*احادیث پڑھنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت*

اسلام اور مسلمانوں کے لئے آج کے دور میں سب سے مہلک مرض دین اور دین کی بنیادی معلومات کی حقیقت سے نا واقفیت اور جہالت ہے جس کے نتیجہ میں دین سے خصوصاً عملی زندگی میں بے تعلقی اور بیزاری پیدا ہوتی ہے ۔  اسلام اور مسلمانوں کی تایخ گواہ  ہے کہ مسلمانوں میں اسلامی انحطاط کا لازمی نتیجہ دنیا میں زوال کی صورت ظاہر ہوا ۔ مسلمانوں نے الله جل شانہ کو بھلا دیا ۔ الله کریم نے مسلمانوں سے توجہ ہٹا لی ۔ ارشادِ باری تعالی ہے :۔ 
نَسُوا اللهَ فَنَسِيَهُمْ ----التوبة: 67
انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انکو بھلا دیا۔ 
اسی پر بس نہیں بلکہ الله جل جلالہ کو بھلانے کی سزا دنیا ہی میں اپنے آپ کو فراموش کر دینے کی صوت میں دے دی گئ ۔ 
ارشاد باری تعالی ہے ۔۔۔۔ و
وَلَا تَکُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ۔۔۔۔ سورۃ الحشر آیہ 19
اور ان لوگوں جیسے نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں ایسا کر دیا کہ وہ خود اپنے آپکو بھول گئے۔ یہی لوگ ہیں نافرمان۔
اسلامی ملکوں اور حکومتوں کو تاراج کرنے والے اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے اور ہیں ۔ کہ مسلمانوں کی روحانی طاقت و قوت  دینداری کی طاقت اور ایمان بالله کی قوت ہے جب تک مسلمانوں کے دل سے اسے ختم نہ کر دیا جائے اور مسلمانوں کے معاشروں کو مکمل طور پر غیر اسلامی اور بے دین نہ بنا دیا جائے ۔ اور ان کے ذہن و فکر کو اسلام اور اسلامی تعلیمات سے کلی طور پر دور نہ کر دیا جائے اس وقت تک ہمیں چین نصیب نہیں ہوسکتا اور ہماری ان کو ذلیل کرنے اور ان پر حکومت کرنے کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی ۔ 
چنانچہ عہدِ رسالت صلی الله علیہ وسلم سے دُوری ، بڑھتا ہوا دینی انحطاط ، غیر اسلامی بلکہ مغربی تہذیب و معاشرت کا تسلط ۔ غیر مسلم اقوام اور  دشمنان اسلام کےتجویز کردہ جدید علوم و فنون اور دیگر بے شمار وجوھات کی وجہ سے نہ صرف ہمارا نظام ، ہمارا ماحول اور معاشرہ مکمل طور پر غیر اسلامی اور بے دین ہو چکا ہے بلکہ ذہن وفکر بھی اسی رنگ میں رنگے جاچکے ہیں ۔ 
تقریبا پوری قوم بنیادی دینی معلومات تک سے ناواقف ہے ۔ عبادت کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ عبادت کی روح اور اس کی قبولیت کی شرط کیا ہے ؟ اول تو اکثریت نماز ادا کرنے سے ہی لاپرواہ ہے اور جو پڑھتے ہیں انہیں خبر ہی نہیں کہ نماز کی حقیقت کیا ہے  ؟ اس کی شرائط کیا ہیں ؟ دیگر عبادات روزہ ،  زکوۃ ، حج وعمرہ کر لیتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ ان تمام عبادات کو بے اثر ، بے نتیجہ اور بےکار بنا دینے والی چیزیں کیا ہیں ؟ 
رو رو کر اور گڑ گڑا کر الله کریم سے دعائیں کرتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ توبہ ، استغفار اور دعاؤں کو بے اثر کر دینے والی چیزیں کون کونسی ہیں ؟
  ہم نہیں جانتے صبر و شکر ، صدق و اخلاص ، تقوٰی اور پرھیز گاری کی حقیقت کیا ہے ؟ اور انسان کی دنیاوی زندگی میں ان تمام چیزوں کے فائدے کیا ہیں ؟ کیا اجر ہیں اور کیا برکتیں ہیں ؟ ہم دین کی باتیں شوق سے  سنتے ہیں ، اسلامی اور مذہبی کتابیں و تحریریں پڑھتے ہیں لیکن صرف اس نیت سے کہ یہ ایک نیک کام ہے ، اتنا وقت اچھے کام میں گزر جائے گا یا ثواب ملے گا ۔ ہم الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے احکامات اس نیت اور عزم کے ساتھ نہیں پڑھتے یا سنتے ہیں کہ اس پر ہمیں اپنی روز مرہ زندگی میں عمل بھی کرنا ہے ۔  حالانکہ قرآن و حدیث کی تمام تر تعلیمات واضح لفظوں میں اعلان کر رہی ہیں کہ عمل کے بغیر ہر چیز بے کار محض ہے ۔  
احادیث کو ماننے والے مسلمان خاص کر تعلیم یافتہ طبقہ اپنی نا واقفیت کی وجہ سے کہتے یا کم ازکم دل میں ضرور سوچتے ہیں کہ : ہم مانتے ہیں بے شک یہ احادیث سب صحیح ہیں لیکن ہماری آج کی مصروف انفرادی یا اجتماعی زندگی میں ان احادیث کو پڑھنے یا عمل کرنے کا کیا فائدہ ؟ ہماری موجودہ مشکلات کو حل کرنے میں ان سے ہمیں کیا مدد مل سکتی ہے ؟  یہ تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے لوگوں اور مسلمانوں کو تعلیمات دیں تھیں یا اُس دور کے معاشرے کو سُدھارنے کے لئے بیان کی تھیں آج نہ وہ زمانہ ہے نہ ویسا معاشرہ ، نہ ہی حالات  ہمیں اس جدید زمانے کے طور طریقے جاننے کی ضرورت ہے نا کہ اتنے پرانے قاعدے قوانین جاننے کی ۔ 
یہ شیطانی وسوسہ اور یقین صرف دینِ اسلام کی وسیع اور ٹھوس تعلیمات سے نا واقفی کا نتیجہ ہے ۔ قرآن مجید فرقانِ حمید اور احادیث مبارکہ کی تعلیمات ہر دور ہر زمانے کے لئے تا قیامت موثر و کار آمد ہیں ۔ مسلمانوں کے تمام موجودہ مسائل و مشکلات کا حل صرف اور صرف ان تعلیمات کو جاننے ان پر عمل کرنے میں پوشیدہ ہے ۔ اور مسلمانوں کے  تمام مسائل اور مصائب کی وجہ ان تعلیمات سے دوری ، بے زاری ، بے پرواہی اور لاعلمی ہے ۔ 
پس اگر آج مسلمان سچے دل کے ساتھ پورے یقین اور ارادے سے قرآن و احادیث کی تعلیمات پر عمل کرنے لگیں تو ساری پریشانیاں ،  دُکھ تکلیف اور ناکامیاں مٹ جائیں ۔ اور دُنیا اور آخرت دونوں کی فلاح و کامیابی مقدر بن جائے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں