ اُن کو ۔ ناموں کی ۔         اُنکے   فَلَمَّا   ۔           أَنبَأَ ۔         هُم   ۔    بِأَسْمَائِ  ۔ هِمْ    ۔  پس جب ۔     اس نے بتایا ۔ اُن کو ۔   ان کے نام ۔     ان کو  قَالَ   ۔    أَلَمْ    ۔      أَقُل          ۔ لَّكُمْ             ۔ إِنِّي   فرمایا ۔ کیا نہیں ۔ میں نے کہا ۔ تم سے ۔ بے شک میں    ۔ أَعْلَمُ                ۔ غَيْبَ          ۔ السَّمَاوَا...

*بچوں کے لئے دل چسپ اور سچی کہانی*

*قرآن مجید میں کل سات جگہوں پر حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے* یہ بالکل ایک کہانی کی طرح ہے ۔ اور کیونکہ الله جل شانہ نے اپنی کتاب حق میں  بیان کیا ہے اس لئے ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے ۔ اپنے بچوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کو جھوٹی اور خیالی کہانیاں سنانے کے بجائے یہ واقعہ سنائیں ۔ تاکہ اُن کے دلوں میں الله جل شانہ کی عظمت اجاگر ہو ۔ اور الله رب العزت کی ذات پر اُن کا یقین بنے ۔  اللہ جلَّ شانہُ نےجب انسان کی تخلیق کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :بے شک میں زمین میں اپنا نائب (خلیفہ) بنانے والا ہوں فرشتوں نے عرض کی، "کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق بنائیں گے جو زمین میں فساد مچائے گی اور خون بہائے گی اورہم آپ کی تسبیح بیان کرتے ہیں آپ کی تعریف کے ساتھ اور آپ کی بزرگی بیان کرتے ھیں اللہ تعالی نے فرمایا :بے شک میں خوب جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے  سورۃ بقرہ آیۃ 30 پھر اللہ جلَّ شانہُ نے آدم علیہ السلام کو سڑی ہوئی مٹی  کے سوکھے ہوئے گارے سےبنایا  سورۃ الحجر آیۃ 26 اور فرشتوں سے کہا : جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھو...

*افضل اعمال کا بیان*. 1

*حضرت ابو ذر*  جن کا نام۔ جُندُب بن جُنَادہ ہے  رضی الله تعالی عنہ سے رویت ہے کہ  میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا ۔  *یا رسول الله* !  کونسا عمل ( سب سے زیادہ) افضل ہے ۔ ؟  آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا   الله جل شانہ پر ایمان لانا  اور۔ اس کی راہ میں جہاد کرنا  ۔   میں نے عرض کیا  : کونسا غلام آزاد کرنا زیادہ افضل ہے ؟  آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :  " جو مالکوں کے نزدیک سب سے زیادہ نفیس ہو اور اس کی قیمت سب سے زیادہ ہو ۔  میں نے عرض کیا ، پس اگر میں ( اپنی تہیدستی کی وجہ سے ) نہ کروں ۔  ( یعنی غلام آزاد نہ کر سکوں ) ۔   آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : تم کسی کاریگر کی مدد کرو ، یا کسی ناکارہ کے لئے کام کرو  " ۔   ۔  ( خود محنت مزدوری کر کے اسے اس کو دے دو یا اس کی معاش کی کفالت کرو ) ۔  میں نے عرض کیا  " یا رسول الله ! ذرا بتائیے  اگر میں ان میں سے بھی کوئی کام نہ کر سکوں ؛ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :  " تم اپنے شر سے لوگوں ک...