نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*حضرت آدم علیہ السلام جنت میں

وَقُلْنَا    ۔ يَا۔    آدَمُ    ۔ اسْكُنْ          ۔ أَنتَ     ۔ وَزَوْجُكَ               الْجَنَّةَ         
اور ہم نے کہا ۔ اے ۔    آدم      ۔ تو رہ        ۔ تو ۔     اور تیری بیوی ۔ جنت میں 
وَكُلَا    ۔ مِنْهَا          ۔ رَغَدًا     ۔ حَيْثُ              ۔ شِئْتُمَا 
اور دونوں کھاؤ   ۔ اس میں  ۔  با فراغت ۔ جہاں ۔ تم دونوں چاہو  ۔

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا 
اور ہم نے کہا ! اے آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو  اور اس میں جہاں سے چاہو با فراغت کھاؤ ۔ 

جَنَّۃَ ۔۔ ( جنت ) اس کے لغوی معنی ہیں وہ باغ جس کے گھنے درخت زمین کو چھپا لیں ۔ شرع کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ عظیم الشان باغ ہے جس میں بے شمار نعمتیں ہیں اور جو آخرت میں نیکو کاروں کو رہنے کے لئے ملے گا ۔ اسے جنت اس لئے بھی کہتے ہیں کہ اس کی نعمتیں ہماری نظروں سے بھی پوشیدہ ہیں ۔ 
زَوْجُکَ ۔۔( تیری بیوی ) ۔ اس سے مراد حضرت حوّا علیھا السلام ہیں جو اُس وقت تک پیدا ہو چکی تھیں ۔ وہ ہم سب کی ماں ہیں 
حَیْثُ شِئتُمَا ۔۔ ( جہاں سے چاہو ) ۔ اس لفظ سے جنت کی وسعت اور بڑائی ظاہر ہوتی ہے ۔ 
 الله تعالی نے اپنی مشیّت اور مرضی کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ اور انہیں زمین میں اپنا خلیفہ قرار دیا ۔ ان کے اس درجے کو واضح کرنے کے لئے الله تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ اُن کے سامنے جھک جائیں ۔ تاکہ بعد میں کسی کو بغاوت اور نافرمانی کی جرأت نہ رہے ۔ ۔ فرشتوں نے حضرت آدم کی بڑائی کا اقرار کیا ۔ اور اُن کے آگے تعظیم کے طور پر جھک گئے ۔ 
 حضرت آدم علیہ وسلم کی خلافت کے بعد الله تعالی نے انہیں موقع دیا کہ وہ اور اُن کی بیوی جنت میں رہائش اختیار کریں ۔ اسی میں رہیں سہیں اور جہاں سے جو چاہیں کھائیں پیئیں ۔ 
 حضرت حوّا علیہا السلام کے بارے میں مفسرین کرام نے بیان کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جنت میں اکیلے تھے ۔ تُو ان کی طبیعت گھبرائی ۔ اس لئے الله جل شانہ نے حضرت حوّا علیہا السلام کو پیدا کیا ۔ اور فرمایا کہ تم دونوں جنت میں رہو ۔ اور جہاں سے چاہو با فراغت کھاؤ ۔ 
 اس سبق سے واضح ہوتا ہے کہ الله تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو کس قدر درجے بخشے ہیں ۔ پہلے علم کی نعمت دی ۔ پھر اپنا نائب بنایا ۔ اس کے بعد اس کی راحت اور آرام کے لئے بیوی کی صورت میں اُنہیں ساتھی دیا ۔ جنت میں جگہ دی ۔ اور کھانے کو بے شمار نعمتیں دیں ۔ الله جل جلالہ اپنے بندوں کو ہمیشہ انعامات سے نوازتا ہے ۔ اور ان پر طرح طرح کی نوازشیں فرماتا ہے ۔ اب یہ بندوں کا فرض ہے کہ اس کے شکر گزار رہیں ۔ اور اس کی نعمتوں کی قدر پہچانیں ۔ 
درس قرآن  ۔۔۔۔ مرتبہ  درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...