نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*شجرِ ممنوعہ*

وَلَا    ۔ تَقْرَبَا      ۔ هَذِهِ      ۔ الشَّجَرَةَ          ۔ فَتَكُونَا  ۔                مِنَ         ۔ الظَّالِمِينَ.   3️⃣5️⃣
اور نہ ۔ تم دونوں قریب ہو ۔ یہ  ۔      درخت    ۔ پس تم دونوں ہو جاؤ گے ۔     سے                        ۔ ظالم 
 وَلَا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ۔  3️⃣5️⃣
اور تم اس درخت کے قریب نہ جانا  ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے ۔ 

لَا تَقْرَبَا ۔۔۔ ( قریب نہ جاؤ )  اس حکم سے اصل مراد یہ تھی کہ حضرت آدم علیہ السلام اس درخت کا پھل نہ کھائیں ۔ انہیں قریب جانے سے اس لئے روک  لیا کہ اس کے پھل کی خواہش ہی پیدا نہ ہو ۔ 
ھٰذِہِ الشَّجَرَۃ ۔۔ ( یہ درخت ) ۔ جنت کے درختوں میں سے کوئی درخت تھا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام کو اس کی پہچان کرا دی گئی تھی ۔ قرآن مجید میں حق تعالی جل شانہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس کی کوئی وضاحت نہیں ہے ۔ 
مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔۔۔ ( گنہگاروں میں سے ) ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ پر ظلم کرتے رہتے ہیں ۔ اپنے آپ پر سب سے زیادہ ظلم الله جل جلالہ کی نافرمانی سے ہوتا ہے ۔ 
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے ۔ کہ اس وقت جبکہ جنت کی حیثیت نیک اعمال کے بدلے کی سی نہ تھی  جیسی کہ اب ہے ۔ تب بھی وہاں پر شرعی حکم تھے ۔ بعض ایسی باتیں تھیں جن کے کرنے کا حکم تھا اور بعض ایسے کام تھے جن سے باز رہنے کا حکم تھا ۔ 
الله جل شانہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنا خلیفہ مقرر کرنے کے بعد انہیں جنت میں رکھا اور جب انہوں نے تنہائی محسوس کی ۔ تو الله تعالی نے اُن کے لئے حضرت حوّا رضی الله تعالی عنھا کو پیدا کیا ۔ اور پھر یہ اور احسان کیا کہ انہیں اجازت دے دی کہ جنت میں وہ میں جہاں سے چاہیں بافراغت کھائیں ۔ البتہ وہاں ایک درخت تھا جس کے بارے میں الله کریم نے یہ فرمایا کہ تم اس کے قریب بھی نہ جانا ۔ ورنہ نافرمان قرار دئیے جاؤ گے ۔ 
اس سبق سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جو شخص شک و شبہ والے کام کرتا ہے ۔ اس کے لئے غلطی کرنے کا شدید خطرہ ہوتا  ہے ۔ ہمیں بھی چاہئیے کہ ہم شک وشبہ والی باتوں سے دور رہیں ۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ الله جل جلالہ کے احکام کی نا فرمانی اور خلاف ورزی سے انسان درحقیقت اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ اس کی دُنیا بھی خراب ہوتی ہے اور آخرت بھی ۔ 
درسِ قرآن ۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...