نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خوبصورت تحریر ۔۔۔ پوسٹ عبد الرحمن

سبز پہاڑوں کی بلّندیوں پر وہاں جہاں گنگناتا چشمہ خوشی سے بہتا جاتا ہے،
نظارے آوازیں دیتے ہیں، ہوائیں سرگوشیاں کرتی ہیں، 
بار بی کیو کی اشتہا انگیز خوشبووں اور ان سب کی ہنسی اور آوازوں میں زندگی بولتی ہے،
وہیں دل کی آنکھیں اپنے پیاروں کو ستم کی بھٹی میں جھلستا دیکھتی ہیں....
باغوں کی اس حسین بستی سے دور وہاں، جہاں گاڑھے سیاہ دھویں کے بادل اٹھتے ہیں، بارود کی بو میں زندگی کا دم گھٹتا ہے، انسانوں کا خون بہتا ہے، ان ہی جیسے انسانوں کا خون جو یہاں دریا کنارے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں، اور بار بی کیو کر رہے ہیں، اس گھنگھریالے بالوں والی بچی جیسی ایک ننھی پری وہاں دیوانوں کی طرح دوڑتے اپنے بابا کے کاندھے پر آخری سانسیں لے رہی ہے...
اور پانی میں پاؤں ڈالے بیٹھی دلکش مسکراہٹ والی اس لڑکی جیسی ایک شہزادی دھویں کے بادلوں میں اپنی بڑی بڑی آنکھیں مسل رہی ہے.
وہ پانچ دریاؤں والی سرزمین جس کے سینے پر ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیاں شان سے سر اٹھاے کھڑی ہیں.... جہاں نارنجیوں اور ام کے باغات ہیں، سنہری گندم کے کھیت ہیں،جھاگ اڑاتا کئی رنگوں والا سمندر ہے....
جہاں بسوں پر شہد کی مکھیوں کی طرح لدے بے شمارانسان زندگی کا سفر کاٹتے ہیں، 
جہاں سے سب دل دہلا دینے والی روتی سسکتی خبریں لاتے ہیں،
وہیں  سے جہاں فٹ پاتھوں پر دوپہر اور شام دستر خوان سجا کر ستم رسیدوں کو کھانے کھلاے جاتے ہیں،
ہسپتال کے بستر پر لا وارث پری بڑھیا کے لیے ڈیوٹی پر موجود نو آموز ڈاکٹر پیسے جمع کر کے دوائیں اور ضروری آلات خرید کر لاتے ہیں...
جہاں درختوں کے نیچے محروم بچوں کے لئے اسکول سجاے جاتے ہیں....
جہاں وہ جان نچھاور کرنے والا سرخ چہرے والا ڈرائیور ہے، تکلیف دہ بیماری سے لڑ کر بلندیوں پرجا پہنچنے والی وہ پیاری سی لڑکی ہے، کڑوے تیل سے جلتے دیے کی لو میں اناٹومی کے پیپر کی تیاری کرتی وہ خواب دیکھنے والی شا عرہ ہے، جہاں کسی کی بھی برائی کرنے پر خفا ہو جانے والے اس دیوانے لڑکے کے ساے ہیں، جہاں میلے کپڑوں اور ٹوٹی چپل والے چوکیدار کے لئے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دینے والا وہ کم گو کنسلٹنٹ ہے.......
کس کس کا ذکر ہو؟ بے شمار ستاروں کی ایک کہکشاں ہے، جو دل کی دنیا کو جگمگاے رکھتی ہے.
مانا کہ وہاں غم کے ساے ہیں، ظلم و جبر ہے، مایوسی کے بادل ہیں
مگر وہاں وہ سب بھی ہیں جو اندھیری راتوں میں اپنےحصے کے چراغ جلاتے ہیں....
ہاں، اس مادی وجود کو متحرک رکھتی روح تو وہیں تیرتی رہتی ہے.....
انہی فضاؤں میں سانس لیتی ہے، ان کے آنسوؤں کی نمی اپنے رخساروں پر محسوس ہوتی ہے، ان کے غم سے اپنا کلیجہ پھٹتا ہے... اور ان کی خوشی پر اپنا دل جھومتا ہے.
یوں جیسے آئی سی یو کی کھڑکی سے جھانکتے اپنے پیارے کو بیماری کے عفریت سے لڑتا دیکھنے والا اپنے اپ کو لمحہ بہ لمحہ اسی کی طرح تڑپتا اذیتوں میں گھرا محسوس کرتا ہے.
اور اس کی زندگی کی تمنا اپنی زندگی کی قیمت پر کر لیتا ہے.
چمکتی جھلملاتی شور مچاتی دنیاوں میں کچھ دیوانے اپنے دل کے تنہا خاموش ایوانوں میں تمھارے لئے محبّت کے چراغ جلا رہے ہیں......
خدا کرے کہ یہ کچھ روشنی کریں....

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...