*سیرت النبی صلی الله علیہ وسلم*

قسط ~~~~~~~ 94
*تاسیس مسجدِ تقوٰی* 
قبا میں رونق افروز ہونے کے بعد سب سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم نے جو کام کیا وہ یہ کہ ایک مسجد کی بنیاد ڈالی اور سب سے پہلے خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے ایک پتھر لا کر قبلہ رُخ رکھا ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد ابو بکر صدیق نے اور ابوبکر رضی الله عنہ کے بعد حضرت عمر رضی الله عنہ نے ایک ایک پتھر رکھا ۔ اس کے بعد دیگر حضرات صحابہ نے پتھر لا کر رکھنے شروع کئے اور سلسلہ تعمیر کا جاری ہو گیا ۔ صحابہ کرام رضی الله عنھم کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم بھی بھاری پتھر اٹھا کر لاتے اور بسا اوقات پتھر کو تھامنے کی غرض سے شکم مبارک سے لگا لیتے ۔ صحابہ کرام عرض کرتے ۔ " یا رسول الله " آپ رہنے دیں ہم اٹھا لیں گے تو آپ قبول نہ فرماتے ۔ اسی مسجد کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ۔ 
۔۔۔۔  لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ
" البتہ جس مسجد کی بنیاد پہلے دن سے تقوٰی پر رکھی گئی وہ مسجد اس کی پوری مستحق ہے کہ آپ اس میں جا کر کھڑے ہوں ۔ اس مسجد میں ایسے مرد ہیں جو ظاہری اور باطنی طہارت اور پاکی کو پسند کرتے ہیں اور الله تعالی بھی ایسے پاک اور صاف رہنے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔" 
جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے عمرو بن عوف سے دریافت کیا کہ وہ کون سی طہارت اور پاکی ہے جس پر الله جل شانہ نے تمہاری ثناء کی ۔ 
 بنی عمرو نے عرض کیا ۔ " یا رسول الله " ہم ڈھیلے سے استنجاء کرنے کے بعد پانی سے بھی طہارت کرتے ہیں ممکن ہے الله تعالی نے ہمارے اس عمل کو پسند فرمایا ہو ۔ 
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ ہاں یہی وہ عمل ہے جس پر الله تعالی نے تمہاری ثناء کی ۔ تم کو چاہئیے اس عمل کو لازم پکڑو ۔ اور اس کے پابند رہو ۔
 صحیحین میں عبد الله بن عمر رضی الله عنہ سے رویت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہر شبینہ کو مسجد قبا کی زیارت کو کبھی سوار ، کبھی پیادہ تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے ۔ 
 سہل بن حنیف سے مروی ہے  کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جو شخص اپنے گھر سے وضو کر کے چلے اور مسجدِ قبا میں دوگانہ ادا کرے تو ایک عمرے کا ثواب پائے گا ۔ 
قبا میں چند روز قیام فرما کر جمعہ کے روز مدینہ منورہ کا ارادہ فرمایا  اور ناقہ پر سوار ہوئے ۔ راستہ میں محلہ بنی سالم پڑتا تھا ۔ وہاں پہنچ کر جمعہ کا وقت آگیا ۔ وہیں جمعہ کی نماز ادا فرمائی ۔ یہ اسلام میں آپ کا پہلا خطبہ اور پہلی نمازِ جمعہ تھی ۔ 
*خطبہ التقوٰی* 
وہ خطبہ یہ ہے جس کا ہر لفظ دریائے فصاحت و بلاغت کی گہرائی میں ڈوبا ہوا ہے ۔ جس کا ہر حرف  مرض نفسانی کے لئے شفا اور مُردہ دلوں کے لئے آبِ حیات ہے ۔ اور جس کا ہر کلمہ  اربابِ ذوق کے لئے رحیقِ مختوم سے زیادہ شیریں اور لذیذ ہے 
*الحمد لله* ۔۔ 
الله جل شانہ کی حمد کرتا ہوں اور اسی سے اعانت اور مدد اور مغفرت اور ہدایت کا طلبگار ہوں اور الله تعالی پر ایمان رکھتا ہوں ، اس کا کفر نہیں کرتا بلکہ اس کے کفر کرنے والوں سے عداوت اور دشمنی رکھتا ہوں ۔ اور شھادت دیتا ہوں کہ الله ایک ہے ۔ اور محمد صلی الله علیہ وسلم اس کے بندہ اور رسول ہیں  جس کو ہدایت اور نورحکمت اور موعظت دے کر ایسے وقت میں بھیجا کہ جب انبیاء و رسل کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا اور زمین پر علم برائے نام تھا اور لوگ گمراہی میں تھے اور قیامت کا قُرب تھا ۔ جو الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اس نے ہدایت پائی اور جس نے الله اور رسول ( صلی الله علیہ وسلم ) کی نافرمانی کی وہ بلا شبہ بے راہ ہوا اور کوتاہی کی اور شدید گمراہی  میں مبتلا ہوا ۔ اور میں تم کو الله کے تقوٰی کی وصیت کرتا ہوں ، اس لئے کہ ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان کو بہترین وصیت یہ ہے کہ اس کو آخرت پر آمادہ کرے اور تقوٰی اور پرھیز گاری کا اس کو حکم دے ۔ پس بچو اس چیز سے جس سے الله نے تمہیں ڈرایا ہے ۔ تقوٰی سے بڑھ کر کوئی نصیحت نہیں اور موعظت نہیں اور بلا شبہ الله کا تقوٰی اور خوف آخرت کے بارے میں سچا معین اور مددگار ہے ۔ اور جو شخص ظاہر و باطن میں اپنا معاملہ الله کے ساتھ درست کر لے جس کا مقصد صرف الله کی رضا ہو اور کوئی دنیاوی غرض اور مصلحت پیشِ نظر نہ ہو تو یہ ظاہر و باطن کی مخلصانہ اصلاح دنیا میں اس کے لئے باعث عزت و شہرت ہے اور مرنے کے بعد ذخیرہ آخرت  ہے  کہ جس وقت انسان  اعمال صالحہ کا انتہائی درجہ محتاج ہو گا  اور خلافِ تقوٰی امور کے متعلق اس دن یہ تمنا کرے گا کہ کاش میرے اور اس کے درمیان مسافت بعیدہ حائل ہوتی ۔ اور الله جل شانہ تم کو اپنی عظمت اور جلال سے ڈراتے ہیں اور یہ ڈرانا اس وجہ سے ہے کہ الله تعالی بندوں پر نہایت ہی مہربان ہیں ۔ الله اپنے قول میں سچا ہے اور وعدہ وفا کرنے والا ہے ۔ اس کے قول اور وعدے میں خلف نہیں ۔
 ما یبدل القول لدی وما انا بظلام للعبید  
 پس دنیا اور آخرت میں اور ظاہر اور باطن میں الله تعالی سے ڈرو ۔ تحقیق جو شخص الله سے ڈرتا ہے الله تعالی اس کے گناہوں کا کفارہ فرماتے ہیں اور اجرِ عظیم عطا فرماتے ہیں ۔ اور جو شخص الله سے ڈرے تحقیق وہ بلا شبہ بڑا کامیاب ہوا اور تحقیق الله کا تقوٰی ایسی شے ہے کہ الله کے غضب اور اس کی عقوبت اور سزا اور ناراضی سے بچاتا ہے اور تقوٰی ہی قیامت کے دن چہروں کو روشن اور منوّر بنائے گا ۔ اور رضائے الٰہی اور رفع درجات کا ذریعہ اور وسیلہ ہو گا ۔ اور تقوٰی میں جس قدر حصہ لے سکتے ہو وہ لے لو اور اس میں کمی نہ کرو اور الله جل شانہ کی اطاعت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرو ۔ الله تعالی نے تمہاری تعلیم کے لئے کتاب اتاری اور ہدایت کا راستہ تمہارے لئے واضح کیا تاکہ  جھوٹے اور سچے میں فرق ہو جائے ۔ پس جس طرح الله جل شانہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا اسی طرح تم حُسن و خوبی کے ساتھ اس کی اطاعت بجا لاؤ اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھو ۔ اس کی راہ میں کماحقہ جہاد کرو ۔ الله تعالی نے تمہیں اپنے لئے مخصوص اور منتخب کیا ہے اور تمہارا نام اور لقب ہی مسلمان رکھا ہے ۔ یعنی اپنا مطیع اور فرمانبردار ۔ پس اس نام کی لاج رکھو الله تعالی کا منشاء یہ ہے کہ جس کو ہلاک اور برباد ہونا ہے وہ قیام حجت کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے قیام حجت کے بعد بصیرت سے زندہ رہے ۔ کوئی بچاؤ اور کوئی طاقت اور کوئی قوت بغیر الله تعالی کی مدد کے ممکن نہیں ۔ پس کثرت سے الله تعالی کا ذکر کرو اور آخرت کے لئے عمل کرو۔ جو شخص اپنا معاملہ الله جل شانہ سے درست کر لے گا الله تعالی لوگوں سے اس کی کفایت کرے گا ۔ کوئی شخص اس کو ضرر نہیں پہنچا سکے گا ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ الله تعالی کا حکم تو لوگوں پر چلتا ہے اور لوگ الله تعالی پر حُکم نہیں چلا سکتے ۔ الله ہی تمام لوگوں کا مالک ہے اور لوگ الله کی کسی چیز کے مالک نہیں ۔ لہٰذا تم اپنا معاملہ الله سے درست کر لو ، لوگوں کی فکر میں مت پڑو اور الله سب کی کفایت کرے گا ۔
      *الله اکبر و لا قوۃ الا بالله العظیم* 
یہ  رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا پہلا خطبہ ہے کہ جو آپ نے ہجرت کے بعد دیا ۔ تیرہ سالہ  "مظلومانہ زندگی " کے بعد جو خطبہ دیا جا رہا ہے اس میں ایک حرف بھی اپنے دشمنوں کی مذمت اور شکایت میں نہیں ۔ سوائے تقوٰی اور پرھیز گاری  اور آخرت کی تیاری کے کوئی لفظ لسانِ نبوت سے نہیں نکل رہا ۔ 
بےشک آپ  *اِنّک لعلی خلق عظیم* کے مصداق تھے  *صلی الله علیہ وسلم* 
جمعہ سے فارغ ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم ناقہ پر سوار ہوئے  اور ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا  اور مدینہ کا رُخ فرمایا اور انصار کا ایک عظیم الشان گروہ ہتھیار لگائے آپ کے  دائیں بائیں آگے اور پیچھے آپ کے جلو میں چل رہا تھا ۔۔۔۔۔ 
===========>جاری ھے..

سیرت المصطفیٰ..۔۔     مولانا محمد ادریس کاندہلوی..
الرحیق المختوم اردو..۔۔۔ مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
 



کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں