نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*افضل اعمال کا بیان*. 1

*حضرت ابو ذر*  جن کا نام۔ جُندُب بن جُنَادہ ہے  رضی الله تعالی عنہ سے رویت ہے کہ 
میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا ۔ 
*یا رسول الله* !  کونسا عمل ( سب سے زیادہ) افضل ہے ۔ ؟ 
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا   الله جل شانہ پر ایمان لانا  اور۔ اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ 
 میں نے عرض کیا  : کونسا غلام آزاد کرنا زیادہ افضل ہے ؟ 
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :  " جو مالکوں کے نزدیک سب سے زیادہ نفیس ہو اور اس کی قیمت سب سے زیادہ ہو ۔ 
میں نے عرض کیا ، پس اگر میں ( اپنی تہیدستی کی وجہ سے ) نہ کروں ۔  ( یعنی غلام آزاد نہ کر سکوں ) ۔ 
 آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : تم کسی کاریگر کی مدد کرو ، یا کسی ناکارہ کے لئے کام کرو  " ۔ 
 ۔ ( خود محنت مزدوری کر کے اسے اس کو دے دو یا اس کی معاش کی کفالت کرو ) ۔ 
میں نے عرض کیا  " یا رسول الله ! ذرا بتائیے  اگر میں ان میں سے بھی کوئی کام نہ کر سکوں ؛ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :  " تم اپنے شر سے لوگوں کو بچاؤ " ( یعنی کس بھی شخص کو کسی بھی طرح کا دُکھ یا تکلیف نہ پہنچاؤ ) ۔ 
کہ یہ تمہارا خود اپنے اوپر احسان ہے ۔ ( اور  ثواب کا کام ہے) ۔ 
 متفقٌ علیہ ۔
*اعمال صالحہ اور کار ہائے خیر کی ضرورت اور اہمیت* 
اعمال صالحہ کے بغیر صرف ایمان ایک ایسا درخت ہے  جس کی صرف جڑ ہو وہ بھی زمین کے اندر ۔ لیکن زمین کے اوپر نہ اس کی کوئی شاخ ہو ، نہ تنا،  نہ ٹہنیاں ۔ نہ ٹہنیوں پر پتے نہ پھول نہ پھل ۔ظاہر ہے کہ جب تک یہ درخت پھوٹ کر باہر نہ نکلے  اس کی جڑ پر تنا نہ بنے ، شاخیں نہ ہوں شاخوں پر پتے پھول ُپھل نہ لگیں یہ نام کا درخت ہو گا اور محض بے کار ۔ اسی طرح جو شخص صرف دل سے الله تعالی کو مانتا ہے  لیکن زبان سے نہ کلمہ پڑھتا ہے  نہ نماز ، روزہ کا اہتمام کرتا ہے نہ ہی اسلام کے کسی بھی حکم پر عمل کرتا ہے اس کو ایمان نہیں کہا جا سکتا ۔ وہ صرف گوشت کھانے کا مسلمان ہے ۔ اس لئے کہ مسلمان بننے  کے لئے دل سے ایمان لانے کے بعد زبان سے کلمۂ توحید پڑھنا  فرض عبادتوں  ( نماز ، روزہ ، زکٰوۃ ،  حج  وغیرہ ) پر عمل کرنا اور الله جل شانہ کے ہر حکم پر عمل کرنا ہی مسلمان ہونا ہے ۔ 
اسی لئے حضرت ابو ذر غفاری رضی الله تعالی عنہ --- جو ایک قدیم الا سلام  جلیل القدر صحابی ہیں اور ایسے متقی اور پرھیزگار ہیں کہ ان کا تصور اور خیال بھی معصیت اور گناہ سے ناآشنا ہے  اعمالِ صالحہ اور کارہائے خیر کی حرص اور جستجو کی وجہ سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نیک اعمال اور بھلائی کے کاموں کے متعلق سوال کرتے ہیں ۔ اور نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم بھی ابو ذر کو جواب میں ----- ایسے ہمہ گیر اور دور رس اعمالِ صالحہ اور بھلائیوں کے کاموں کے بارے میں بتاتے ہیں جن سے کوئی بھی مسلمان خواہ کسی دَور سے تعلق رکھتا ہو کسی حالت میں محروم نہیں رہ سکتا ۔ بشرطیکہ عبادت سمجھ کر اور خالص نیت کے ساتھ کرے ۔ اگر نیت ہی درست نہ ہو تو اس کا کچھ علاج نہیں ۔ 
حضرت ابو ذر  کا پہلا سوال کہ سب سے افضل عمل کونسا ہے ؟ 
لغت کے اعتبار سے  افضل ، فضل سے بنا ہے اور فضل کے معنی ہیں زیادت ۔ یہ زیادتی دُنیا میں عمل کی دشواری اور مشقت کی وجہ سے ہے اور آخرت میں اجر و ثواب کی زیادتی کے اعتبار سے ہیں ۔ 
اور حقیقت بھی یہ ہے کہ ۔ *اشَقُّ الاَعمَالِ اکثرُھا ثَواباً* 
جس کام میں جتنی زیادہ محنت اور مشقت ہو گی اس کا ثواب بھی اس قدر زیادہ ہو گا ۔ 
چنانچہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جواب میں فرماتے ہیں : الله جل شانہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا ۔ 
کسی بھی انسان کے لئے اپنے باپ دادا کے دین کو اور ہوش سنبھالتے ہی جس کو عبادت کے لائق سمجھا  اس معبود کو چھوڑ کر ایک نئے معبود پر اور اس کی واحدانیت پر ایمان لانا  اور ایک نئے مذہب کو قبول کرنا بہت مشکل ہے ۔ اگرچہ اس کی سچائی کا پورا یقین بھی ہو تب بھی نفسیاتی طور پر ایک انسان کے لئے بہت مشکل اور نا قابلِ برداشت کام ہے 
دیکھئے ابتدائے اسلام میں قریش نے  بدر و اُحد کی لڑائیوں میں اپنے اعلٰی درجہ کے بہادر جنگجو جو کہ ایک ایک  ہزاروں پر بھاری تھا صرف اپنے آبائی دین کی حفاظت اور بتوں کی پرستش پر قربان کر دیا ۔ مگر آپ صلی الله علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے ۔ یہاں تک کہ چند سال ہی میں مکہ مکرمہ فتح ہو گیا اور کفار و قریش کا نام و نشان مٹ گیا ۔ 
یہ کفار قریش ہی کی خصوصیت نہ تھی بلکہ آج بھی کسی غیر مسلم کے لئے اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر اسلام قبول کرنا اور الله جل شانہ و رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانا اتنا ہی مشکل اور دشوار ہے ۔ 
ہم اگرچہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں الحمدُلله اور الله جل شانہ کے سوا کسی اور معبود کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔پھر بھی   ہم نے اپنے خاندانی اور علاقائی رسم و رواج کو اس شدت سے اختیار کر لیا ہے کہ انہیں چھوڑنا سخت دشوار ہو گیا ہے ۔ اگرچہ ہم پر ان کی برائی اور غیر اسلامی ہونا بھی واضح ہو جائے ۔
اپنا آبائی مذہب چھوڑ کر الله جل شانہ پر ایمان لانا ہی کافی مشکل اور دشوار کام ہے اسی کے ساتھ زندگی کے سب سے بڑے سرمایہ " جان و مال"  کو الله جل شانہ کی راہ میں قربان کرنا  اور سر بکف ، کفن بر دوش کافروں سے جنگ کے لئے نکل پڑنا ۔ دونوں ہی نہایت دشوار اور مشکل کام ہیں ۔ کیونکہ انسان کے لئے جان و مال کی محبت فطری اور خلقی ہے ۔ الله جل شانہ کی راہ میں اس فطری محبت کو چھوڑ کر نتائج سے بے پرواہ ہو کر جنگ کی آگ میں کود پڑنا بڑے دل جگرے کا کام ہے  ایسے ہی مؤمنوں کے متعلق الله جل شانہ فرماتے ہیں 
إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ 
سور ۃ التوبہ آیہ-  ۱۱۱
بلا شبہ الله جل شانہ نے اہلِ ایمان سے اُن کے جان و مال جنت کے بدلے خرید لئے ہیں ۔
الله جل شانہ خریدار ہے مؤمن دکاندار ہیں ، جان ومال سودا ہے اور جنت اس کی قیمت ہے ۔ ہر الله پر ایمان لانے والا اپنا مال و جان جنت کے عوض الله جل جلالہ کے ہاتھ بیچ چکا ہے ۔ اسی لئے مؤمنِ کامل ایمان کے بعد بغیر کسی جھجھک کے جان و مال الله کی راہ میں قربان کرنے کے لئے جب بھی موقعہ ملتا ہے میدانِ جنگ میں کود پڑتا ہے 
اوّل تو حق تعالی جل جلالہ پر کامل ایمان لانا دشوار ہے اور اس کے بعد الله کی راہ میں جہاد کرنا اس سے بھی مشکل ہے اسی لئے سب سے زیادہ الله جل شانہ کا پسندیدہ اور افضل عمل ہے جو اعلٰی درجہ کے ایمان والوں ہی کو نصیب ہوتا ہے ۔ 
 جاری ہے ~~~~~~~

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...