نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*جہاد اور نیت*

*حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله تعالی عنھا*سےروایت ہے کہ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد ارشاد فرمایا : فتح کے بعد ہجرت تو باقی نہیں رہی ۔ لیکن جہاد اور نیت باقی ہیں ۔ جب بھی تمہیں جہاد کے لئے روانہ ہونے کی دعوت دی جائے تو فوراً روانہ ہو جاؤ ۔ 
*ھجرت* 
مکہ معظمہ کے فتح ہونے سے پہلے مکہ سے مدینہ ھجرت کرنا فرض تھا ۔ اگر مکہ کا رہنے والا قدرت کے باوجود مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ ھجرت  نہیں کرتا تھا تو اس کا اسلام اور ایمان بھی معتبر نہ ہوتا تھا تھا ۔ لیکن مکہ کے فتح ہو جانے اور دار الاسلام بن جانے کے بعد یہ خاص ہجرت باقی نہیں رہی ۔ چنانچہ اب دار الکفر میں مسلمانوں کو اگر کفّار اسلامی عبادات اور احکامات پر عمل کرنے سے نہ روکیں تو ان کے لئے ھجرت کر کے اسلامی ملک میں جا کر آباد ہونا ضروری نہیں ۔ اس لئے ترکِ وطن (ھجرت ) فرض نہیں رہی ۔ یہی مطلب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان کا ہے ۔ 
*جہاد* 
لیکن اسلام اور کُفر کا مقابلہ اور مسلمانوں کی کافروں سے لڑائی اور اس کی تیاریاں رہتی دنیا تک باقی رہیں گی ۔
 حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔ جہاد قیامت تک جاری رہے گا ۔ جہاد ،  اس میں نیک نیتی کا اعتبار اور اس پر اجر وثواب ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا ۔ اسی لئے جب کسی اسلامی ملک کا فرماں روا الله کی راہ میں کافروں سے جنگ کرنے کے لئے میدانِ جنگ جانے اور لڑنے کی دعوت دے تو حسب استطاعت ہر مسلمان کا ۔۔۔۔۔ خواہ وہ اس ملک کا باشندہ ہو یا کسی دوسرے اسلامی ملک کا ۔۔۔۔ فرض ہے کہ وہ محض الله جل جلالہ کے دین کی حفاظت کے لئے کفّار سے جنگ کرے ۔ سوائے ان معذور لوگوں کے جن کو الله جل شانہ نے خود اپنی رحمت سے معذور و مجبور قرار دیا ہے 
*جہاد اسلام کی سب سے بڑی عبادت ہے* 
فتح مکہ سے پہلے ھجرت اور جہاد ۔۔۔۔۔۔  اور اسکے بعد صرف جہاد اسلام کی سب سے اہم اور اجر و ثواب والی عبادتیں ہیں مگر ان دونوں کی الله جل شانہ کے ہاں مقبولیت اور اجرو ثواب ملنے کا دارو مدار صرف اخلاص اور نیت پر ہے اگر رضائے الٰہی کے علاوہ کسی بھی اور نیت سے کرے گا تو یہ عبادتیں بھی مردود ہیں ۔ اگر الله جل شانہ کے لئے کرے گا تو دنیا اور آخرت دونوں میں اجر عظیم پائے گا یہی اس حدیث کی اصل روح ہے ۔ 
*مأخذ* 
يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ 
اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے ۔  
سورۃ مائدہ آیہ ۔ 54 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...