*دعوتِ قرآن*

وَآمِنُوا    ۔    بِمَا    ۔    أَنزَلْتُ              ۔     مُصَدِّقًا۔          
اور تم مان لو ۔     وہ جو ۔ میں نے اُتاری ۔ سچ بتانے والی 
 لِّمَا                    ۔ مَعَكُمْ       ۔ وَلَا       ۔   تَكُونُوا      ۔    أَوَّلَ      ۔ كَافِرٍ     ۔     بِهِ 
اس کے لئے جو ۔ تمہارے پاس ہے ۔ اور نہ       ۔ تم ہو جاؤ  ۔ پہلے      ۔ کافر    ۔ اس کے  

وَآمِنُوا بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ 
اور ایمان لے آؤ اس کتاب پر جو میں نے اتاری  اس کی تصدیق کرنے والی ہے  جو تمہارے پاس ہے ۔ اور تم سب سے پہلے اس کا انکار کرنے والے نہ ہو جاؤ ۔ 

مَا اَنْزَلْتُ ۔ ( جو میں نے نازل کیا ) ۔ اس سے مراد قرآن مجید ہے جو آخری نبی صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوا ۔ اور الله جل جلالہ کی آخری کتاب ہے ۔ 
قرآن مجید پر ایمان لانے کی دعوت سب سے پہلے بنی اسرائیل کو دی گئی ۔ اہلِ کتاب میں یہی سب سے زیادہ مشہور تھے ۔ مدینہ طیبہ اور اس کے اردگرد بستے تھے ۔ یہ اصول اس قاعدے کے بھی مطابق تھا کہ نیکی اور اس کی دعوت سب سے پہلے اپنے قرابت داروں اور ہمسائیوں سے شروع کرنی چاہئیے ۔ 
سورة بقرہ قرآن مجید کے ذکر سے شروع ہوئی  ۔ اور بتایا گیا کہ قرآن مجید کی ہدایت اگرچہ ساری مخلوق کے لئے عام ہے لیکن اس سے فائدہ اور نفع صرف مؤمنین اٹھائیں گے ۔ اس کے بعد اُن لوگوں پر شدید عذاب کا ذکر کیا جو اس پر ایمان نہیں لائے ۔ کھلا انکار کرنے والے کافر اور دنیاوی  غرض کے لئے اسلام میں شامل ہونے والے منافق اور مشرک تینوں طبقے اس میں شامل ہیں ۔ منافقین اور کافر ان دونوں ہی میں دو طرح کے لوگ تھے ۔ بت پرست مشرکین جن کے پاس کوئی علم جدید یا قدیم نہیں تھا ۔ عام طور پر اَن پڑھ اُمّی تھے دوسرے وہ لوگ جو اہلِ کتاب کہلاتے ہیں ۔ 
سورۃ بقرہ چونکہ "مدنی "سورۃ ہے اس لئے اس میں مشرکین اور منافقین کے بیان کے بعد اہل کتاب کو خاص طور پر مخاطب کیا گیا ہے ۔ اہلِ کتاب کے بھی دو طبقے ہیں ایک یہود جو موسٰی علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے ۔اور دوسرے نصارٰی جو عیسٰی علیہ السلام کے پیرو کار تھے ۔ ان دونوں کو قرآن مجید میں اس وجہ سے اہلِ کتاب کہا گیا ہے کہ یہ دونوں الله جل جلالہ کی آسمانی کتاب " تورات " اور " انجیل"  پر ایمان رکھتے تھے ۔ 
چالیسویں آیت سے لیکر ایک سو تیس آیات آخر پارہ *الٓم* تک انہی لوگوں سے خطاب ہے ۔ اس سے پہلی آیت میں الله جل شانہ نے انہیں اپنے انعام و احسانات یاد کروا کر یہ فرمایا کہ وہ اپنے وعدے کو جو وہ الله تعالی سے کر چکے ہیں پورا کریں ۔ 
اس میں سب سے اہم  معاھدہ تمام رسولوں پر ایمان لانے کا شامل ہے ۔ جن میں ہمارے رسول کریم صلی الله علیہ وسلم خصوصیت سے شامل ہیں ۔ اسی لئے حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہ نے فرمایا کہ اس عہد سے مراد *محمد صلی الله علیہ وسلم* کا اتباع ہے ( ابنِ جریر بسند صحیح ) ۔    اس کے علاوہ نماز ۔ زکوٰۃ اور صدقات بھی اس عہد میں شامل ہیں 
*امت ِ محمدیہ صلی الله علیہ وسلم کی ایک خاص فضیلت* 
تفسیرِ قرطبی میں ہے کہ الله جل شانہ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں اور احسانات یاد کروا کر اپنی یاد اور اطاعت کی طرف دعوت دی ہے ۔ اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی امت کو اسی کام کی طرف بغیر انعامات و آحسانات جتائے فرمایا ! 
فَاذْکُرُوْنِی ٓ اَذْکُرْکُمْ ۔۔۔۔   تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا ۔ 
امت محمدیہ  کا تعلق الله کریم سے بغیر کسی واسطہ کے ہے ۔۔۔۔ محسن کو پہچان کر احسان مانتے ہیں اور دوسر ی قومیں احسانات کے ذریعے اپنے محسن کو پہچانتی ہیں ۔۔۔۔۔ 
 اس کے بعد انہیں سمجھایا جا رھا ہے کہ الله جل جلالہ اور اسکی ھدایت کو پہچاننے کے باوجود ایسا نہ ہو کہ تم ہی سب سے پہلے کفر کرنے والے ہو جاؤ ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پہچان کا علم اور قرآن مجید کی سچائی کا پتہ جتنا تمہیں ہے اور کسی قوم کو نہیں ۔قرآن مجید میں خود تمہاری کتابوں کے اصولوں کی تصدیق کی گئی ہے  اس لئے دوسری قوموں کے لئے کفر و انکار کا نمونہ نہ بنو ۔ 
تمہیں یہ خوف ہرگز نہ کرنا چاہئیے کہ اس آخری کتاب اور آخری نبی پر ایمان لانے سے تمہارا دنیوی جاہ و جلال اور اثر رسوخ ختم ہو جائے گا بلکہ تم دیکھ لو گے کہ اسلام کی برکت سے ساری خرابیاں زائل ہو جائیں گی ۔ دُنیا بھی تمہارے لئے باعثِ آرام ہو گی اور آخرت کی سزا سے بھی بچ جاؤ گے ۔ 
مأخذ ۔۔۔۔۔ 
معارف القرآن ۔۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی 
درسِ قرآن مرتبہ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درسِ قرآن بورڈ

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں