حیات و وفات عیسی علیہ السلام ۔۔۔


تم نے لگتا ہے کہ اپنے نبی مرزا قادیانی کی طرح افیون کی overdose لے لی ہے۔۔۔۔۔تم نے Net سے کاپی پیسٹ کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ شجرہ نسب ملا کر یہ دھوکا اور فریب دینے کی کوشش کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مرکب ہے اس لیئے مرزا قادیانی کا نام بھی ایسے ہی واحد نہیں مرکب تھا۔۔۔۔۔ اور مسلمان جو مرزا قادیانی کے کذب کے متعلق دلیل لاتے ہیں کہ تمام انبیاء کے نام مثلا عیسی، موسی، یوسف، ابراہیم وغیرہ واحد ہیں وہ غلط ہے ان کا شجرہ نسب بھی ساتھ ملانا چاہیئے پھر مکمل نام بنتا ہے۔۔۔۔۔۔اس کو ہیرا پھیری کہتے ہیں اور یہ علت قادیانیوں کی نس نس میں بسی ہے!!

میں تمھاری فریب کاری اور مکاری کا جواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امت کو اپنے ناموں سے آگاہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
 
اِنَّ لِیْ أَسْمَاءً، اَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِی یَمْعُو اللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ، وَاَنَا الْعَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ اَحَدٌ.
 
بے شک میرے کئی اسماء ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، حدیث: 4104)

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پانچ نام بتائے اور تمام نام واحد ہیں مرکب نہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ انبیائے اکرام علیہ السلام کے نام اگر ایک سے زائد بھی ہوں تو وہ مرکب نہیں ہوتے۔۔۔۔اے کوڑھ مغز مرزائی۔۔۔کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جو اسماء بتائے ان کے ساتھ کوئی شجرہ نسب لگایا ہے؟؟؟ دوسرا اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرکب نام والے غلام احمد قادیانی کو صاف جھوٹا نبی کہا ہے۔۔۔۔!!

مرزا قادیانی اپنا نام بتاتے ہوئے لکھتا ہے: ""میرا نام غلام احمد میرے والد صاحب کا نام غلام مرتضیٰ'' (روحانی خزائن صفحہ 162 جلد 13)۔۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مرزا قادیانی نے اپنا نام شجرہ نسب کے بغیر بتایا۔۔۔۔تم کون ہوتے ہو مسلمانوں کو دھوکا اور فریب دینے والے۔۔۔۔!!

اللہ کی قدرت کہ قرآن سے پہلی الہامی کتابوں میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام واحد آیا ہے۔۔۔۔۔ انجیل میں "فارقلیط'' اور "نمخمنا"۔۔۔توریت میں "بموذماذ" اور ہندوؤں کی کتاب اتھروید میں "شنویشیا" کے نام واحد صیغہ میں ہیں۔۔۔۔۔!!



مسئلہ
حیات و وفات عیسیٰ بن مریم علیہ السّلام

آیات قرآنیہ سے وفات مسیح ناصری علیہ السلام کا ثبوت
وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْۤ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ١ۗ بِحَقٍّ١ؐؕ اِنْ كُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ١ؕ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۔مَا قُلْتُ لَهُمْ اِلَّا مَاۤ اَمَرْتَنِيْ بِهٖۤ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ١ۚ وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ۔
(المائدہ:118,117)
ترجمہ:‘‘اور جب کہا اللہ نے اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بناؤ خدا کے سوا ۔ تو (عیسیٰ نے ) کہا: پاک ہے تُو ، ناممکن تھا میرے لئے کہ میں کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہ تھا اگر میں نے (ایسا) کہا ہو تو تجھے معلوم ہی ہو گا۔ تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے یقیناًتو غیبوں کو خو ب جاننے والا ہے میں نے اُن سے نہیں کہا مگر وہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا۔کہ عبادت کرو اللہ کی جو میرا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور میں ان پر نگران تھا (اس وقت تک ہی) جب تک میں اُن میں موجود رہا۔ پس جب تو نے مجھے وفات دیدی تو تُو ہی اُن پر نگران تھا اور تُو ہر چیز پر نگران ہے۔’’
استدلال:
1:    قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جواب كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْسے ظاہر ہے کہ وہ جب تک اپنی قوم میں موجودرہے ان کی قوم نہیں بگڑی تھی کیونکہ اس وقت وہ اُن پر نگران تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کی تَوَفّی کر لی تو پھر قیامت تک خدا ہی ان کی قوم کا نگران تھا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے اس کے بعد ان کی نگرانی نہیں کی۔ اس بیان سے واضح ہے کہ ان کی قوم سے علیحدگی جب توفّی کے ذریعہ ہو گئی تو توفّی کے بعد وہ قوم میں دوبارہ نہیں آئے ہوں گے بلکہ وہ قیامت تک قوم کے بارہ میں کوئی مشاہداتی علم نہیں رکھتے ہوں گے۔
2:  فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ کے معنی ہیں جب تو نے مجھے وفات دےدی۔ 
تَوَفَّيْتَنِيْ کے معنی محاورۂ عرب کے علاوہ سیاقِ کلام کے لحاظ سے بھی پورا پورالینا بمع رُوح و جسم لےکر آسمان پر اٹھا لینا درست نہیں کیونکہ تَوفّی کے بعداُن کے دوبارہ قوم میں آنے کی كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ میں نفی کردی گئی ہے پس زندہ اٹھا لینے کا جو یہ مقصد خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ اصالتًا قوم میں آئیں گے۔اس کی كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ میں تردید موجود ہے کیونکہ اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ پھر مجھے قوم کی نگرانی کا موقعہ نہیں ملا بلکہ اے خدا ! پھر تو ہی ان کا نگران تھا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ سے اشارۃ النّص کے طور پر یہ امر ثابت ہے کہ توفّی کے بعد وہ پھر قوم میں نہیں گئے۔ پس ان کا قوم میں دوبارہ آنا جب ناممکن قرار پایا تو ان کو زندہ رکھنے کا کیا فائدہ؟لہٰذا اس جگہ تَوَفَّيْتَنِيْ کے صحیح اور معروف معنی (تو نے مجھے وفات دےدی)ہی ضروری ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کے دن قوم سے تَوفّی کے بعد سے قیامت کے دن تک مشاہداتی لا علمی کے متعلق یہ بیان چونکہ درست ہے کیونکہ وہ خدا کے نبی ہیں ۔ لہٰذا ان کی وفات کی وجہ سے قوم میں دوبارہ نہ آنے اور قوم کو ان کی وفات کے بعد خدا کی نگرانی میں چھوڑ جانے کا اعتراف سچائی پر مبنی ہے۔ خدا کا نبی کبھی یہ جھوٹ نہیں بول سکتا کہ وہ قوم میں دوبارہ اصلاح کے لئے آیا ہو مگر خدا کو یہ کہے کہ قوم سے علیحدگی کے بعد مجھے ان کی نگرانی کا موقعہ نہیں ملا۔ بلکہ وہ خدا کی نگرانی میں ہی رہے۔
3: حضرت رسول کریم ؐ  کا فیصلہ 
حضرت امام بخاری کتاب التفسیر میں زیرِ آیت ھٰذایہ حدیث لائے ہیں: 
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہ عَنْہُ..... اَنَّہٗ یُجَاءُ بِرِجَالٍ مِّنْ اُمَّتِیْ فَیُؤخَذُبِھِمْ ذَاتَ الشِمَالِ فَاقُوْلُ یَا رَبِّ! اُصَیْحَابِیْ فَیُقَالَ اِنَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوْابَعْدَکَ فَاَقُوْلُ کَمَاقَالَ اِلْعَبْدُ الصَّالِحُ ‘‘وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّادَمْتُ ِفیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ’’ فَیُقَالُ اِنَّ ھٰوُٴلَاءِ لَمْ َیَزالُوْ امُرْ تَدِّیْنَ عَلٰی اَعْقَابِھِمْ مُنْذُفَارَقْتَھُمْ۔ (بخاری)
ترجمہ:    حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا۔ کہ (قیامت کے دن) میری امت کے کچھ لوگ لاےٴ جائیں گے اور انہیں بائیں طرف (جہنم کی طرف) لے جایا جائے گا۔ پس میں کہوںگا۔ ‘‘اے میرے رب!یہ تو میرے ساتھی ہیں’’تو کہا جائے گا تُو نہیں جانتا کہ یہ تیرے بعد کیا کچھ کرتے رہے ہیں تو اس وقت میں اسی طرح کہوں گا جس طرح اس نیک بندے (حضرت عیسیٰ) نے کہا کہ‘‘میں ان پر (اس وقت تک ) نگران تھا جب تک میں ان میں موجود رہا۔ پس جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا۔’’ اس پر کہا جائے گا کہ یہ لوگ تیرے بعدمرتد ہی رہے۔


جواب ۔۔۔۔۔ 

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو نبوّت،  محمد عربی رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے قبل ہی مل گئی تھی۔ سیدنا عیسی علیہ السلام کو الله تعالی نے زندہ آسمان پر اٹھالیا تھا، اور وہ قربِ قیامت میں دوباہ نازل ہونگے۔ 

اس سلسلے میں قرآنِ کریم سے دلیل : 

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّـهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَـٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ﴿١٥٧﴾ بَل رَّفَعَهُ اللَّـهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ﴿١٥٨﴾ وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا النساء157،159

اور ان کے کہنے کی وجہ سے کہ ہم نے قتل کیا ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم کو جو رسول ہیں اللہ کے حالانکہ نہیں قتل کیا انہوں نے اس کو اور نہ سولی پر چڑھایا اسے بلکہ معاملہ مشتبہ کردیا گیا ان کے لئے اور بے شک وہ لوگ جنہوں نے اختلاف کیا اس معاملہ میں ضرور مبتلا ہیں شک میں اس بارے میں اور نہیں ہے انہیں اس واقعہ کا کچھ بھی علم ،سوائے گمان کی پیروی کے اور نہیں قتل کیا انہوں نے مسیح کو یقینا ۔بلکہ اٹھا لیا ہے اس کو اللہ نے اپنی طرف اورہے اللہ زبردست طاقت رکھنے والا ،بڑی حکمت والا ۔اور نہیں کوئی اہل کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا (مسیح پر)اس کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا( مسیح) ان پر گواہ )​ 
_______________________________________

قرآنِ کریم کی آیات کا من مانا ترجمہ کرنا مرزا قادیانی کا من پسند کام تھا، جو اس کے ماننے والوں نے آج بھی قائم رکھا ہوا ہے۔

لغت کے اعتبار سے "وفات" کا لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ایک مطلب "واپس لینا" *بھی ہے اور جو آیات تم نے لکھین ان میں یہی مطلب مراد ہے۔ خود قرآن مجید میں "وفات"کا اطلاق نیند پر کیا گیا ہے مثلا:
وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ (الانعام)
"اور وہی ہے جو تمہیں رات کو "وفات" دیتا ہے"
اللَّهُ يَتَوَفَّى الأنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا [ الزمر : 42 ]
"اللہ وفات دیتا ہے جانوں کو موت کے وقت اور جو مری نہیں ہیں انہیں نیند میں"

عربی کی معتبر ترین لغت لسان العرب سے "وفات" کے دو مزید استعمال دیکھئے۔
تَوَفَّيْتُ المالَ منه
لفظی مطلب: "میں نے اس کے مال کو "وفات" دے دی"
حقیقی مراد: "میں نے اس سے سارا مال واپس لے لیا"
ایک اور مثال:
تَوَفَّيْتُ عَدَد القومِ
لفظی مطلب: "میں نے قوم کے افراد کی تعداد کو وفات دی"
حقیقی مراد: "میں نے قوم کے افراد کو شمار کیا"
ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ عربی زبان میں "وفات" کا مطلب ہمیشہ "موت" نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی شخص محض لغت کی مدد سے ترجمہ کرنے بیٹھے تو وہ قائل کی حقیقی مراد سے بہت دور جا پڑے گا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ محض لغت کی مدد سے قرآن کی تفسیر نہیں کی جا سکتی۔ قرآن کریم کی تفسیر ایک انتہائی نازک اور مشکل کام ہے جس کے لیے صرف عربی زبان جان لینا کافی نہیں بلکہ تمام متعلقہ علوم میں مہارت ضروری ہے۔


رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ احادیث سے عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد معلوم ہے۔ 
ایک صحیح حدیث ملاحظہ کیجئے:

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ

"اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، قریب ہے کہ تم میں ابن مریم حاکم عادل بن کر اتریں گے، پس وہ صلیب کو توڑ دیں گے، اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ اٹھا دیں گے۔ ۔ ۔۔ "
اس حدیث کو درج ذیل محدثین نے روایت کیا ہے اور محدثین نے جانچ پرکھ کے کڑے اصولوں پر پرکھنے کے بعد اسے "صحیح"قرار دیا ہے۔
صحیح البخاری کتاب البیوع باب قتل الخنزیر
صحیح مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسیٰ ابن مریم حاکما بشریعۃ نبینا
سنن ترمذی کتاب الفتن باب ما جاء فی نزول عیسیٰ ابن مریم
مستخرج ابی عوانہ کتاب الایمان باب ثواب من آمن بمحمد صلی اللہ علیہ و علی*آلہ وسلم
مصنف عبدالرزاق کتاب الجامع باب نزول عیسیٰ ابن مریم
مسند احمد بن حنبل باقی مسند المکثرین مسند ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ
صحیح ابن حبان کتاب التاریخ باب ذکر خبر قد یوھم من لم یحکم صناعۃ الحدیث ان خبر
سنن البیہقی جلد 6 ص 110
علاوہ ازیں قرآن کریم کی ایک آیت سے بھی عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد کا اشارہ نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا
 (النساء 159)

"اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہ بچے گا جو اس (عیسیٰ علیہ السلام) کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے۔ اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہو گا"

پس یہ بات طے شدہ ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السلام حیات ہیں اور قیامت سے قبل ان کا نزول ہوگا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا
 
اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسٰی مسیح کو جو اللہ کے پیغمبر کہلاتے تھے قتل کر دیا ہے اللہ نے انکو ملعون کر دیا حالانکہ انہوں نے عیسٰی کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھا پائے لیکن ان لوگوں کو انکی سی صورت معلوم ہوئی۔ اور جو لوگ انکے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ انکے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور گمان پر چلنے کے سوا انکو اسکا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسٰی کو یقیناً قتل نہیں کیا۔

بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا
 
بلکہ اللہ نے انکو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔ النساء ۔ ۱۵۷ ۔ ۱۵۸

یہ نص صریح ہے اس بات پر کہ اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور متواتر صحیح احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ 
یہ حدیث کی تمام کتابوں کے علاوہ صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی وارد ہیں۔ 
ان احادیث میں آسمان پر اٹھائے جانے کے علاوہ قیامت کے قریب ان کے نزول کا اور دیگر بہت سی باتوں کا تذکرہ ہے۔ 
امام ابن کثیر یہ تمام روایات کا ذکر کر کےآخر میں تحریر فرماتے ہیں پس یہ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر ہیں۔ 
ان کے راویوں میں حضرت ابوہریرہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود، عثمان بن ابی العاص، ابو امامہ، نواس بن سمعان، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، مجمع بن جاریہ، ابی سریحہ اور حذیفہ بن اسیر رضی اللہ عنہم ہیں۔ 
ان احادیث میں آپ کے نزول کی صفت اور جگہ کا بیان ہے، آپ علیہ السلام دمشق میں منارہ شرقیہ کے پاس اس وقت اتریں گے جب فجر کی نماز کے لیے اقامت ہو رہی ہوگی۔ آپ خنزیر کو قتل کریں گے، صلیب توڑ دیں گے، جزیہ معاف کر دیں گے، ان کے دور میں سب مسلمان ہو جائیں، دجال کا قتل بھی آپ کے ہاتھوں سے ہوگا اور یاجوج و ماجوج کا ظہور و فساد بھی آپ کی موجودگی میں ہوگا، بالآخر آپ ہی کی بددعا سے ان کی ہلاکت واقع ہوگی۔

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
 آل عمران ۔ ۵۵ 
اس وقت اللہ نے فرمایا کہ عیسٰی! میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کر کے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تمہیں کافروں کی صحبت سے پاک کر دوں گا۔ اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کو کافروں پر قیامت تک فائق و غالب رکھوں گا پھر تم سب میرے پاس لوٹ کر آؤ گے تو جن باتوں میں تم اختلاف کرتے رہے اس دن تم میں ان کا فیصلہ کر دوں گا۔
 
انسان کی موت پر جو وفات کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس لئے کہ اس کے جسمانی اختیارات مکمل طور پر سلب کر لئے جاتے ہیں اس اعتبار سے موت اس کے معنی کی مختلف صورتوں میں سے محض ایک صورت ہے۔ 
نیند میں بھی چونکہ انسانی اختیارات عارضی طور پر معطل کر دیئے جاتے ہیں اس لئے نیند پر بھی قرآن نے وفات کے لفظ کا اطلاق کیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اس کے حقیقی اور اصل معنی پورا پورا لینے کے ہی ہیں۔ 
یعنی اے عیسیٰ تجھے میں یہودیوں کی سازش سے بچا کر پورا پورا اپنی طرف آسمانوں پر اٹھا لونگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور پھر جب دوبارہ دنیا میں نزول ہوگا تو اس وقت موت سے ہمکنار کروں گا۔ یعنی یہودیوں کے ہاتھوں تیرا قتل نہیں ہوگا بلکہ تجھے طبعی موت ہی آئے گی۔ (فتح القدیر)


رئیس المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ المتوفی) 28 ھ( اپنی تفسیر ابن عباس ص 262 پرلفظ خاتم کا معنی بیان فرماتے ہیں
 ۔(ترجمہ)" خاتم النبیین کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سلسلہ نبوت حضورﷺکی ذات اقدس پر ختم کر دیا ہے پس آپ ﷺکے بعد کوئی نبی معبوث نہیں ہو گا" ۔ قرآن مجید چونکہ قلب مصطفی ﷺ پر نازل ہوا ہے اس لیے قرآن کے کسی لفظ ،آیت یا معنی کی تفسیر سب سے بہتر خود حضور اکر م ﷺ فر ما سکتے ہیں تو آئیے ہم بارگاہ رسالت مآب ﷺسے لفظ خاتم النبیین کا معنی پوچھتے ہیں
 ۔ارشاد نبویؐ ہے:(ترجمہ)"میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں ‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں" ) سنن ابی دائود جلد نمبر 2ص224 
( سورۃ المائدۃ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طورپر بیان فرمادیاکہ دینِ اسلام مکمل ہو چکاہے۔اب قیامت تک اس میں ترمیم واضافہ کی نہ گنجائش ہے اورنہ ضرورت۔ 
چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:(ترجمہ)"آج میں نے مکمل کردیاتمھارے لیے تمھارادین اورپوری کردی تم پراپنی نعمت، اورمیں نے پسندکرلیاتمھارے لیے اسلام کوبطوردین"۔مذکورہ آیت مبارکہ حجتہ الوداع کے موقع پرعرفہ کے دن بروزجمعتہ المبارک نازل ہوئی۔ بعض علماء کے نزدیک یہ آخری آیت تھی جو آپ ﷺ پر نازل ہوئی۔جمیع مفسرین کے مطابق یہ آیت ، آیاتِ احکام میں سے آخری آیت ہے اورآئندہ کے لیے وحی ونبوت کے ختم ہونے کی خبر دے رہی ہے۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 136میں
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : (ترجمہ) " (اے مسلمانو)تم کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اوراس(کتاب) پرجو ہماری طرف اتاری گئی اوراس پر جو ابراہیم اوراسماعیل اور یعقوب اورانکی اولاد کی طرف اتاری گئی اوران (کتابوں ) پر بھی جو موسیٰ اورعیسیٰ اورجو دوسرے انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں ، ہم ان میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے ، اورہم اسی(معبودواحد) کے فرمانبردار ہیں"۔ اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کو صرف نزول وحی کی دوقسموں پر ایمان لانے کا حکم دیاگیاہے۔ ایک اس وحی پر جو انکی طرف بھیجی گئی یعنی قرآن مجید جبکہ دوسری وہ جو کہ پہلے انبیاء کی بھیجی گئی ۔آپ ﷺ کے بعد بھی اگر کسی نے آناہوتا تو اس پر نازل ہونے والی وحی پر ایمان لانے کا بھی حکم دیاجاتا۔پس آپ ﷺ ہی آخری نبی اوررسول ہیں ، آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آئے گا نہ ہی کوئی وحی نازل ہو گی۔



کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

آیت الحجاب

 آیۃ الحجاب سورۂ احزاب کی آیت نمبر 53 آیتِ حجاب کہلاتی ہے۔  اس کا آغاز  ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النّ...

پسندیدہ تحریریں