*عمل کا دارومدار نیت پر ہے*


امیر المومنین ابو حفص عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا: اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہےجس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول  صلی الله علیہ وسلم ہی کی جانب ہے۔  ( یعنی دنیا اور آخرت دونوں میں اسے پھل ملے گا ) اور جس کی ہجرت دنیا کےلیے ہے کہ اسےکمائے یا عورت سے شادی کرنے کے لئے ہجرت کی ہو گی اس کی ہجرت اسی چیز کی طرف ہو گی ۔ جس کے لئے اس نے ہجرت کی ۔ ( ملے یا نہ ملے یہ اس کی قسمت ہے ۔ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے اسے کچھ نہ ملے گا ۔ )  ۔
*نیت کا بیان* 
نیت کے معنی اگرچہ قصد اور ارادے کے ہیں ۔ لیکن نیت دراصل اُس وجہ کا نام ہے جس کے لئے انسان کوئی کام کرتا  ہے ۔ خواہ وہ وجہ اچھی ہو یا بُری ۔ 
حضرت امام غزالی رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں کہ " نیت وہ خواہش ہے جو تجھے کسی کام میں لگا دے اور کام وہ چیز ہے جس کے کرنے پر تُو قادر ہوتا ہے " اور یہ کہ کسی عمل کی نیت کا اعلان کر دینا ہی کافی نہیں ۔ کیونکہ یہ زبانی جمع خرچ ہے 
اور اگر صرف دل میں ہی کہہ رہا ہے تو وہ حدیث نفس ہے ۔ " بلکہ جو دل میں بغیر اعلان کے سچی ہو اور عمل میں اُسی طرح ہو تو نیت کہلائے گی " 
اعمال تین طرح کے ہوتے ہیں ۔
 ایسے اعمال جو صرف الله جل شانہ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لئے کئے جائیں ۔ 
دوسر ے ۔۔۔ گناہ اور معصیت کے اعمال ۔ 
تیسری قسم مباح اعمال کی ہے ۔ یعنی جن کے کرنے سے نہ ثواب ہے نہ گناہ۔ 
گناہ اور نافرمانی والے کاموں میں اگر نیت اچھی بھی ہو تو وہ نیکی میں نہیں بدل سکتے ۔ 
البتہ اچھی نیت کی وجہ سے اطاعت کے کام اور مباح کاموں کا درجہ بلند ہو سکتا ہے 
اور بُری نیت کی وجہ سے یہی  کام گناہ میں بدل سکتے ہیں ۔ 
 عبادات و طاعت کی قبولیت کا تمام تر دارومدار صرف اخلاص اور نیت کی موجودگی پر ہے ۔ چنانچہ دکھاوے اور شہرت کی غرض سے یا کسی بھی اور دُنیوی غرض سے کسی بھی نیک کام کے کرنے کو محققین نے "شرکِ خفی " قرار دیا ہے یہانتک کہ ایمان و اسلام بھی اگر صرف ریا کاری ، شہرت یا کسی دُنیوی غرض کے لئے ہو تو معتبر نہیں اور اس کو شریعت میں نفاق کہا جاتا ہے ۔ 
 الله جل شانہ کے ہاں ہر عملِ خیر ، عبادت و طاعت یہاں تک کہ ایمان بھی صرف اسی وقت مقبول ہوتا ہے جب خالص اسی کے لئے ہو ۔  یہی اخلاص عبادت واطاعت کی روح ، اس کی حقیقت اور سب سے پہلی شرط ہے ۔ 
اس حدیث مبارکہ میں اچھی اور بُری دونوں قسم کی نیتوں کا ذکر ہے ۔ -------- نیکی کے کام کے لئے اچھی نیت اسے مقبولیت کے اعلی درجہ تک پہنچا دیتی ہے ۔ اور اسی کام میں اگر دُنیا کے فائدے  یا عورت سے نکاح کی نیت شامل ہوجائے ۔تو اجر ضائع ہو جاتا ہے ۔ الله جل شانہ کے ہاں وہی عبادت مقبول و مطلوب ہے جو دل کی پوری توجہ کے ساتھ ہو اور صرف الله تعالی کے لئے ہو اور کسی دوسری غرض کے لئے نہ ہو ۔ اس لئے ہر عملِ خیر اور عبادت کے وقت دل کا پوری طرح الله جل شانہ کی طرف متوجہ ہونا نہایت ضروری ہے ۔ اور اسی کو نیت کا حاضر ہونا یا احضارِ نیت کہتے ہیں 
آج کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ نماز روزے کے پابند لوگوں میں بھی وہ اثرات نظر نہیں آتے جن کا ذکر قرآن و احادیث میں ہے ۔ 
مثلاً نماز کی خاصیت ہے ۔۔۔۔ الله جل شانہ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ۔
اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمنْکَرِ
عنکبوت:۸۵

بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے

آج لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں اور فحش اور بُرے کام بھی کرتے ہیں ، جھوٹ بولتے ، خیانت کرتے ، دھوکہ دیتے ، ظلم اور حق تلفی کرتے اور طرح طرح کے حرام اور ممنوع کام کرتے ہیں ۔ اور نمازی کے نمازی ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نماز ہی وہ نماز نہیں جس کی خبر قرآن حکیم اور مخبرِ صادق صلی الله علیہ وسلم نے دی ہے ۔ اول تو ہماری نمازوں میں وہ خلوص ہی نہیں ہوتا جو بندگی کا حقیقی تقاضا ہے ۔ اور الله جل جلالہ کو مطلوب ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ ہماری توجہ نماز اور عبادت کی طرف عموما نہیں ہوتی ۔ اور ہم سمجھتے ہی نہیں کہ ہم کس کے سامنے کھڑے ہیں ۔ یہی حال ہماری اور تمام عبادتوں کا ہے ۔ہمیں اُن کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے  ۔ جیسے دوسرے بہت سے کام  حسب عادت کر لیتے ہیں ۔ اسی لئے ہمارے نماز روزے اور دوسرے نیک اعمال میں وہ اثر نہیں جو الله اور اس کے محبوب صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے ۔  

عادت اور عبادت  میں فرق اور حدّ فاصل نیت ہے ۔ اگر نیت ہو تو عادت بھی عبادت بن جاتی ہے ۔ اور اگر نیت نہ ہو تو عبادت بھی عادت بن جاتی ہے ۔ 

ذرا سوچئے ! ہم کتنے بڑے خسارے میں جارہے ہیں ۔ اس لئے سب سے اہم اور ضروری چیز جس سے ہم محروم ہیں اور جسے ہمیں سب سے پہلے حاصل کرنا چاہئیے ۔ یہی حقیقی اخلاص اور پوری توجہ کے ساتھ نیت اور عبادت کا ارادہ اور قصد ہے ۔ 

*نیت کا زبان سے کرنا ضروری نہیں بلکہ دل کا الله جل شانہ اور اس کی عبادت کی طرف پوری طرح متوجہ ہونا ضروری ہے ۔ اگر زبان سے بھی کہہ لے تو کوئی حرج نہیں ۔ خواہ عربی میں کہے یا اُردو میں یا کسی اور زبان میں* 

الله جل جلالہ ہماری نیتوں کو صرف اور صرف اپنے لئے خالص فرما دے ۔۔۔۔ 





کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں