نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*حق کو چھپانے کی ممانعت*

وَلَا      ۔ تَلْبِسُوا       ۔ الْحَقَّ        ۔ بِالْبَاطِلِ 
اور نہ ۔      تم ملاؤ      ۔ سچ ۔     جھوٹ سے 
وَتَكْتُمُوا      ۔ الْحَقَّ      ۔ وَأَنتُمْ       ۔ تَعْلَمُونَ۔  4️⃣2️⃣
اور نہ تم چھپاؤ ۔     سچ  ۔     اور تم ۔              تم جانتے ہو 
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ.  4️⃣2️⃣
اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور سچ کو نہ چھپاؤ اور تم جانتے 

لَا تَلْبِسُوا ۔ ( مت ملاؤ ) ۔ یہ لفظ لَبس  سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں ایک چیز کو دوسری چیز میں ملا دینا تاکہ اس کا پہچاننا مشکل ہو جائے ۔ اور جھوٹ کو سچ کی شکل میں ظاہر کرنا جس سے سچ کی پہچان مشکل ہو جائے ۔ یا جھوٹ کے اوپر ایسا ملمّع کرنا کہ دیکھنے میں بالکل سچ معلوم ہو ۔ 
تَکْتُمُوا ۔ ( چھپاؤ) یہ کَتَمَ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چھپانا ۔ الله جل شانہ کے حکموں کو بدلنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ ان کے معنی یا الفاظ بدل دینا ۔ دوسری یہ کہ سرے سے چھپا دینا ۔
 یہودی دونوں طریقوں سے آسمانی کتابوں کی تعلیم اور رسولِ عربی صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں پیش گوئیوں کو بدلتے تھے ۔ تورات کے ضائع ہو جانے سے بعض احکام تو ویسے ہی سرے سے غائب اور گم ہوگئے تھے ۔ پھر جو باقی رہ گئے انہیں بھی ان لوگوں نے اپنی مصلحتوں اور ذاتی فائدوں کے لئے بدل ڈالا ۔ 
ظہور اسلام کے وقت یہودی عالموں نے اپنے دین کی رہی سہی شکل کا حلیہ بگاڑ رکھا تھا ۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق آسمانی کتابوں کے احکام بدل دیتے تھے ۔ جو کتابیں گم ہو چکی تھیں اُن کی جگہ اپنی طرف سے اور کتابیں لکھ کر اُن کے نام پر پیش کر دی تھیں ۔ کبھی تفسیر اور تشریح لکھ کر اصلی عبارت کے ساتھ ملا دیتے اور دونوں میں فرق کی کوئی نشانی نہ رکھتے ۔ آسمانی احکام جس عالم یا راہب کے پاس ہوتے وہ کسی مالی لالچ یا کسی دنیاوی طمع کی خاطر انہیں گھٹا بڑھا دیتا تھا ۔ 
حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش اور نبوت کی تمام نشانیاں ان کی کتابوں میں موجود تھیں ۔ لیکن جب آپ تشریف لائے ۔ تو حسد کی آگ میں جل کر ان نشانیوں کو چھپانے لگے ۔ اور بعض کو اُلٹ پلٹ کر بیان کرنے لگے ۔ اس لئے الله جل جلالہ نے فرمایا کہ حق کو نہ چھپایا کرو ۔ تمہاری گمراہی سے دوسرے لوگ بھی گمراہ ہوتے ہیں ۔ 
بنی اسرائیل کی تاریخ کے اہم واقعات جو قرآن مجید بیان کرتا ہے ۔ ان کی سب سے بڑی غرض ایک طرف تو خود یہود اپنی برائیوں سے آگاہ ہو جائیں ۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کو اچھی طرح سمجھا دیا جائے کہ اس قسم کی باتوں کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں ہے ۔ 
ہمیں چاہئیے کہ الله جل شانہ کے ان بیان کردہ واقعات اور بنی اسرائیل کے عروج و زوال پر غور کریں اور اپنے اندر ان جیسی بُری باتیں پیدا نہ ہونے دیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...