نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*آیاتِ الٰہی کا مول*

وَلَا                  ۔ تَشْتَرُوا۔          ۔ بِآيَاتِي     ۔ ثَمَنًا          ۔ قَلِيلًا     ۔ 
اور نہ ۔ تم خرید و فروخت کرو  ۔ میری آیات کی ۔ قیمت ۔             تھوڑی 
وَإِيَّايَ       فَاتَّقُونِ.   4️⃣1️⃣
اور صرف مجھ ہی سے ۔ پس تم ڈرتے رہو 

   4️⃣1️⃣ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ
اور میری آیات پر تھوڑا مول نہ لو  اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو ۔ 

ثَمَناً قَلِیْلاً ۔ ( تھوڑی قیمت ) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حق کو چھوڑ کر دنیا کے طلب گار نہ بنو ۔ دنیا بظاہر کیسی ہی بڑی اور شاندار نظر آئے پھر بھی سچائی اور حق کے مقابلے میں حقیر اور بے قدر چیز ہے ۔ کیونکہ عارضی اور نا پائیدار ہے ۔ 
وَ ایَّایَ فَاتَّقُوْنَ ۔( اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو ) ۔ اِتِّقَا کے معنی ہیں برائیوں سے بچنا یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ برائیوں سے بچنے کی وجہ صرف الله جل جلالہ کے عذاب اور ناراضگی کاخوف ہونا چاہئیے ۔کیونکہ خرابیوں سے وہی بچ سکتا ہے جس کے دل میں الله تعالی کا ڈر ہو ۔ 
قرآن مجید  نے یہودیوں کے ساتھ جو نرمی اختیار کی ۔ اور جس خوبی کے ساتھ انہیں اسلام کی دعوت دی ہے وہ بجائے خود قرآن مجید کے کلامِ الٰہی ہونے کا ثبوت ہے ۔ واقعات کے اظہار کے طریقے اور خطاب کے طرز سے یہود کا پورا احترام ظاہر ہوتا ہے ۔ کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جو اُن کے لئے اشتعال کا باعث ہو ۔ سچائی کے اظہار کے لئے اس کے مناسب ماحول پیدا کرنا قرآن مجید فرقانِ حمید کا معجزہ ہے ۔ جس کی ہم مسلمانوں سے اگر تھوڑی سی بھی نقل ہو جائے تو دنیا کے تمام ڈر دور ہو جائیں ۔ 
یہود نے جو طرزِ عمل اسلام کے ساتھ اختیار کیا اس کی بنیاد ہٹ دھرمی اور ناسمجھی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ آیاتِ الٰہی فروخت کرنے سے مراد یہ ہے کہ یہودی علماء دنیا کے عارضی فائدوں کے لئے الله جل جلالہ کے احکام بدل ڈالتے تھے ۔ چند سکّوں کی خاطر خود ساختہ فتوے جاری کر دیتے تھے ۔ اپنے عیب چھپانے کے لئے الله کریم کے احکام کو چھپاتے اور خلط ملط کر دیتے تھے ۔ جب کسی قوم کے علماء میں اس قسم کے عیب پڑ جائیں ۔ تو اس قوم کا تباہی سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ 
اس سبق میں الله رحیم و کریم نیک اخلاق کی سب سے زیادہ تلقین فرماتا ہے ۔ دُنیا کی زندگی اور اس کے فائدے صرف چند روزہ ہیں ۔ اس وجہ سے وہ یہودیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ تم نذرانوں اور حقیر ہدیوں کی خاطر میرے کُھلے کھُلے حکموں کو بدل کر لوگوں کی خواہشات کے مطابق فیصلے نہ دیا کرو ۔ میرے احکام صاف صاف اور ٹھیک ٹھیک بتا دینے سے جو دُنیا اور آخرت میں انعام ملے گا وہ ان عارضی اور تھوڑے تھوڑے معاوضوں سے بہت زیادہ ہے ۔۔ 
درسِ قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 
الله کریم ہمارے علماء کرام کو حق و باطل کو کھول کھول کر بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور اس پر استقامت بخشے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...