نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم*

قسط ~~~~~~ ~94
*قبا میں تشریف آوری*
دو شنبہ آٹھ ربیع الاول 14 نبوت یعنی یکم ہجری بمطابق  23 ستمبر  622 ء کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم قبا میں وارد ہوئے ۔  اس دن نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی عمر مبارک بغیر کمی بیشی کے ٹھیک ترپن سال ہوئی تھی ۔ 
حضرت عروہ بن زبیر رضی الله تعالی عنہ کا بیان ہے کہ مسلمانانِ مدینہ نے مکہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی روانگی کی خبر سُن لی تھی ۔ اس لئے لوگ روزانہ صبح ہی صبح حرّہ کی طرف نکل جاتے ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی راہ تکتے رہتے ۔ جب دوپہر کو دھوپ سخت ہوتی تو واپس آتے ۔ ایک روز طویل انتظار کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو پہنچ چکے تھے ۔ کہ ایک یہودی اپنے کسی ٹیلے پر کچھ دیکھنے کے لئے چڑھا ۔ کیا دیکھتا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء سفید کپڑوں میں ملبوس - جن سے چاندنی چھٹک رہی تھی - تشریف لا رہے ہیں ۔ اس نے بے خود ہو کر نہایت بلند آواز میں کہا : " عرب کے لوگو ! یہ رہا تمہارا نصیب جس کا تم انتظار کر رہے تھے " یہ سنتے ہی مسلمان ہتھیاروں کی طرف دوڑ پڑے ( اور ہتھیار سج دھج کر استقبال کے لئے امنڈ پڑے ) ۔ 
ابن قیم کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی بنی عَمرو بن عوف ( ساکنانِ قبا ) میں شور بلند ہوا  اور تکبیر سُنی گئی ۔ مسلمان آپ صلی الله علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے استقبال کے لئے نکل پڑے ۔ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم سے مل کر تحیّہ نبوت پیش کیا  اور گردو پیش پروانوں کی طرح جمع ہو گئے ۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم پر سکینت چھائی ہوئی تھی ۔ اور یہ وحی نازل ہو رہی تھی ۔ 

 فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ 
سورۃ التحریم آیہ -4
الله آپ کا مولٰی ہے اور جبرائیل علیہ السلام اور صالح مؤمنین بھی  اور اس کے بعد فرشتے آپ کے مدد گار ہیں ۔ 
حضرت عروہ بن زبیر رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ لوگوں سے ملنے کے بعد آپ ان کے ساتھ داہنی طرف مڑے ۔ اور بنی عمرو بن عوف میں تشریف لائے ۔ یہ دو شنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تھا ۔ ابو بکر رضی الله تعالی عنہ آنے والوں کے استقبال کے لئے کھڑے تھے ۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم چپ چاپ بیٹھے تھے ۔ جنہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا نہ تھا وہ سیدھے ابوبکر رضی الله عنہ کو سلام کرتے ۔ یہاں تک کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر دھوپ آگئی ۔ اور ابوبکر رضی الله عنہ نے چادر تان کر آپ صلی الله علیہ وسلم پر سایہ کر دیا تب لوگوں نے پہچانا کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں ۔ 
آپ صلی الله علیہ وسلم کے استقبال اور دیدار کے لئے سارا مدینہ اُمنڈ پڑا ۔ یہ ایک تاریخی دن تھا جس کی نظیر سر زمینِ مدینہ نے کبھی نہ دیکھی تھی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ میں کلثوم بن ہدم کے مکان میں قیام فرمایا  
ادھر حضرت علی بن ابی طالب رضی الله تعالی عنہ نے مکہ میں تین دن ٹہر کر اور لوگوں کی جو امانتیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس تھیں۔ ادا کر کے پیدل ہی مدینہ کا رُخ کیا ۔ اور قبا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے آ ملے ۔ اور کلثوم بن ہدم کے یہاں قیام فرمایا ۔ 
===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ.. مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم .. مولانا صفی الرحمن مبارکپوری..


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...