نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*افضل اعمال کا بیان* -2

*افضل اعمال کا بیان*

*ابو ذر رضی الله تعالی عنہ*  کا دوسرا سوال ہے 
اَیُّ الِّرِقَابُ اَفْضَلُ ۔۔۔۔  کونسے غلام کو آزاد کرنا سب سے افضل ہے ۔ 
نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں :   اَنْفَسَھَا عِنْدَ اَھْلِھَا وَ اَکْثَرُھَا ثَمَنًا    ۔  جو غلام مالک کے نزدیک سب سے زیادہ نفیس ہو  اور سب سے زیادہ قیمت والا ہو ۔ 
مالک کے نزدیک نفیس تر ہونے کا معیار حسنِ خدمت پر ہے ۔  بعض  غلام اپنے مالک کے ایسے مزاج آشنا ہوتے ہیں کہ مالک کو جس چیز کی ضرورت ہو اس کے کہنے سے پہلے ہی حاضر کر دیتے ہیں ۔ اور اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے ۔ ایسے غلام کو مالک اپنے آپ سے کبھی جُدا کرنا نہیں چاہے گا ۔ اس لئے یہ ایک مشکل اور دشوار کام ہے ۔ اور وہی کر سکتا ہے جو الله کا دوست اور محبت کرنے والا ہو اور اس کی زندگی کا مقصد ہی الله جل شانہ کی رضا ہو ۔ اسی وجہ سے اس کا اجر وثواب بھی زیادہ ہے ۔ ہر کوئی اس کام کو انجام نہیں دے سکتا 
قرآن مجید میں الله جل  جلالہ کا فرمان ہے ۔ 
لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
مومنو! جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمہیں عزیز ہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم خرچ کرو گے اللہ اس کو جانتا ہے۔
سورۃ آل عمران ۔ آیہ92 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس بات پر عمل کرنا بھی اعلٰی درجہ کے مؤمنوں اور فرمانبرداروں کا کام ہے ۔ 
اس لئے حضرت ابو ذر رضی الله عنہ ایک عام مسلمان کو نظر میں رکھتے ہوئے سوال کرتے ہیں ۔ 
"اگر میں کم ہمتی کی وجہ سے یہ کام نہ کر سکوں تو " 
 رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں " تم کسی کاریگر کی مدد کرو  یا کسی ناکارہ کی " ۔ 
اس جواب کے دو  حصے ہیں ۔ 
اول : کوئی شخص کاریگر یا ہنر مند ہے لیکن وہ دن بھر میں اتنا کام نہیں کر پاتا کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی بنیادی ضروریات زندگی  روٹی ، کپڑا ، مکان وغیرہ پوری کر سکے  ۔ دن بھر میں وہ جتنا کام کرتا ہے اس کی کمائی سے ایک وقت پیٹ بھرتا ہے تو دوسرے وقت فاقہ ہوتا ہے یا دونوں وقت روٹی تو مل جاتی ہے ۔ لیکن تن ڈھانپنے کے لئے ، کپڑا خریدنے کے لئے پیسے نہیں بچتے ۔ یا کپڑا بھی میسر آجاتا ہے لیکن مکان کے کرایہ کے لئے یا بجلی ، پانی کے بِل کے لئے پیسے نہیں بچتے ۔ اس لئے سخت معاشی تنگی میں گرفتار ہے ۔ ایسے ضرورت مند کی مدد اس طرح کی جائے کہ وہ جو کام کرتا ہے اس میں اس کی مدد کی جائے تاکہ وہ ضروریات زندگی پوری کر سکے ۔
دوئم : وہ آدمی جو نکما ہے کوئی کام نہیں جانتا ، اپاہج ہے یا معذور ہے نابینا گونگا یا بہرا ہے اور بال بچے دار ہے تو ایسے شخص کی مدد ایسے کی جائے کہ خود کوئی کام کرے اور اس کی آمدنی سے اس نکمے یا معذور آدمی اور اس کے بال بچوں کی معاشی کفالت کرے تاکہ وہ در بدر بھیک مانگتے نہ پھریں ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم  ہے کہ 
مخلوق الله جل شانہ کی عیال ہے ( جن کی کفالت اس کے ذمہ ہے )  لہذا الله جل شانہ کو وہ شخص محبوب ہے جو اس کی عیال کے ساتھ احسان کرے ۔
ابو ذر غفاری رضی الله عنہ اس کے بعد سوال کرتے ہیں ۔۔۔ اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ! بتائیے ذرا اگر میں ( اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے ) ان دونوں میں سے کوئی کام نہ کر سکوں ۔ 
نبئ رحمت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  !  تم لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ ۔  اس لئے کہ یہ تمہارا احسان ہے اپنے حق میں  ۔
 اگر تم نے کسی شخص کو کسی قسم کی تکلیف یا نقصان پہنچایا تو تم یقیناً گنہگار ہو گے ۔ لہذا تم نے لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھ کر خود کو گناہ سے بچا لیا ۔ اس لئے یہ کام خود تمہارے حق میں خیر اور نفع کا باعث ہے ۔ جس میں نہ کوئی پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے ، نہ کوئی کام کرنا پڑتا ہے نہ ہی ہاتھ پاؤں ہلانے پڑتے ہیں ۔ 
کوئی مسلمان  کسی بھی حالت میں اس خیر کے کام سے محروم نہیں رہ سکتا ۔ 
مگر یہ کارہائے خیر اسی صورت میں فائدہ اور نفع پہنچاتے ہیں جب ان میں اخلاص اور اطاعت کی روح ہو کہ میرے رب کا حکم اور میرے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے ۔ اور یہی اسلام کی حقیقی روح اور بنیاد ہے جس سے ہم دن بدن دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ 
الله جل شانہ ہمیں اسلام کی حقیقی تصویر سے روشناس کرائے ۔ اور ہمیں اپنے اور اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...