نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فرشتوں کو جواب ۔۔۔


قَالَ          ۔  إِنِّي     ۔   أَعْلَمُ             ۔ مَا    ۔ لَا   ۔ تَعْلَمُوْنَ۔  3️⃣0️⃣
فرمایا۔  بےشک میں   ۔ میں جانتا ہوں ۔ جو     ۔ نہیں         ۔ تم جانتے 

قَالَ إِنِّی أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔   3️⃣0️⃣
الله تعالی نے فرمایا بےشک میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے 

جب الله جل شانہ نے اپنی نورانی مخلوق ( فرشتوں ) کے سامنے اس خیال کا اظہار فرمایا کہ میں زمین میں ایک نائب مقرر کرنا چاہتا ہوں ۔ تو فرشتوں نے اپنے خیال میں خلیفہ کا ایک تصور قائم کیا اور یہ سمجھے ۔ جو ان مختلف قسم کی چیزوں سے بنایا گیا ہے ۔ وہ جب دنیا میں آئے گا تو لازمی طور پر ہر طرف فساد پھیلائے گا ۔ بدامنی کرے گا ۔ آپس میں لڑے جھگڑے گا ۔ اپنے بھائیوں کا خون بہائے گا اور لُوٹ مار مچائے گا ۔ اولادِ آدم کی زندگی کا ایک پہلو یہ تھا ۔ جسے فرشتوں نے پیش کیا ۔ یعنی وہ رُخ جو تاریک تھا ۔ اور جس میں بُرائی ہی بُرائی نظر آتی تھی ۔ 
اور وہ پہلو جس میں خوبیاں پوشیدہ تھیں اور کمالات چھپے ہوئے تھے وہ نئی نئی باتیں ، طرح طرح کی ایجادیں اور ترقی کے مختلف پہلو جو خلیفہ دنیا میں ظاہر کرنے والا تھا ۔ وہ فرشتوں کی نظر سے اوجھل تھے ۔ اس لئے انہوں نے اپنے اندازے سے یک رُخی تصویر پیش کی ۔ اور اس کے ساتھ وہ رُخ بھی پیش کیا جس پر وہ چل رہے تھے ۔ اس میں الله جل شانہ کی ہر بات کی تصدیق اور اس کے حکم کی اطاعت شامل تھی ۔ فرشتوں نے یہ گزارش اعتراض کے طور پر نہیں بلکہ ادب کے ساتھ پیش کی ۔ 
الله تعالی خلیفہ کے ظاہر وباطن کو خوب جانتا تھا ۔ وہ اس کی موجودہ حالت سے بھی باخبر تھا اور آگے چل کر زمانے کے ساتھ ساتھ اس میں جو تبدیلیاں پیدا ہونے والی تھیں ۔ اور اپنے علم اور عقل سے کام لے کر اس ساری دنیا کا جو رنگ وہ بدل دینے والا تھا ۔ الله جل شانہ اُن سب سے خوب آگاہ تھا ۔ 
اس لئے الله تبارک و تعالی نے فرشتوں کی گزارش کے جواب میں صرف یہ فرمایا :-  
" میں خوب  جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے " 
یعنی تمہیں نہیں معلوم کہ اس خلیفہ بنانے میں کیا کیا مصلحتیں اور حکمتیں پوشیدہ ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 






تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...