نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

علم کی برتری ۔۔۔

وَعَلَّمَ۔               آدَمَ     الْأَسْمَاءَ۔     كُلَّهَا 
اور سکھا دئیے ۔ آدم ۔     نام ۔      سارے 
وَعَلَّمَ۔     آدَمَ      الْأَسْمَاءَ۔       كُلَّهَا 
اور اُس  ( الله تعالی  ) نے آدم علیہ السلام کو سب چیزوں کے نام سکھا دئیے ۔ 

اٰدَمَ ۔ ( اٰدم علیہ السلام )  یہ تمام انسانوں کے باپ کا نام ہے ۔ انہیں *ابو البشر*  بھی کہتے ہیں ۔ یہ لفظ عجمی ہے عربی نہیں 
اَلْاَسْمَآءُ ۔ ( نام )  یہ اسم کی جمع ہے جس کے معنی ہیں نام ۔ اسم وہ ہے جس کے ذریعے کوئی چیز جانی پہچانی جائے ۔ اس کو پہچاننے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس چیز کا مقصد خوبیاں اور نشانیاں معلوم ہوں ۔ 
یہاں اسم سے مراد ان تمام چیزوں کے نام ، خاصیتیں اور کیفیتیں مراد ہیں ۔ جن کی ضرورت حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو پیش آنی تھیں ۔ الله تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو ان تمام اشیاء کے حالات و کوائف سے واقف کیا ۔ 
الله جل شانہ کے عِلم کے مطابق جس مخلوق کو زمین پر خلیفہ بننا تھا ۔ اس کے ظہور کا وقت جب آیا تو اُس کے مُناسب سارے سامان مہیّا ہوگئے ۔ پھر وہ وُجود میں آیا اور اُس کا نام آدم رکھا گیا ۔ ( علیہ السلام ) 
آپ جانتے ہیں کہ الله تعالی کی ایک مخلوق فرشتے ہیں جو نور سے پیدا کئے گئے ہیں ۔ ان کا سارا وقت الله تعالی کی اطاعت اور فرمانبرداری میں کٹتا ہے ۔ اور یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے ۔ وہ ان تمام خواہشوں اورضرورتوں سے بالکل صاف اور پاک ہیں ۔ جو آدم علیہ السلام  کا خاصہ ہیں ۔ اس لئے انہیں بالکل علم نہیں کہ زمین و آسمان کی تمام چیزیں کس کام آئیں گی ۔ 
البتہ یہ حقیقت ہے کہ کہ الله جل شانہ نے ان چیزوں کو بغیر کسی مقصد کے نہیں بنایا ۔ اس میں ضرور کوئی مصلحت اور حکمت ہے ۔ 
پروردگار عالم نے انسان کو مٹی سے بنایا ۔ اس میں ہر قسم کی خواہش اور طرح طرح کی ضروریات پیدا کر دیں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اسے یہ علم بھی دیا کہ وہ اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے کون کون سے ذریعے کس کِس طرح سے عمل میں لائے ۔ اس کے اندر یہ قابلیت پیدا کر دی کہ وہ ان چیزوں سے واقف ہو جائے اور ان کی خصوصیات کو اچھی طرح جان لے ۔ 
مختلف اوقات میں آدم کو مختلف حادثوں اور تبدیلیوں سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ تمام پیدا شدہ حالات و واقعات کا اسے سامنا کرنا پڑے گا ۔ ان سے اچھی طرح نپٹنا اور کامیابی سے اپنی راہ نکال لینا ۔ یہ سب کچھ آدم کی فطرت میں رکھ دیا گیا ۔ ہر طرح کی مشکلوں سے مقابلہ کرنے کے لئے ہر ضروری چیز کا نام اور اس کی خوبی و تاثیر سے آدم کو آگاہ کر دیا گیا ۔  
 





تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...