شام کا ایک آدمی حضرت امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی الله تعالی عنہ کا دوست تھا ۔ اس کی پارسائی تقوٰی اور دین کے لئے اس کی حمیت کے باعث آپ اس کو اپنا بھائی کہہ کر پکارتے تھے ۔ شام سے ایک آدمی آیا ۔ آپ نے اس سے اپنے دوست کی خیریت دریافت کی ۔ اس نے بتایا کہ وہ تو تباہ ہوگیا ۔ شراب پیتا ہے گانا سنتا ہے اور وہ فسق و فجور کی زندگی بسر کر رہا ہے ۔ یہ سن کر آپ کو ازحد رنج ہوا ۔ فرمایا جب واپس جانے لگو تو مجھ سے مل کر جانا ۔ روانگی کے وقت آپ نے اپنے کاتب سے خط لکھوا کر اس شخص تک پہنچانے کے لئے دیا ۔
خط کا مضمون یہ تھا ۔۔
یہ خط عمر بن الخطاب کی طرف سے فلاں شخص کی طرف ۔ تم پر سلام ہو ۔ میں تیری طرف الله تعالی کی حمد کرتا ہوں ۔ جو وحدہ لا شریک ہے ۔ گناہ معاف کرنے والا ، توبہ قبول کرنے والا ، سخت عذاب والا ، بڑی قدرت والا ، اس کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ، اسی کی طرف سب کو لوٹنا ہے
پھر خود بھی اس کے لئے ھدایت کی دعا مانگی اور حاضرین مجلس سے بھی اس کے لئے دعا کروائی ۔ اور یہ خط اس شخص کو دیا اور فرمایا میرے دوست کو پہنچا دینا ۔
جب اس دوست نے خط پڑھا تو اس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی ۔ آنکھوں سے آنسوؤں کا مینہ برسنے لگا ۔روتا تھا اور خط کو بار بار پڑھتا تھا ۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے گناہوں سے توبہ کی فسق و فجور کی زندگی ترک کر کے اطاعت و فرمانبرداری کی زندگی بسر کرنے لگا ۔
حضرت عمر فاروق رضی الله تعالی کو اس کی توبہ کی خبر ملی تو بہت خوش ہوئے ۔اور فرمانے لگے ۔
یعنی تم جب بھی اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ راہ راست سے پاؤں پھسل گیا ہے ۔ تو اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا کرو ۔ اسے سیدھی راہ پر لانے کی کوشش کرو ۔ اس کی ھدایت کے لئے الله تعالی سے دعا مانگو ۔ اور اس کے خلاف شیطان کے مددگار نہ بن جاؤ ۔ ۔
یعنی اگرتم اس پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے لگو گے تو وہ اپنی ضد پر پکا ہو جائے گا ۔ اوراسے اپنی عزت نفس کا سوال بنا کر گمراہی میں دور نکل جائے گا ۔
سبحان الله ۔۔ دعوت و ارشاد اور تبلیغ و اصلاح کا کیا حکیمانہ انداز ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں