نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*وحی کی ضرورت*

قُلْنَا۔     اهْبِطُوا۔                       مِنْهَا   ۔      جَمِيعًا                 فَإِمَّا     
ہم نے کہا ۔ اتر جاؤ تم سب        ۔ اس سے ۔      سارے  ۔ پھر جب کبھی
    ۔ يَأْتِيَنَّكُم   ۔          مِّنِّي                      ۔ هُدًى 
 ۔ آئے تمہارے پاس ۔ میری طرف سے              ۔ ھدایت 
فَمَن      ۔ تَبِعَ۔                   ۔ هُدَايَ               ۔ فَلَا     ۔ خَوْفٌ  
پس جو ۔ پیروی کی اس نے ۔     میری ھدایت کی   ۔ پس نہیں   ۔ خوف
   ۔ عَلَيْهِمْ     ۔ وَلَا      ۔ هُمْ         ۔ يَحْزَنُونَ۔  3️⃣8️⃣
      ان پر ۔     اور نہ ۔       وہ        ۔ غمزدہ ہوں گے 
قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.   3️⃣8️⃣
ہم نے کہا تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ  جب کبھی تمہیں میری طرف سے کوئی ھدایت پہنچے ۔ جو میری ھدایت پر چلا ان پر نہ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ 

اِھبِطُوا ۔ ( نیچے جاؤ ) ۔ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کو یہ حکم سزا کے طور پر نہیں دیا جا رہا ہے ۔ حضرت آدم علیہ السلام کی لغزش معاف کر دی گئی ۔ لیکن زمین میں رہنے کا حکم بدستور باقی رہا ۔ چونکہ آدم علیہ السلام زمین کے خلیفہ بنائے گئے تھے ۔ زمین میں رکھنے  کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں رہ کر دنیا اور شیطان کی ترغیبات ہوتے ہوئے  میری فرمانبرداری اور اطاعت کریں ۔ اور فرشتوں سے بلند مرتبہ حاصل کریں ۔ 
خَوْفٌ ۔ ( خوف ) ۔ کسی آنے والے نقصان اور تکلیف کے احساس کو کہتے ہیں ۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ میدان حشر میں الله جل شانہ کے اطاعت گزار اور فرمانبردار بندوں کو کوئی ڈر نہیں ہوگا 
لَا یَحزَنُونَ ۔ ( نہ وہ غمگین ہوں گے ) ۔ اس لفظ کا مادہ حزن سے ہے ۔ جس کے معنی ہیں کسی دل پسند چیز کے جاتے رہنے کا دکھ ۔ یہاں اس سے مراد ہے کہ الله تعالی کے نیک اور مؤمن بندے اپنی دُنیا کی زندگی پر حسرت اور افسوس نہیں کریں گے ۔ 
حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کی اولاد کے لئے الله جل شانہ نے فرمایا تم سب کے سب زمین پر اُتر جاؤ ۔ اور کچھ فکر نہ کرو وہاں بھی میری نظرِ عنایت تم پر رہے گی ۔ اور میری رحمت تمھارے شاملِ حال رہے گی ۔ اور ساتھ ہی انہیں بتا دیا کہ ضرورت کے وقت میری ہدایات نبیوں کے ذریعے تم تک پہنچتی رہیں گی ۔ تُم اُن کی پیروی کرتے رہنا ۔ جو شخص میری ہدایات کے مطابق چلے گا ۔ اس کو نہ جہنم کا خوف ہوگا اور نہ جنت سے نکالے جانے کا ڈر ہوگا ۔ 
اس قصے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انسان کو روحانی چین اور سکون الله جل جلالہ کی ہدایات پر عمل کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہے  اس کے بغیر بالکل ممکن نہیں ۔ 
الله جل شانہ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی اور پھر انہیں دُنیا میں رہنے سہنے اور اُس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا طریقہ بتا دیا ۔ 
ہمیں بھی چاہئیے کہ ہم اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کریں ۔ الله کریم سے معافی کی درخواست کریں ۔ اور آئندہ اُس کی دی ہوئی ہدایات پر عمل کریں ۔ جو اس نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک بھیجیں ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...