آیت الحجاب

 آیۃ الحجاب

سورۂ احزاب کی آیت نمبر 53 آیتِ حجاب کہلاتی ہے۔ 
اس کا آغاز ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّاۤ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ﴾ سے ہوتا ہے۔ اس میں ازواجِ مطہرات سے پردے کے پیچھے سے سوال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
 سورۂ احزاب کی آیت: 55 اور آیت:    59میں پردے کے مزید احکام نازل ہوئے۔ 
یاد رہے کہ پردے کے حکم کا نزول سیدنا عمررضی الله تعالی عنہ کی خواہش پر ہوا تھا۔ انھوں نے اللّٰہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللّٰہ کے رسول! آپ کی ازواجِ مطہرات کے پاس نیک اور برے ہر طرح کے لوگ آتے رہتے ہیں۔ آپ اُنھیں پردے کا حکم دیجیے، لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم حجاب نازل فرمادیا۔
 صحیح بخاری۔ 4483-
سیدنا انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حجاب کا حکم نازل ہوا۔ اس کے بعد جب آپ صلی الله علیہ وسلم واپس تشریف لائے۔ اپنا قدم مبارک کاشانۂ نبوت کے اندر رکھا، دوسرا قدم ابھی باہر تھا تو آپ صلی الله علیہ وسلم  نے میرے اور اپنے (گھر والوں کے) درمیان پردہ لٹکالیا۔  اس وقت سیدنا انس رضی الله عنہ  کی عمر 15 سال کے لگ بھگ تھی۔
پردے کا حکم کب نازل ہوا؟... سیدہ زینب بنت جحش ؓ کا نبی صلی الله علیہ وسلم سے نکاح ذی قعدہ 5 ہجری میں ہوا۔ اور ولیمے کی تقریب کے دوران ہی حکم حجاب نازل ہوا۔ اس سے واضح ہوا کہ پردے کا حکم5 ہجری میں نازل ہوا۔ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد پردے میں ایک واضح فرق آگیا۔ اس فرق کو آپ اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ ؓ کے حسب ذیل واقعے سے جان سکتے ہیں۔ وہ واقعہ افک بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں: میں بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی۔ اتنے میں صفوان بن معطل  رضی الله تعالی عنہ  نے مجھے دیکھا اور پہچان لیا۔ انھوں نے مجھے (حکمِ) حجاب سے پہلے دیکھا ہوا تھا۔ اُنھوں نے مجھے دیکھ کر اناللّٰہ پڑھا تو مجھے جاگ آگئی تو میں نے فوراً اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپا ۔
 صحیح بخاری -4750 
   بہرحال حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد مسلم خواتین اپنے چہرے کو بھی ڈھانپنے لگیں۔ اور حجاب کا حکم نازل ہونے کا مطلب بھی یہی تھا بقیہ جسم تو پہلے ہی ڈھانپا جاتا تھا۔
 اللّٰہ تعالیٰ ہمیں دین کا صحیح فہم ونصب فرمائے۔ آمین!

کہدو کہ اگر سمندر ۔۔۔۔

کہدو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے روشنائی ہو تو قبل اسکے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہو جائے اگرچہ ہم ویسا ہی اور اسکی مدد کولے آئیں ۔ کہدو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ البتہ میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود وہی ایک معبود ہے تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہیے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔
سورۃ کہف آیۃ 109-110

والدین سے حسنِ سلوک۔۔۔۔۔

اور تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اُس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو ۔ اور والدین سے اچھا سلوک کرو ۔ اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو ۔ نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ۔ بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو 
اور محبت و عاجزی کے ساتھ اُن کے لیے اپنے بازو پھیلا دو اور کہو ، " اے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جسطرح انہوں نے رحمت اور شفقت سے مجھے بچپن میں پالا تھا ۔"
سورۃ بنی اسرائیل آیہ ۔23-24

التحیات لله

اور بیان  کیا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب معراج کی رات سدرۃ المنتھٰی سے گزر گئے ۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم کو ایک رنگ و نور کے بادل نے ڈھانپ لیا ۔ جس قدر الله تعالی نے چاہا ۔ 
پھر جبرائیل رک گئے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نہ چلے ۔ 
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔ کیا تم مجھے اکیلا جانے کے لئے کہہ رہے ہو ؟ 
جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی ۔ ہمیں الله تعالی جل شانہ کے مقام معلوم سے آگے بڑھنے کا حق نہیں ۔ 
پس رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تم میرے ساتھ چند قدم ہی چلو ۔ 
پس وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ چند قدم چلے ۔ اور قریب تھا کہ وہ جل کر راکھ ہوجاتے الله جل شانہ کے نور ، جلال اور ہیبت کی تجلی سے ۔ اور وہ چھوٹے ہوگئے اور ذب ہوئے یہاں تک کہ وہ عصفور جتنے ہوگئے 
پھر انہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اشارہ کیا کہ اپنے رب کی خدمت میں سلام پیش کریں جب ملیں اور  گفتگوکے مقام پر ہوں ۔ 
پس جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا اپنے رب سے وصل ہوا ۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے  عرض کی 
التحیاتُ لله ۔۔۔ تمام  زبانی ، بدنی اور مالی عبادات و برکات الله تعالی کے لئے ہیں 
الله جل شانہ نے فرمایا ۔۔۔۔ سلام ہو آپ پر اے نبی اور رحمتیں الله تعالی کی اور اس کی برکتیں ۔
پس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پسند فرمایا کہ اس مقام پر الله کی رحمت میں الله تعالی کے صالح بندوں کا بھی حصہ ہو ۔ چنانچہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے عرض کی  ۔۔۔ ہم پر سلام ہو اور الله تعالی کے نیک بندوں پر سلام ہو ۔ 
پھر تمام آسمانوں والوں نے یعنی فرشتوں نے کہا ۔ 
میں گواہی دیتا ہوں کہ الله تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں  ۔ 

رشتہ ، تعلق

رشتے ناطے اور خاندان الله کریم نے انسانوں کی پہچان کے لئے بنائے ہیں ۔ لیکن کیا چیز ہے جو ان تعلقات کو مضبوطی سے باندھ دیتی ہے ۔ کیوں جب کوئی تعلق ٹوٹتا نظر آئے تو اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ روح تک کانپ اٹھتی ہے ؟ 
شاید یہ روحوں کا تعلق ہے ۔ 
وہ روحیں کہ جن کو اکٹھا کرکے ان کے سامنے اُس مالک الملک نے خطاب فرماتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔
 اَلَسْتُ بِرَبِّکُم 
کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ 
کیا ہمیں وہ وعدہ یاد ہے ؟ 
کہیں ہم نے وہاں کچھ اور وعدے تو نہیں کئے تھے ؟ 
کوئی تو بات ہے ۔۔۔ کچھ تو راز ہے ۔ جس کا بھید ہم پانہیں سکے ۔ 
یونہی تو نہیں الله کریم نے صلہ کو اپنے عرش کے نیچے جگہ دے دی ۔ 
آخر ایسی کیا خاص بات ہے اس کے جوڑے رکھنے میں ۔ 
کہ وہ مالک حقیقی خود فرما رہا ہے ۔ 
جس نے اسے جوڑا اُس نے مجھے جوڑا ۔۔۔ اور جس نے اسے توڑا اس نے مجھ سے ناطہ توڑا ۔ 
یہ صلہ ، یہ رشتہ ، یہ تعلق آخر ہے کیا ؟ 
ماں ، باپ ، بہن بھائی ، شوہر بیوی اور اولاد ۔۔ انہیں کے رنگ ہیں نا سارے ۔۔
پر نہیں ایک اور تعلق بھی ہے ۔ انسانیت کا ، مذہب کا ،  امّت کا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا 
الله کریم نے فرمایا ۔۔۔ الخلق عیال الله  
ساری مخلوق میرا کُنبہ ہے ۔
پھر فرمایا ۔۔ 
یاَیُّھَا الّذینَ آمنو 
اے ایمان والو 
پھر فرمایا 

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور اسکے پیغمبر کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ غالب ہے حکمت والا ہے۔
سورہ توبہ ۔ 
یہ بھی تو رشتے ناطے ہیں ۔ کیا ان کے جوڑنے کا حکم نہیں ۔
یقینا ہے ۔۔ لیکن شاید ہم الله کریم کی بات پر غور نہیں کرتے ۔ توجہ نہیں دیتے ۔ 
تنگ نظری بھی ہماری ایک بڑی بیماری بن چکی ہے ۔ 
اگر الله جل شانہ نے یہ بھی ایک تعلق اور رشتہ نہ بنایا ہوتا ۔۔ اور 
اگر الله رحیم و کریم کو پسند نہ ہوتا ۔۔۔ تو اس کے محبوب نبی صلی الله علیہ وسلم کی محبوب بیوی کبھی امت کی سب سے بڑی استا د اور فقیہہ نہ ہوتیں ۔ 
شاید ہم نے صرف سننےاور پڑھنے ہی کو علم سمجھ لیا ہے ۔ 
شاید ہم حقیقتوں سے بہت دور سرابوں میں بھٹک رہے ہیں ۔
شاید ہمیں بہت کچھ بہت غور اور دھیان سے سوچنے کی ضرورت ہے ۔ 
والله اعلم ۔ 

*حبّ ۔۔۔ محبت ۔۔۔ الله تعالی کی اپنے بندوں سے محبت*


بسم الله الرحمن الرحیم 
الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے 

تو جو رحیم اور کریم ہے اس کی رحمت اور محبت میں کس کو شک ہو سکتا ہے ۔ اس نے انسان کی تخلیق ہی محبت کی بنیاد پر کی ۔ اسے عبادت سے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ لیکن محبت سے ضرور پڑتا ہے ۔ اسی لئے تو الله جل شانہ  کی محبت کے ساتھ اطاعت اور فرمانبرداری کرنے پر اس کی رضا اور چاہت نصیب ہوتی ہے ۔ 

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِين
اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو۔ مگر زیادتی نہ کرنا کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
بقرہ ۔ ۱۹۰ 
لیکن جو زیادتی نہیں کرتے الله کریم ان سے محبت کرتا ہے ۔ 

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو۔ بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
بقرہ ۔ ۱۹۵ 
یعنی محبت کرتا ہے ۔۔۔ حبَّ یُحِبُّ  

وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ
اور جب پیٹھ پھیر کر چلا جاتا ہے تو زمین میں دوڑتا پھرتا ہے تا کہ اس میں فتنہ انگیزی کرے۔ اور کھیتی کو برباد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کر دے اور اللہ فتنہ انگیزی کو پسند نہیں کرتا۔
بقرہ ۲۰۵ 
یعنی جو فتنہ انگیزی نہیں کرتا ۔ الله کریم اس سے محبت کرتا ہے ۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ

اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں کہہ دو وہ تو نجاست ہے سو ایّام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو۔ اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو جس طریق سے اللہ نے تمہیں ارشاد فرمایا ہے ان کے پاس جاؤ کچھ شک نہیں کہ اللہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
بقرہ ۲۲۲ 
 وہ توبہ کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ 

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
 
اللہ سود کو نابود یعنی بے برکت کرتا اور خیرات کی برکت کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا۔

یعنی  الله رحیم و کریم شکر گزار بندے سے محبت کرتا ہے 

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے پیغمبر ﷺ لوگوں سے کہدو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔
آل عمران ۳۱  

اصل تو لفظ محبت ہی ہے ۔ کہ مادہ اس کا حبّ یُحِبُّ ہے ۔ اب اس سے مطلب جو آسان لگے نکال لو ۔ 
اچھی سمجھ اور فہم تو عربی میں ہی آتا ہے ۔ اس لئے کم ازکم قرآن کی عربی ضرور سیکھو ۔ 

ملازموں کے معاملے میں الله جل شانہ کا ڈر

الله کے پیارے  رسول صلی الله علیہ وسلم نے غلاموں کے معاملے میں بہت نرمی کرنے کا حکم فرمایا ۔۔۔ 
اگرچہ ہمارے ہاں غلاموں کا رواج نہیں بلکہ یہ عرب معاشرے کا رواج تھا لیکن یہی اصول ملازموں کے لئے ہے 
خاص طور پر گھروں میں جو ملازم رکھے جاتے ہیں ان کے معاملے میں الله جل شانہ سے ڈرنا چاہئیے ۔ 
سب سے بڑا مسئلہ ان کو اجرت یا تنخواہ دینے کا ہے ۔ 
ہمارے معاشرے میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ الله کے نام پر دینے کے لئے فورا تیار ہو جاتے ہیں ۔ لیکن دوسرے کا جائز حق اسے نہیں دیں گے اس میں سو بہانے اور دلیلیں گھڑی جاتی ہیں ۔ 

سب سے بہتر اور پسندیدہ طریقہ وقت کے حساب سے پیسے طے کرنا ہے ۔ گھروں میں کام کرنے والی عورتوں سے فی گھنٹہ معاوضہ طے کرنا چاہئیے ۔ اور ماہانہ معاوضہ مقرر کرتے وقت ایک لمحہ رُک کر اس کی ایک گھنٹے کی مزدوری کا حساب ضرور کر لینا چاہئیے ۔ کہ وہ ایک دن  میں کتنے گھنٹے کام کرے گی اور ہر گھنٹے کے کام کے بدلے اسے کم از کم کتنی رقم ملے گی ؟ اور روز آنے جانے کا کرایہ اس کی اجرت میں شامل ہوگا یا نہیں ؟ اگر کھانے کے اوقات میں وہ اپ کے گھر موجود ہو تو اس کا کھانا کیا اجرت میں شامل ہے یا نہیں  ؟  اور اس کا لباس اور رہنے کی جگہ کا کیا حساب ہے ؟ ہر چیز ذہن میں رکھ کر ملازموں سے اجرت طے کرنی چاہئیے ۔ 
کئی کئی گھنٹوں تک مسلسل کام کروایا جاتا ہے اور مزدوری وہی مہینے کی مقرر کردہ ۔ 
اس معاملے میں ضرور بالضرور الله تعالی کو حساب دینا پڑے گا ۔ اور اس معاملے کو لاپرواہی کی نذر نہیں کرنا چاہئیے ۔ خوب دیکھ بھال کر معاوضہ طے کرنا چاہئیے ۔ ملازموں کے حقوق کے معاملہ میں الله جل شانہ سے ڈرنا چاہئیے ۔ 

پھر اگر کام کے دوران کھانے کا وقت ہوجائے ۔ تو اسے وہی کھانا کھلانا چاہئیے جو آپ خود کھاتے ہیں ۔ 
ملازمہ اگر کھانا مانگ لے تو اسے فرج سے پرانا سالن نکال کر نہیں دینا چاہئیے ۔ تازہ کھانا اسے کھلائیں اور بچا ہوا کھانا اگر اسے گھر کے لئے اس کے بچوں کے لئے دے دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ۔ 

بہت سے گھروں میں ملازموں سے بہت ہتک آمیز سلوک کیا جاتا ہے ۔ ایک لمحہ کے لئے اگر سوچا جائے کہ آپ میں وہ کیا خاص بات ہے کہ آپ مالک کی جگہ ہیں اور وہ ملازمہ ۔۔۔ کچھ بھی نہیں بلکہ بعض اوقات وہ ظاہری حسن میں آپ سے اوپر ہوتی ہیں یہ الله کریم کا انعام ہے کہ اس نے آپ کو مالک اور اسے نوکر بنایا ۔ اور اس مالک الملک کے اس احسان کا شکر کرنے کے لئے آپ کا فرض ہے کہ آپ اپنے ملازموں سے اچھا سلوک کریں ۔ اور ہر معاملے میں احتیاط سے کام لیں ۔

اپنے پرانے کپڑے اور بے کار و  ردی چیزیں  دے کر اس پر احسان مت کریں ۔ بلکہ اس کے شکر گزار ہوں کہ وہ آپ کے گھر کی صفائی کا کام کر رہی ہے ۔ 
یہ گمان کرنا کہ یہ پرانی چیزیں ہم اس کو الله واسطے دیتے ہیں سخت زیادتی اور بے ادبی کا خیال ہے ۔ کیا الله کی راہ میں استعمال شدہ کپڑے اور ردی اشیاء دینے کا کوئی اجر ہو سکتا ہے ؟ 

وہ مالک الملک تو فرماتا ہے کہ تم نیکی کے درجے کو نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی بہترین چیز میری راہ میں خرچ نہیں کرو گے 
اس لئے انہیں کبھی نئے کپڑے اور کبھی نیا جوتا خرید کر ضرور دینا چاہئیے ۔

پھر اپنے بچوں کو بھی ان گھر میں کام کرنے والے ملازموں اور بچیوں سے اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کرتے رہنا چاہئیے ۔ اور انہیں ڈرانا چاہئیے کہ ان کی جگہ تم بھی ہو سکتے تھے ۔ کیونکہ بچے خوامخواہ ملازموں سے چڑتے اور ان سے برا سلوک کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ان سے پیار محبت اور نرمی کا معاملہ رکھنے کی سختی سے ہدایت کرنی چاہئے ۔ 

جس طرح انسان اپنے اھل و عیال کی اچھی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ہے اور الله جل شانہ کے سامنے جواب دہ ہے اسی طرح اپنے زیر اثر کام کرنے والوں کا بھی کسی حد تک ذمہ دار ہے ۔ تھوڑا سا وقت نکال کر انہیں دین و دنیا کی بنیادی تعلیم سے ضرو بالضرو آگاہ کرنا چاہئیے ۔ 

کم ازکم اپنے گھر کام کرنے والی بچیوں اور بچوں کو قرآن مجید پڑھا دیں ۔ نماز سکھا دیں ۔ اردو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تھوڑا بہت حساب کتاب کرنا بتا دیں ۔ تو یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے جو آخرت کا سامان ہے ۔ 

اگر کسی بچی کو سلائی سے دلچسپی ہو اسے سلائی سکھائیں ہنر مند بنائیں ۔ ان کی آئندہ زندگی کی آسانی کا سبب بنیں 

الله کریم بڑا بے نیاز اور غیرت والا ہے ۔ صرف اس کی خوشی کے لئے اس کے بندوں سے اچھا سلوک کریں وہ آپ کے پیاروں کے لئے خوشیاں اور سکون بن مانگے آپ کی جھولی میں ڈال دے گا 
آزمائش شرط ہے ۔۔۔ ضرور آزمائیں 

درود شریف صحیح احادیث کی روشنی میں ۔۔۔۔📌

📌درود شريف صحيح احاديث كي روشني ميں..

🌴 ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم کو مالک بن انس نے خبر دی ۔ انہیں عبداللہ بن ابی بکر بن محمد بن عمر و بن حزم نے ‘ انہیں ان کے والد نے ‘ انہیں عمرو بن سلیم زرقی نے ‘ انہوں نے کہا مجھ کو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو 
” اے اللہ ! رحمت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیسا کہ تو نے رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور اپنی برکت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں اور اولاد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر ۔ بیشک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ ـ رضى الله عنه ـ أَنَّهُمْ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم

 " قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ".

صحيح بخارى، كتاب احاديث الانبياء، حديث # 3369

🌴 عبداللہ بن عیسیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کیوں نہ تمہیں ( حدیث کا ) ایک تحفہ پہنچا دوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ۔ میں نے عرض کیا جی ہاں مجھے یہ تحفہ ضرور عنایت فرمائیے ۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا یا رسول اللہ ہم آپ پر اور آپ کے اہل بیت پر کس طرح درود بھیجا کریں ؟ اللہ تعالیٰ نے سلام بھیجنے کا طریقہ تو ہمیں خود ہی سکھا دیا ہے ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو 
” اے اللہ ! اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جیسا کہ تو نے اپنی رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم علیہ السلام پر ۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بزرگی والا ہے ۔ اے اللہ ! برکت نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر ۔ بیشک تو بڑی خوبیوں والا اور بڑی عظمت والا ہے ۔

حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالاَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قُرَّةَ، مُسْلِمُ بْنُ سَالِمٍ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِيسَى، سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، قَالَ لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ فَقَالَ أَلاَ أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ، صلى الله عليه وسلم فَقُلْتُ بَلَى، فَأَهْدِهَا لِي. فَقَالَ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ. قَالَ  

" قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ ".

صحيح بخارى، كتاب احاديث الانبياء، حديث # 3370

درود شریف

 اللھھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید 
اللھم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم و علی آل ابراھیم انک حمید مجید 

*نماز میں نیت کی اہمیت*


نماز ادا کرنے سے پہلے اس کی نیت کرنی ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى
 (صحیح البخاری کتاب البدء الوحی، حدیث نمبر1)
"اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی"

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے “روضۃ الطالبین” میں لکھا ہے کہ" نیت کا مطلب ارادہ کرنا ہے۔ نماز کی نیت تکبیر تحریمہ کہتے وقت کی جانی چاہیے یعنی نمازی اس وقت اپنے ذہن میں خیال کرے کہ وہ کون سی نماز ادا کرنے جا رہا ہے ، مثلا یہ کہ نماز کی رکعات کتنی ہیں اور وہ ظہر کی نماز ہے یانفل نماز ہے وغیرہ"

زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے۔ لوگوں میں زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں مثلًا “نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف” وغیرہ ان کے بدعت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ انہوں نےاس کے اچھا یا برا ہونے میں اختلا ف کیا ہے۔ 


*نماز میں نیت کے ظاہری و باطنی آداب*

نماز میں نیت کا ظاہری ادب یہ ہے کہ نمازی جہاں کہیں نماز ادا کرنا چاہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنے پورے جسم کو قبلہ رخ کر لے اور فرض یا نفل جس نماز کا ارادہ رکھے دل سے اس کی نیت کرے زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بہتر ہے خواہ کسی زبان میں ہو تاکہ دل اور زبان دونوں میں موافقت ہو جائے۔ 

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : 

’’آدمی مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کا دل زبان کے ساتھ اور زبان دل کے ساتھ برابر نہ ہو۔‘‘

منذری، الترغبب والترهيب، 1 : 75، رقم : 223

نیت کے بغیر نماز عام حرکات و سکنات کا مجموعہ تو ہو سکتی ہے لیکن اسے نماز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نیت اس قلبی کیفیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ جو باطنی ادب، مشاہدہ جمال محبوب اور اس کی حضوری کی تڑپ و لگن سے عبارت ہے اور یہی طالب حق کی آخری منزل ہے۔ یہی اضطراب و بے قراری اس منزل کی طرف عاشق کو سرگرم سفر رکھتی ہے جو اس کا منتہائے مقصود ہے۔ 

نماز کی نیت کے لیے کوئی مخصوص الفاظ نازل ہوئے نہ ہی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیان ہوئے ہیں کہ لازمی
یہی الفاظ بولنے ہیں۔۔۔
 منہ سے الفاظ بولنا بھی ضروری نہیں ہیں۔ طریقہ کار صرف یہ ہے کہ آپ جس وقت کی نماز ادا کرنے لگے ہیں، اس کا ارادہ کریں۔ 
نیت دل کے ارادے کا نام ہے، یعنی آپ کے دل میں ہونا چاہیے کہ آپ کون سی نماز (فجر، ظہر، عصر، مغرب یا عشاء) ادا کرنے لگے ہیں؟
 کتنی رکعت؟ فرض، واجب، سنت مقتدی ہیں یا امام؟
 آپ کا منہ قبلہ رخ ہے یا نہیں؟ 
یہ تمام باتیں منہ سے کہہ دے تو مستحب ہے نہ بھی کہے تو نماز ہو جاتی ہے۔
 جس زبان کا بھی ہو وہ الفاظ میں یہ باتیں دل میں رکھتا ہو تاکہ وہ ہوش میں ہو اور اسے معلوم ہو وہ کیا کرنے لگا ہے؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آپ نماز تو ادا کر لیں لیکن آپ کو معلوم ہی نہ ہو کہ کون سی نماز ادا کی ہے؟ المختصر یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کون سی نماز کتنی رکعات ادا کر رہے ہیں؟ اس کے کوئی مخصوص الفاظ نہیں ہیں۔

*فرض، واجب، سنت اور نفل نمازوں کی نیت*

نیت دل کے ارادہ کا نام ہے صرف دل سے نماز کی نیت کر لینا کافی ہے لیکن اگر زبان سے کہہ لے تو بھی درست اور باعثِ ثواب ہے۔ 

فرض نماز کی نیت

میں نیت کرتا / کرتی ہوں چار رکعت فرض نماز ظہر کی، واسطے اﷲ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف (اگر امام کے پیچھے ہوں تو پھر کہا جاے پیچھے اس امام کے) اَﷲُ اَکْبَر. 

سنت نماز کی نیت

میں نیت کرتا / کرتی ہوں چار رکعت سنت نماز عصر کی، واسطے اﷲ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے اَﷲُ اَکْبَر. یہ سنتیں غیر موکدہ ہیں۔ 

نفل نماز کی نیت

میں نیت کرتا / کرتی ہوں دو رکعت نفل نماز عشاء کی، واسطے اﷲ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے، اَﷲُ اَکْبَر.

واجب نماز کی نیت

میں نیت کرتا / کرتی ہوں تین رکعت وتر نماز عشاء کی، واسطے اﷲ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف کے، اَﷲُ اَکْبَر.

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

*افلحت الوجوہ*


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آقا علیہ السلام اپنے جانثار صحابہ کی مجلس میں تشریف فرما تھے، چودھویں کے روشن چاندکے گرداگرد ستاروں کی حسین محفل۔۔۔ ایک قتل کا مقدمہ درپیش تھا، ایک باندی کو کسی نے قتل کردیا تھا اور قاتل کا کچھ پتہ نہ تھا، مقدمہ کی صورت حال پیچیدہ ہورہی تھی، جب کسی طرح قاتل کا نشان معلوم نہ ہوا تو آقا علیہ السلام نے اہل مجلس سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"انشد اللہ رجلا لی علیہ حق فعل ما فعل الا قام"
"جس شخص نے بھی یہ کام کیا ہے، اور میرا اس پر حق ہے تو اسے میں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے"
آقا علیہ السلام کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر ایک نابینا شخص اس حالت میں کھڑا ہوگیا کہ اس کا بدن کانپ رہا تھا، اور کہنے لگا کہ: 
"یارسول اللہ میں اس کا قاتل ہوں، یہ میری ام ولد تھی اور اس کی میرے ساتھ بہت محبت اور رفاقت تھی، اس سے میرے دو موتیوں جیسے خوبصورت بچے بھی تھے، لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کیا کرتی اور آپ کو برا بھلا کہا کرتی تھی، میں اسے روکتا مگر یہ نہ رکتی، میں اسے دھمکاتا پریہ باز نہ آتی۔ کل رات اس نے آپ کا ذکر کیا اور آپ کی شان اقدس میں گستاخی کی تو میں نے ایک چھری اٹھائی اور اس کے پیٹ پر رکھ کر اس چھری پر اپنا بوجھ ڈال دیا یہاں تک کہ یہ مر گئی"
نابینا صحابی یہ سارا واقعہ سنا کر خاموش ہو چکے تھے۔
معاملہ بہت نازک اور کیس سیدھا سیدھا "دہشت گردی" بلکہ "فوجی عدالت" کا تھا۔
ایک شخص نے "قانون ہاتھ میں لے لیا تھا۔"
"از خود مدعی اور از خود جج" بنتے ہوئے ایک انسان کو قتل کردیا تھا۔۔
"حکومت کی رٹ" چیلنج ہوچکی تھی۔
حکومت بھی کسی راحیل، پرویز، زرداری یا نواز کی نہیں، خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔۔۔ 
"محض مذہبی جذبات" کی بناء پر ایک انسان کو قتل کیا جاچکا تھا۔
عدالت میں کوئی کیس، تھانے میں کوئی رپٹ درج کرائے بغیر۔۔۔۔۔!!
"مذہبی جنونیت" کی روک تھام شاید بہت ضروری تھی اور "جذباتیت" کا قلع قمع بھی۔۔۔۔
پھر وہ لب ہلے جو "ان ھو الا وحی یوحی" کی سند لئے ہوئے تھے۔
جن کا ہلنا بھی وحی، جن کا خاموش رہنا بھی وحی تھا، جن سے نکلے ہوئے الفاظ قیامت تک کے لئے قانون بن جاتے تھے، جن کا غصہ بھی برحق اور جن کا رحم بھی برحق تھا، جو جان بوجھ کر باطل کہہ نہیں سکتے تھے اور خطا پر ان کا رب ان کو باقی رہنے نہیں دیتا تھا۔۔۔۔!!
سب کان ہمہ تن گوش تھے
فضاء میں ایک آواز گونجی، وہی آواز جو سراہا حق تھی۔۔۔
"الا۔۔۔! اشھدوا۔۔۔! ان دمھا ھدر"
"سنو۔۔۔! گواہ ہو جاؤ۔۔۔۔! اس لونڈی کا خون رائگاں ہے"
(اس کا کوئی قصاص نہیں)
(سنن نسائی، ابو داؤد، سندہ صحیح)

ہمارے ہاں عموما یہ ذہن پایا جاتا ہے کہ کسی بھی جرم پر سزا دینے کا اختیار صرف اور صرف حکومت کے ہاتھ میں ہے اور عوام الناس اس معاملے میں بالکل ہی بے اختیار ہیں، یہ بات اکثر معاملات میں صحیح  ہونے کے باوجود من کل الوجوہ درست نہیں، بہت سے معاملات ایسے بھی ہیں جہاں اللہ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلامی قانون نے عام شہریوں کو بھی "قانون ہاتھ میں لینے" کا اختیار دیا ہے۔
1: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"من اطلع فی دار قوم بغیر اذنھم ففقاؤا عینہ فقد ھدرت عینہ"
"جس شخص نے کسی قوم کے گھر میں جھانکا اور انہوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو اس کی انکھ ضائع ہے، اس کا کوئی قصاص نہیں"
(رواہ ابو داؤد وسندہ صحیح)
یہاں غیرت میں آکر کسی کی آنکھ پھوڑدینے والے کے لئے معافی کا اعلان ہے جبکہ اس کی اشارتا بھی کوئی ہلکی سی مذمت نہیں کی گئی۔

2: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من قتل دون مالہ فھو شھید ومن قتل دون دمہ فھو شھید ومن قتل دون دینہ فھو شھید و من قتل دون اھلہ فھو شھید"
"جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے، جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے، جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے، جو شخص اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شھید ہے"
(بخاری، جامع الصغیر)
یعنی اپنے مال، جان، عزت اور دین کی خاطر از خود ہتھیار اٹھا کر کسی سے لڑنے کے جائز ناجائز ہونے کی بحث کے بجائے اسے لڑتے لڑتے مرجانے کی ترغیب اور اس پر شھادت کی عظیم خوش خبری سنائی جارہی ہے۔ یہی بات اس سے بھی واضح الفاظ میں:

3: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: 
"یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص مجھ سے میرا مال چھیننا چاہے تو آپ کیا فرماتے ہیں؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فلا تعطہ"
"اسے نہ دو!"
اس نے عرض کیا:
"اگر وہ مجھ سے لڑے تو؟"
فرمایا کہ: "تم بھی اس سے لڑو!"
اس نے کہا: "اگر وہ مجھے قتل کردے تو؟"
فرمایا کہ: "تو شھید ہے"
عرض کیا کہ: "اگر میں اسے قتل کردوں تو؟"
فرمایا کہ: "وہ جھنم میں جائے گا"
(صحیح مسلم)
یعنی اس شخص کو ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہنے کے بجائے خود اس دشمن سے محض مال کی خاطر لڑنے کی ترغیب دی جارہی ہے، اور اس لڑائی میں مارے جانے پر شھادت کی نوید سنائی جارہی ہے۔

(جب محض مال کی خاظر ہتھیار اٹھانے، لڑنے اور مرنے  مارنے کی اجازت ہے تو ناماوس محمد عربی کیا مال سے بھی گئی گذری چیز ہے؟؟؟ جب اپنے گھر میں جھانکنے والے کی آنکھ پوڑ دینے پر کوئی گناہ نہیں تو رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی کیا ہماری عورتوں جتنی بھی وقعت نہیں؟؟ عبرت! عبرت!)

احادیث و فقہ میں اس قسم کی بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں، سمجھنے اور ماننے والے کے لئے اتنی بھی کافی ہیں، ضدی اور ہٹ دھرم پر قرآن کی آیات کا بھی کوئی اثر نہیں، اللہ جل شانہ ماننے کی توفیق عطاء فرمائیں۔
سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس و عزت کا مسئلہ اس قدر حساس ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے آج کے زمانے تک کبھی مسلمانوں نے اس میں کسی مداھنت و نرمی سے کام نہیں لیا، جب بھی کسی گستاخ نے اپنی بدبختی سے ناموس محمد عربی پر ذرا بھی داغ لگانے کی کوشش کی ہے، اکثر و بیشتر کسی نہ کسی غیرت مند مسلمان نے کسی قانونی کاروائی کا تکلف کئے بغیر فی الفور اسے جہنم کا راستہ دکھا دیا ہے، ایسے ملعونین کو، چاہے وہ کعب بن اشرف اور ابو رافع کی طرح معاھد ہوں، یا ابن خطل کی طرح حربی، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی عدالتی کاروائی اور گواہوں کے بغیر اپنے جانثاروں کے ذریعے ٹھکانے لگوایا ہے اور امت امسلمہ کا ہرزمانے کا تعامل بھی یہی چلا آرہا ہے، یہ امت ہر بات پر صبر اور سمجھوتہ کرسکتی ہے لیکن ناموس محمد عربی پر نہ کیا ہے اور نہ کرسکتی ہے۔ تاریخ اسلام میں آپ کو شاید ایسا ایک واقعہ بھی نہ ملے کہ کسی مسلمان نے طیش میں آکر از خود کسی چور کا ہاتھ کاٹ کر اس پر حد جاری کردی ہو، یا زنا کے واقعے پر عدالتی کاروائی کے بغیر کسی کو کوڑے یا رجم کی سزا دے دی ہو، یا شراب پینے پر کسی پر حد جاری کردی ہو۔۔۔۔ لیکن توہین رسالت کے مسئلہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے اب تک ایسے واقعات کی سینکڑوں نہیں تو بیسیوں مثالیں بے تکلف پیش کی جاسکتی ہیں۔

اشکال: اگر گستاخ رسول کو از خود قتل کرنے کا فتوی دے دیا جائے تو پھر تو کوئی بھی شخص کسی کو بھی قتل کرکے اسے گستاخ رسول قرار دے دے گا، اور یوں لوگ اس فتوے کی آڑ میں قتل و غارت کا بازار گرم کردیں گے۔
جواب: توہین رسالت کی بنیاد پر کسی کو قتل کردینے والے سے مقتول کی توہین کا ثبوت طلب کیا جائے گا، اگر وہ ثبوت پیش کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اسے باعزت بری کردیا جائے گا اور اگر وہ ثبوت فراہم نہ کرسکا تو دنیا میں اسے قصاصا قتل کیا جائے گا لیکن اگر وہ اپنی بات میں سچا ہے اور اس نے محض شک و شبہے کی بنیاد پر نہیں بلکہ قطعی یقین کی بنیاد پر یہ قدم اٹھایا ہے تو وہ عند اللہ شھید ہی ہوگا۔
اشکال: اگر توہین رسالت پر از خود قتل کرنے والے سے توہین کا ثبوت طلب کرنا ضروری ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے گواہ کیوں طلب نہیں کئے؟
جواب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی اس کی صداقت کا علم ہوچکا تھا، لہذا گواہی قائم کرنے کی ضرورت نہ تھی۔
سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی تو موجب قتل ہے لیکن کسی قانون کی گستاخی تو موجب قتل نہیں۔
جواب: ناموس رسالت کے قانون کو کالا قانون کہنا، گستاخ رسول کو علی الاعلان تحفظ فراہم کرنا اور پوری قوم کے سامنے یہ اعلان کرنا کہ اگر عدالت نے اس مجرم کو سزا دے بھی دی تو میں اسے صدر سے معافی دلاؤں گا، اس کا مطلب کہ یہ شخص صرف گستاخ نہیں بلکہ ملک کے سارے گستاخوں کا باپ اور پشت پناہ ہے، یہ ملعونین کے اس ٹولے کا سرپرست اور مددگار ہے، جب تک اس شخص کا قصہ پاک نہیں کیا جاتا تب تک کسی بھی گستاخ رسول کو کسی قسم کی سزا ملنا ممکن نہیں۔۔۔۔ تعجب کی بات ہے کہ اگر عوام کے قتل اور دہشت گردی کے معاملے میں صرف قاتل نہیں بلکہ اس کو ٹھکانہ و مالی مدد فراہم کرنے والوں کو بھی بلا تردد بے دریغ تختہ دار پر لٹکایا جاسکتا ہے تو گستاخان رسول کے اس کھلے سہولت کار و مددگار کو شرعی سزا دینے پر کیا اشکال و اعتراض ہے؟
ایک بدفہم کا ڈھکوسلہ: حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر تہمت لگا کر (نعوذ باللہ) گستاخی رسول کا ارتکاب کیا تھا، انہیں سزا کیوں نہیں دی گئی؟
جواب: بدعقلی و بے وقوفی سے اللہ ہی نجات دے تو دے، قذف اور گستاخی میں فرق ہے، بعض مخلص صحابہ کرام منافقین کے پروپیگنڈے کے زیر اثر آکر غلط فہمی کی بناء پر ام المومنین رضی اللہ عنھا پر تہمت میں شریک ہو گئے تھے جس پر ان پر حد قذف جاری کی گئی تھی، گستاخی کرتے تو گستاخی کی سزا دی جاتی، اور یہ بھی ملحوظ رہے کہ اگر ملعون شیطان تاثیر کو لاہور کے مال روڈ پر قمیص اتار کر اسی کوڑے ہی کی سزا دے دی جاتی تب بھی ممتاز قادری والا واقعہ ہر گز رونما نہ ہوتا، مگر وہ کھلے عام پاگل بیل کی طرح ڈکراتا رہا اور قانون بھنگ پی کر دھت سویا رہا یہاں تک کہ ایک مرد مجاھد نے اس کا اسی طرح فیصلہ کیا جیسے اس امت کے مرد مجاھد ہمیشہ کرتے ائے ہیں۔
نوٹ: ام المومنین رضی اللہ عنھا کی برات میں آیات نازل ہوجانے کے بعد اب اگر کوئی شخص ان پر تہمت لگاتا ہے تو اسے قذت کی نہیں بلکہ قرآن کے انکار کی بناء پر ارتداد کی سزا دی جائے گی۔
نکتہ: اگر کوئی معاھد یا ذمی کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے تو بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ چونکہ یہ پہلے سے کافر ہے اور اس کے کفر کے باوجود اسے امان دی گئی ہے تو یہ امان توہین رسالت کی بناء پر ختم نہیں کی جائے گی، لیکن صحابہ کرام، تابعین، جمہور فقہاء اور احناف کے مفتی بہ قول کے مطابق توہین رسالت کی جسارت سے ذمی کا ذمہ اور معاھد کا عھد ختم ہوجاتا ہے اور وہ کعب بن اشرف اور ابو رافع کی طرح قتل کا مستحق ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ معمولی سا اور ناقابل التفات اختلاف بھی صرف ذمی اور معاھد کے بارے میں ہے، اگر کوئی مسلمان توہین رسالت کا مرتکب ہو توبقول علامہ خطابی بالاتفاق وہ مرتد ہوجاتا ہے اور اس کے قتل کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند چانثار صحابہ جب گستاخ رسول سلام ابن ابی الحقیق کو واصل جہنم کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار مبارک میں فائز و کامران ہوکر پہنچے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، ان غازی جانبازوں پر نظر پڑتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"افلحت الوجوہ"
"یہ چہرے کامیاب ہو گئے"
جبکہ غزوہ بدر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک مٹھی ریت اٹھا کر کفار کی طرف پھینکی تو یہ فرمایا:
"شاھت الوجوہ"
"یہ چہرے برباد ہو گئے"
الحمد للہ آج غازی ممتاز حسین قادری شہید کے مبارک چہرے، اور محض عشق رسول کی بناء پر ان کی زیارت کے لئے آئے ہوئے خوش نصیب چہروں کو دیکھ کر "افلحت الوجوہ" کا نظارہ سامنے آگیا۔۔۔۔ اور "شاھت الوجوہ؟" یہ کون سے چہرے ہیں؟ ایک چہرہ تو وہی جو اس مرد مجاہد کے ہاتھوں عبرت ناک انجام کو پہنچا تھا، اور باقی بہت سارے منحوس چہرے، کچھ پینٹوں والے، کچھ داڑھیوں والے، جو ایک ملعون کی حمایت اور ایک مرد مجاھد کے تمسخر و استھزاء کی خاطر اپنے پلید قلم اور اپنی بدبودار زبانوں سے ہر طرف نجاست پھیلارہے ہیں۔۔۔۔۔
Copy from,  ahsan khuddami page.

*سنت مؤکدہ کا اہتمام بھی ضروری ہے*

حضرت ام حبیبہ رضی الله تعالی عنھا سے روایت ہے ۔ کہ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ! مفہوم ۔۔۔ 
جو شخص دن رات میں بارہ رکعت نماز پڑھے گا جنت میں اس کے لئے ایک گھر بنایا جائے گا ۔ 
وہ بارہ رکعات یہ ہیں ۔۔۔ 
چار رکعات ظہر سے پہلے اور دو رکعات ظہر کے بعد 
دو رکعات مغرب کے بعد 
دو رکعات عشاء کے بعد 
اور دو رکعات نماز فجر یعنی صبح کی نماز سے پہلے ۔ 
ترمذی ۔ ص۸۱ ۔ج-۱ 
فرض نمازوں کے بعد جو سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ پڑھی جاتی ہیں ان کی بھی بڑی فضیلت آئی ہی ۔ 
خاص کر مؤکدہ ( جن کی تاکید کی گئی ہو ) ۔ سنتوں کا خوب اہتمام کرنا چاہئیے ۔ 
اس حدیث کوروایت کرنے والی نبی آخر الزماں رسول الله صلی الله وسلم کی بیوی ہیں ۔ انہوں نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ۔

ولو کنتم فی بروج


ایک دن سلیمان علیہ السلام چاشت کے وقت ایک مجلس میں بیٹھے تھے ۔ آپ کے پاس آپ کا وزیر بھی بیٹھا تھا 
 ایک آدمی آیا ۔ سلام کیا اور سلیمان علیہ السلام سے باتیں کرنے لگا 
اس نے وزیر کی طرف بڑے غصے سے دیکھا ۔ وزیر ڈر گیا
 وہ آدمی چلا گیا تو وزیر کھڑا ہو گیا اور سلیمان علیہ السلام سے پوچھنے لگا
‘‘ اے اللہ کے نبی ! یہ آدمی جو ابھی گیا ہے ، کون تھا ؟ اللہ کی قسم اس کی نگاہ نے مجھے خوفزدہ کر دیا ہے
 ’’ سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ یہ ملک الموت تھا اور آدمی کی شکل میں میرے پاس آیا تھا ۔
 وزیر بہت سراسیمہ ہوا ۔ وہ رو پڑا اور کہنے لگا : ‘‘ اے اللہ کے رسول ! میں آپ کو اللہ کا واسطہ دیتا ہوں اور آپ سے التجا کرتا ہوں کہ ہوا کو حکم دیں کو وہ مجھے ایک دور دراز جگہ ملک ہند میں پہنچا دے ۔
 ‘‘ سلیمان علیہ السلام نے حکم دیا تو ہوا نے اسے اٹھا لیا ۔ 
دوسرے دن ملک الموت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پھر آیا ۔ اس نے انھیں اسی طرح سلام کیا جس طرح پہلے کرتا تھا ۔سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے کہا :
 ‘‘ کل تم نے میرے وزیر کو ڈرا دیا ۔ تم نے اس کی طرف تیز نظروں سے کیوں دیکھا ۔ 
’’ موت کا فرشتہ کہنے لگا : ‘‘ اے اللہ کے نبی ! میں آپ کے پاس چاشت کے وقت آیا ۔ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں اس شخص کی روح کو ظہر کے بعد ہندوستان میں قبض کروں ۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ وہ شخص تو آپ کے پاس بیٹھا ہے ۔’’ سلیمان نے پوچھا : پھر تم نے کیا کیا ؟ ’’ موت کے فرشتے نے جواب دیا : ‘‘ میں وہی جا پہنچا جہاں مجھے اس کی روح قبض کرنے کا حکم تھا ۔ ’’
وہاں وہ میرا منتظر تھا ، میں نے فورا اس کی روح قبض کر لی ۔ 

مصنف ابن ابی شیبہ، حلیۃ الاؤلیاء و کتاب الزھدلأحمد

جشن نو روز

جشن نو روز ۔۔۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے اس سے مراد نئے دن کا جشن ہے ۔ یہ شیعہ حضرات کا مخصوص تہوار ہے وہ یہ تہوار کیوں مناتے ہیں اس کی اصل کیا ہے ؟ 
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ جس دن حضرت علی نے خلافت کی باگ دوڑ سنبھالی ان کے الفاظ میں وہ تخت نشین ہوئے وہ ایک انتہائی مبارک ساعت تھی ۔ اس وقت تمام کائنات تھم گئی گویا ختم ہوگئی اور مولا علی ( ان کے الفاظ ) کے تخت نشیں ہونے سے کائنات دوبارہ وجود میں آئی ۔ 
 اگرچہ وہ اس اس دن کے بارے میں عام مسلمانوں سے یہ کہتے ہیں کہ اس دن آدم کی تخلیق ہوئی یا سات آسمانوں کو پیدا کیا گیا ۔ 
پھر انکا یقین ہے کہ جشن نوروز جو ہر سال اکیس مارچ کو منایا جاتا ہے اس دن کے چوبیس گھنٹوں میں ایک گھڑی ، ایک ساعت ایسی ہے جب تمام کائنات تھم جاتی ہے ۔ اور ایک پل رُکی رہنے کے بعد دوبارہ کائنات کی ہر چیز واپس اپنی اصل حالت میں آ جاتی ہے ۔ 
اس کو ثابت کرنے کے لئے 
ان کے اہل علم و عقیدہ باقاعدہ ایک برتن لے کر اس میں پانی بھر دیتے ہیں ۔ اور اس میں ایک گلاب کا کِھلا ہوا پھول ڈال دیتے ہیں جو پانی میں ٹہر جاتا ہے ۔ اور اس کا مشاھدہ کرتے ہیں ۔ ان کے حساب سے جب وہ ساعت آتی ہے تو پھول تھوڑا سا آگے ہو کر پھر پیچھے جاتا ہے ۔ جیسا کہ چلتی ہوئی گاڑی کو بریک لگایا جائے تو انسان جھٹکا کھا کر آگے ہوتا ہے اور پھر پیچھے جاتا ہے ۔ چنانچہ اُن کے صاحب علم لوگ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم اس کا مشاھدہ کرتے ہیں کہ ہر سال ایسی گھڑی یا ساعت ضرور آتی ہے ۔ 
اسی لئے ان کے مذہب میں جشن نوروز کو بڑی اھمیت حاصل ہے ۔ اس کو ثابت کرنے کے لئے وہ ایک حدیث بھی بیان کرتے ہیں ۔ جس کی سند امام جعفر صادق تک پہنچاتے ہیں ۔ 
بلکہ شیعہ حضرات جو بھی احادیث بیان کرتے ہیں ان کی اسناد امام جعفر صادق پر جا کر ختم ہو جاتی ہیں گویا ان کے نزدیک جو بات امام صاحب نے بیان کر دی وہ ہی حدیث ہے ۔
 اور ان کی احادیث کا تعلق رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نہیں ہوتا ۔ 
یہ تمام باتیں عام لوگوں میں نہ بتائی جائیں ۔ لیکن ہم سب کو اس فتنے کا علم ہونا چاہئیے ۔
اور جب کوئی سوال کرے تب اسے خبردار کرنا چاہئیے ۔ اس پر عام بحث کرنے کا مطلب اس رواج کو تقویت اور رواج دینا ہو جاتا ہے ۔ اور ہم ایسا کرکے نادانستہ شیطان کا آلہ کار نہیں بننا چاہتے ۔ 
 جب شیعوں کے پاس  اہل سنت کا کوئی شخص ہو تو وہ اہل بیت صلی الله علیہ وسلم کا خوب ذکر کرتے ہیں اور ان سے محبت جتا جتا کر روتے ہیں ۔ لیکن جب صرف ان کے اپنے لوگ ہوں تو اس مجلس میں اماں عائشہ علیھا السلا م اور صحابہ کی شان میں کستاخیاں کرتے ہیں اور کھلی گالیاں دینے سے نہیں ججھکتے ۔ شیعہ پورے کافر ہیں ان کا کلمہ الگ ، ان کی اذان الگ ۔ ان کی نمازیں الگ 
ان سے بھی بہت خبردار رہنے کی ضرورت ہے 
شاید آٹھویں یا نویں کلاس کی پنجاب ٹیکسٹ بُک بورڈ کی انگلش کی کتا ب میں جشن نوروز کی پوری تفصیل حال ہی میں شامل کی گئی ہے ۔ جس میں اس دن وہ لوگ جو جو رسمیں ادا کرتے ہیں اور جو جو کھانے پکاتے ہیں اس کی تفصیل دلکش انداز میں ترغیب دلانے کے لئے بیان کی گئی ہے ۔ 

*علم النحو*

ایسا علم جس کے ذریعے کلمہ (اسم فعل حرف) کے آخری حرف کی حالت معرب اور مبنی کے اعتبار سے پہچاننے اور انکو آپس میں جوڑنے کا طریقہ معلوم ہو

نحو کا لغوی معنی تو کسی طرف رخ کرنا یا قصد کرنا یا کنارہ وغیرہ کے آتے ہیں
 البتہ اصطلاحی طور پر اس علم کو کہتے ہیں جن کا تعلق ایسے قواعد سے ہوتا ہے جو کلمہ کی آخری حرف کی حالت اور کلموں کو جوڑنے کے بارے ہوتے ہیں اب آخری حرف چونکہ کنارہ پر ہوتا ہے شاید اس لئے اسکو علم النحو کہتے ہیں یا پھر چونکہ اس میں جملہ کے درست مطلب کو خاص قواعد کے تحت تحریر کرنے کا ارادہ ہوتا ہے اسلئے اسکو علم النحو کہتے ہیں واللہ اعلم
نحو کا علم رکھنے والے کو ناحی کہتے ہیں جسکی جمع نحاۃ ہے اور اسکی طرف منسوب کو نحوی کہتے ہیں جسکی جمع نحویوں ہے

غرض یا مقصد
اسکے سیکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم عربی عبارت (جملہ) کا ترجمہ کرنے یا بولنے میں غلطی سے بچ سکیں

موضوع 
اسکا موضوع کلام یا جملہ ہے کیونکہ ہم نے جملہ کے بارے ہی بحث کرنی ہوتی ہے البتہ اسکے اندر مفرد کلمۃ بھی آ جاتا ہے

اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم نحو میں کیا پڑھیں گے اس کو سمجھنے سے پہلے کلمہ کی اقسام کی تھوڑی وضاحت پڑھتے ہیں تاکہ اس کو دیکھ کر اس بات کا پتہ کیا جا سکے کہ نحو میں ہمیں کیا پڑھنا ہو گا

ہم پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ کلمہ کی تین اقسام ہیں یعنی 
اسم ۔ فعل اور حرف
ان میں سے جب کوئی اکیلا پڑا ہو تو اسکو مفرد کہتے ہیں- اور جب دو کلموں کو آپس میں ملاتے ہیں تو وہ مرکب بن جاتا ہے

1-مفرد
جب کلمۃ (اسم ، فعل یا حرف) اکیلا ہو تو وہ مفرد کہلاتا ہے مثلا زید، مِن وغیرہ

2-مرکب
جب دو کلمے آپس میں مل جائیں تو وہ مرکب بن جاتا ہے
مرکب کی پھر دو قسمیں ہو سکتی ہیں

 مرکب ناقص

مرکب تام یا جملہ
یعنی اس طرح دو یا زیادہ کلموں کو ملانا جس سے جملہ پورا ہو جائے اور مخاطب کو بات سمجھ آ جائے 
مثلا ھذا کتابُ اللہ 
مرکب تام یا جملہ کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں 

 نحو کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب الفاظ کو آپس میں جوڑنا ہوتا ہے اور اوپر نحو کے موضؤع میں یہ پڑھا ہے کہ نحو کے استعمال کا اصل مقصد پورے جملے کی درستگی کے لئے ہوتا ہے تو یہ سوال  پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہم نحو میں صرف مرکب تام یعنی جملہ کو ہی پڑھیں گے اور مرکب ناقص اور مفرد کو نہیں پڑھیں گے تو ایسا نہیں ہے 
کیونکہ مرکب تام مفرد اور مرکب ناقص سے مل کر ہی بنتا ہے تو جب تک انکے قواعد کا علم نہیں ہو گا ہم جملہ کو درست نہیں کر سکتے
پس ہم نحو میں جملہ کی اقسام و قواعد کے ساتھ ساتھ مفرد (اسم، فعل، حرف) کی اقسام و قواعد بھی پڑھیں گے اور مرکب ناقص کی اقسام و قواعد بھی پڑھیں گے


الفاظ

یہ جو الفاظ ہوتے ہیں نا یہ بھی آئینہ ہوتے ہیں ۔ جن میں سے انسان کا کردار اس کی فطرت جھانکتی ہے ۔ اس مصنوعی دنیا میں بھی کب تک انسان اپنی اصلیت چھپا سکتا ہے ۔ رفتہ رفتہ اوپر چڑھا نقاب اترنا شروع ہو جاتا ہے ۔ اور لفظوں کے آئینوں سے اصلی صورتیں جھانکنے لگتی ہیں ۔
الفاظ میں اور حروف میں اگر طاقت نہ ہوتی تو رب سوہنا کبھی نہ اپنی کتاب کو لکھ کر رکھتا ۔
وہ کہتا ہے نا میرا فرمان لوح محفوظ پر لکھا ہوا محفوظ ہے ۔
اور پھر وہ قسم بھی تو کھاتا ہے ۔ قلم کی اور اس کی جو تحریر کرتے ہیں ۔
کون تحریر کرتے ہیں یہ تو نہیں بتایا انسان پہ چھوڑ دیا کہ غور کر اور سمجھ لے ۔
لکھنا ایسا ہی ہے گویا اپنے سینے کو چیر دینا ۔ اپنے خیالات کو ننگا کر دینا ۔
جو کسی کی تحریر کاپی کرتے ہیں ان کی تحریر بھی اس وقت تک اثر نہیں کر سکتی جب تک وہ خود اس سے پوری طرح متفق نہ ہوں ۔

کچھ لوگوں کی باتیں اور کچھ لوگوں کی تحریریں زندگی کا سبق دیتی ہیں ۔ اور زندگی میں سبق سیکھنے کی تو ہر لمحہ ضرورت رہتی ہے ۔ تبھی تو رب سوہنا پانچ وقت کہتا ہے میرے بندے مجھ سے صراط مستقیم کی مانگ کرتا رہ ۔
پتہ نہیں انسان کی بخشش کس وجہ سے ہونی ہے ۔ کیا چیز کس بندی کی اس مالک کی بارگاہ میں قبول ہونا ہے اور کس بات نے دھتکارا جانا ہے ۔

ایک عابد ستر سال تک عبادت کرتا رہا ۔ پھر اسے ایک عورت ملی ۔ اور اس کے ساتھ اس نے سات دن گزارے ۔ پھر اسے احساس گناہ ہوا ۔ توبہ کی بھٹی میں سلگنے لگا ۔
توبہ قبول ہونے کی بھی ایک نشانی ہوتی ہے ۔ دل کا اطمینان ۔ جو اسے حاصل نہ ہو سکا تڑپ بڑھتی گئی ۔ پر توبہ قبول نہ ہوئی ۔ آخر ایک دن جنگل کی طرف نکل گیا ۔ رات سر پہ آئی تو دور روشنی ٹمٹماتی نظر آئی ۔ جا کر دیکھا تو وہاں ایک کمرے میں مسکین لوگ رہ رہے تھے ۔
بارہ آدمی تھے ایک شخص آتا اور روز ان کو بارہ روٹیاں دے جاتا ۔ اب یہ شخص بھی بھوکا تھا ۔ وہاں بیٹھ گیا ۔
وہ شخص بارہ روٹیاں لایا اور تقسیم کر دیں ۔ اس نے اسے نہیں دیکھا ۔ ایک روٹی اسے مل گئی ۔ تو اب جو مسکین بچا اس نے کہا مجھے آج روٹی نہیں ملی ۔ اور مجھے بھوک بھی بہت لگی ہے ۔ اب اس شخص نے بہت بھوک ہونے کے باوجود روٹی اسے دے دی

الله سوہنے نے فرمایا ۔۔۔ تیری ستر سال کی عبادت سات دن کا گناہ نہ بخشوا سکی ۔ ہاں یہ روٹی کام آگئی ۔

پاکستان

ہم نے پاکستان اس لئے بنایا تاکہ اسلام کو روز مرہ کی زندگی میں حقیقت بنا دیں 
ہم نے پاکستان اس لئے بنایا تاکہ ہر مرد و عورت سچی اسلامی زندگی گزار سکے 
اور جب تک پورا معاشرہ اسلام کو ملک کا قانون و دستور نہ بنائے 
اور کتاب و سنت کے احکام پر سچے دل سے عمل نہ کرے 
کسی اکیلے شخص کے لئے الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کے بتائے ہوئے 
طریقے کے مطابق زندگی گزارنا مشکل ہے 

*وحدت و جمع*

تعداد ظاہر کرنے کے لحاظ سے عربی میں اسم تین قسم کا ہوتا ہے ۔
واحد ۔۔۔ تَثْنِیَهْ ۔۔۔ جمع 
واحد یا مفرد جو ایک چیز کو ظاہر کرے ۔ جیسے 
رَجُلٌ ۔۔ ایک آدمی  ۔۔۔ کِتَابٌ ۔۔۔ ایک کتاب 
تَثْنِیَه ۔۔ جو دو پر دلالت کرے ۔جیسے 
رَجُلاَنِ ۔۔ دو آدمی ۔۔۔ کِتَابَانِ ۔۔۔ دو کتابیں 
اُردو میں تثنیہ نہیں ہوتی ۔ بلکہ واحد ۔۔ ایک چیز ۔۔۔ اور جمع ۔۔ زیادہ 
جبکہ عربی میں دو چیزوں کو تثنیہ کہا جاتا ہے ۔
 جو واحد کے آخر میں الف"   نون" یا   ی"   "نون بڑھانے سے بنتا ہے ۔ 
اور  تین یا تین سے زیادہ چیزوں کو جمع کہا جاتا ہے ۔ 
جیسے ۔۔  رِجَالٌ ۔۔ زیادہ آدمی ۔۔ کتابوُنَ ۔۔ زیادہ کتابیں 
فاعل چاہے واحد ہو ۔۔ تثنیہ ہو یا جمع ہو ۔۔ فعل ہمیشہ واحدآئے گا 

تعوذ ۔۔۔۔ تسمیہ

اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیْمِ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

*امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ*

 اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مرتبہ  بہت بلند ہے۔ آپ کا اصل نام نعمان بن ثابت بن زوطا رضی اللہ عنہ ہے۔ آپ 80 ہجری بمطابق 699ء میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔

آپ نے فقہ کی تعلیم اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان سے حاصل کی۔

 آپ کے اساتذہ کا سب سے پہلا طبقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہیں آپ اس اعتبار سے منفرد ہیں کہ آپ تابعی ہیں۔

 آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے علمِ حدیث حاصل کیا۔ آپ کے علاوہ امام مالک سمیت ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ میں کوئی امام بھی تابعی نہیں آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی براہِ راست زیارت کی اور ان سے احادیث نبوی کا سماع کیا۔

امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لئے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔

دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں ۔

اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ 

 حضرت امام ابو عبد اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ الله تعالی کے شاگردوں سے فرمایا کہ تم اپنے استاد کے استادوں کی تعداد گنو ۔  جب انہوں نے شمار کئے تو معلوم ہوا وہ چار ہزار تھے۔ ۔ آپ فقہ اور حدیث دونوں میدانوں میں امام الائمہ تھے۔

حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں : 

1۔ امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ

2۔ امام محمد بن حسن الشیبانی رحمۃ اﷲ علیہ

3۔ امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ

4۔ امام زفر بن ہذیل رحمۃ اﷲ علیہ

5۔ امام عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ

6۔ امام وکیع بن جراح رحمۃ اﷲ علیہ

7۔ امام داؤد بن نصیر رحمۃ اﷲ علیہ

آپ کی چند مشہور کتابیں درج ذیل ہیں : 

الفقه الأکبر، الفقه الأبسط، العالم والمتعلم، رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتّی، وصية الامام أبي حنيفة.

علاوہ ازیں قرآن حکیم کے بعد صحیح ترین کتاب صحیح البخاری کے مؤلف امام محمد بن اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے بڑے محدثین کرام رحمہم اﷲ آپ کے شاگردوں کے شاگرد تھے۔

آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔

آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔

45 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں۔

رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے ۔

ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں ۔ 

 امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں ۔ 

’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘

آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے مذہب کا پیرو کار ہے۔

بغداد شریف میں 150 ہجری میں آپ کا انتقال ہوا۔ مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ پہلی بار نمازِ جنازہ میں کم و بیش پچاس ہزار کا مجمع تھا، اس پر بھی آنے والوں کا سلسلہ قائم تھا یہاں تک کہ چھ بار نمازِ جنازہ پڑھائی گئی۔

مولوی ۔۔ اوریا مقبول جان

شیرشاہ سوری کے بنائے ہوئے پیمائش۔ زمین کے خوبصورت نظام کی بنیاد پر جب انگریز نے برصغیر پاک و ہند میں زمینوں کے ریکارڈ مرتب کرنے شروع کیے تو اس کے دماغ میں ایک طبقے سے شدید نفرت رچی بسی تھی اور وہ تھا اس سرزمین کا مولوی۔ انگریز کی آمد سے پہلے یہ لفظ معاشرے میں اس قدر عزت و توقیر کا حامل تھا کہ بڑے بڑے علماء و فضلاء اپنے نام کے ساتھ مولوی کا اضافہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے۔

انگریز کی اس طبقے سے نفرت کی بنیاد 1857ء کی جنگ آزادی میں پڑی جس کے سرخیل یہی مسجدوں کے مولوی تھے۔ دلّی کی جامع مسجد سے جہاد کے اعلان نے برصغیر کے مسلمانوں کو اس آخری معرکے کے لیے تیار کیا۔ لیکن یہ تو گزشتہ پچاس سالوں کی وہ جدوجہد تھی جو مسجدوں کی چٹائیوں پر بیٹھ کر دین پڑھانے والے ان مسلمان علماء نے کی تھی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت ایسا واقعہ تھا جس نے انگریز کو برصغیر میں قدم جمانے کا موقع فراہم کیا۔ ٹیپو سلطان کی موت کی خبر اس قدر خوش کن تھی کہ آج بھی ایڈمبرا کے قلعہ میں موجود ٹیپو کی نوادرات کے ساتھ یہ تحریر درج ہے کہ اس کی موت پر پورے انگلستان میں جشن منایا گیا۔ اس کے بعد انگریز نے ساری توجہ ان مسلمان مدرسوں کو بند کرنے، ان کو مسمار کرنے اور وہاں پر ہونے والے تدریسی کام پر پابندی لگانے پر مبذول کر دی۔ شاہ ولی اللہ کا خانوادہ برصغیر کا سب سے معتبر دینی خاندان سمجھا جاتا تھا۔

اسی کے ایک سپوت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا مشہور فتویٰ دیا اور برصغیر کو دارالحرب قرار دیا۔ یہی فتویٰ تھا جس کی بنیاد پر 1831ء میں سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی تحریک انھی مسجدوں کی چٹائیوں سے اٹھی۔ سانحہ بالا کوٹ کے بعد یہ تحریک ختم نہ ہوئی بلکہ اس کی قیادت مولانا نصیرالدین دہلوی نے سنبھالی۔ 1840ء میں ان کی وفات کے بعد مولانا ولائت علی عظیم آبادی اور ان کے بھائی عنائت علی عظیم آبادی نے اس کو زندہ رکھا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں یہی وہ جماعت تھی جس نے اپنے شاگردوں کی صورت ایک مزاحمتی فوج تیار کی۔ مولانا احمد شاہ مدراسی، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا فضل حق خیرآبادی اور دیگر علماء کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مولانا فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی قیادت مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی کر رہے تھے۔

جن کے بارے میں انگریز افواج اور انتظامیہ متفق تھی کہ وہ ان کا شمالی ہند میں سب سے بڑا دشمن ہے۔ آرکائیوز کے اندر موجود دستاویز میں اس مولوی کا جس قدر خوف خط و کتابت میں دکھائی دیتا ہے وہ حیران کن ہے۔ ان کے مقابلے میں ایک دوسرا طبقہ تھا جس کی وفاداریوں نے انگریز کے دل میں اپنی جگہ بنا لی تھی۔ یہ تھا خطۂ پنجاب کا زمیندار چوہدری اور نواب جنہوں نے مسلمانوں کی اس جنگ آزادی میں مجاہدین کے خلاف لڑنے کے لیے افرادی قوت فراہم کی۔ یہی نہیں بلکہ ان بڑے بڑے زمینداروں نے اپنے علاقوں میں جس طرح مسلمانوں کا خون بہایا اور انگریز کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبایا وہ تاریخی سچائی ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اکثر ممبران کے آباء و اجداد مسلمانوں کے خلاف اس خونریزی کی قیادت کرتے تھے اور یہاں تک کہ ایک مسلمان جہادی کو مارنے کا معاوضہ صرف چند روپے لیتے تھے۔

پنجاب کی دھرتی کے یہ ’’عظیم سپوت‘‘ جن کی اولادیں آج ہماری سیاسی قیادت ہیں انگریز کے اس قدر وفادار تھے کہ جنگ عظیم اول میں جب فوج کی بھرتیاں شروع ہوئیں تو 1914ء میں 28 ہزار میں سے 14 ہزار پنجاب سے بھرتی ہوئے۔ 1915ء میں 93 ہزار میں سے 46 ہزار پنجاب سے اور 1916ء کے آخر تک پورے ہندوستان سے 2 لاکھ 23 ہزار نوجوان انگریز کے لیے لڑنے کے لیے فوج میں بھرتی ہوئے۔

ان میں سے ایک لاکھ دس ہزار پنجاب سے تھے۔ دوسری جانب 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں علماء کو پھانسیاں دی گئیں، توپ کے ساتھ باندھ کر اڑا دیا گیا، کالا پانی بھیجا گیا مگر ان کی تحریک زندہ و جاوید رہی۔ 1864ء میں انبالہ سازش کیس میں مولانا جعفر تھانیسری، مولانا یحییٰ اور مولانا محمد شفیع کو پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے۔ شوق شہادت کا یہ عالم کہ تینوں سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ انگریز ڈپٹی کمشنر پارسن اگلے دن آتا ہے اور کہتا ہے ’’ہم تم کو تمہاری مرغوب سزا شہادت نہیں دیں گے بلکہ تمہیں تمام زندگی کالا پانی میں کاٹنا ہو گی۔ اس کے بعد یہ مشعل مستقل روشنی رہتی ہے۔ 1863ء پٹنہ سازش، 1870ء مالوہ سازش، 1871ء انبالہ سازش، 1870ء راج محل سازش اور ایسی بے شمار بغاوتیں برصغیر کے اس مولوی کے سینے کا تمغہ ہیں جو بوریہ  نشین تھا۔

انگریز جب ریونیو ریکارڈ مرتب کرنے لگا تو اس نے برصغیر اور خصوصاً پنجاب میں آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک باعزت کاشتکار اور دوسرے غیر کاشتکار، کاشتکاروں میں وہ اعلیٰ نسل نواب، چوہدری ، سردار، وڈیرے اور خان شامل تھے جنہوں نے انگریز سے وفاداری کے صلے میں زمینیں، جاگیریں اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ جب کہ غیر کاشتکاروں میں محنت مزدوری سے رزق کمانے والے لوہار، ترکھان، جولاہے، موچی وغیرہ۔ انھیں عرف عام میں کمی یعنی کمترین کہہ کر پکارا جانے لگا۔

پنجاب میں کمی کمین ایک عام لفظ ہے جو ہر متکبر زمیندار کے منہ پر ہوتا ہے۔ ریونیو ریکارڈ میں ایک ’’فہرست کمیاں‘‘ مرتب کی گئی جس میں لوہار، ترکھان اور موچی، جولاہے کے ساتھ مسلمانوں کی قیادت کے دینی طبقے مولوی کو بھی شامل کر دیا گیا اور پھر گاؤں میں جو تضحیک کمی کمینوں کے حصے میں آئی مولوی کو بھی اسی تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود اس طبقے نے مسجد کی چٹائی سے دین کی مشعل تھامے رکھی۔

ہزاروں دیہاتوں میں یہ واحد پڑھا لکھا فرد ہوا کرتا  تھا لیکن بڑے زمیندار جو جاہل اور ان پڑھ تھے ان کی تذلیل سہتا، جوتیوں میں بٹھایا جاتا، کٹائی پر بیگار میں لگایا جاتا مگر کمال ہے اس مرد باصفا کا کہ صبح فجر پر مسجد پہنچتا، چبوترے پر کھڑے ہو کر اذان دیتا، لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتا، بچوں کے کان میں اذان دیتا، نکاح پڑھاتا اور اس ظالم چوہدری کے مرنے پر اس کے لیے قرآن بھی پڑھتا اور دعا کے لیے ہاتھ بھی اٹھاتا۔ شہروں میں بھی مولوی کو مسجد کی ڈیوٹی تک محدود کر دیا گیا۔ معاشرے سے اس کا تعلق صرف تین مواقع پرہوتا ہے۔

پیدائش کے وقت کان میں اذان، شادی کے وقت نکاح خوانی، اور موت پر مرنے والے کا جنازہ اور دعائے مغفرت۔ ملک بھر کی چھوٹی چھوٹی لاکھوں مساجد میں یہ امام ایک مزدور سے بھی کم تنخواہ پر امت کا سب سے اہم فریضہ یعنی اللہ کی جانب بلانا، ادا کرتے رہے، بچوں کو قرآن بھی پڑھاتے رہے اور پنجگانہ نماز کی امامت بھی۔ کبھی ایک سیکنڈ کے لیے بھی مساجد میں نماز لیٹ نہ ہوئی کہ مولوی اپنے مطالبات کے حق میں ہڑتال پر ہیں۔ اس معاشرے نے جو فرض عین انھیں سونپا انھوں نے معاشرے کے ہر شعبے سے زیادہ حسن و خوبی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا۔

اس سب کے بدلے میں انگریز کے اس تخلیق کردہ معاشرے نے مولوی کو کیا دیا۔ وہ قرآن جس کی تعلیم کو اللہ نے سب سے بہتر تعلیم قرار دیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان معلموں اور طالب علموں کو افضل ترین قرار دیا۔ یہ طالب جو اس راستے پر نکلے شام کو ہر دروازے پر دستک دے کر کھانا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر جو روکھی سوکھی مل جائے اسے نوش جاں کرتے ہیں۔ عالیشان کوٹھیوں میں رہنے والے اپنے بچوں کو انگریزی، فزکس، کیمسٹری کے لیے ہزاروں روپے ماہانہ دے کر بہترین استاد کا بندوبست کرتے ہیں، لیکن قرآن پڑھانے کے لیے انھیں ایسا مولوی چاہیے جو دو وقت روٹی لے کر خوش اور زیادہ سے زیادہ عید پر ایک جوڑا۔ جنھیں اپنے سگے ماں باپ کو موت کے بعد نہلانا نہیں آتا، اپنے باپ یا ماں کوجہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مغفرت کی دعا کے دو حرف پڑھنے نہیں آتے وہ مولوی کا تمسخر اڑاتے رہے۔

اسے تضحیک کا نشانہ بناتے رہے۔ لیکن یہ مولوی اللہ کا بندہ اس معاشرے کی تمام تر ذلت و رسوائی کے باوجود پانچ وقت اللہ کی بڑائی اور سید الانبیاء کی رسالت کا اعلان کرتا رہا۔ وہ اگر سرکار کی کسی مسجد میں ملازم ہوا تو اس کی عزت و توقیر بھی پاؤں تلے روندی گئی۔کسی اوقاف کے منیجر نے اس کو ہاتھ باندھ کر کھڑا کیا تو دوسری جانب کسی انگریز فوجی یونٹ کے کرنل نے بلا کر کہا، او مولوی تمہیں سمجھ نہیں آتی یہ تم کیا قرآن کے الٹے سیدھے معانی نکالتے رہتے ہو۔ انسان کے بچے بن جاؤ ورنہ کوارٹر گارڈ بھی بند کر دوں گا۔ تمسخر، تضحیک، ذلت، لطیفے بازی سب اس مولوی کا مقدر تھی اور ہے۔ اب تو اگر کوئی اس حلیے کا شخص کسی چیک پوسٹ پر آ جائے تو دہشتگردی کے شبے میں تلاشی کے عذاب سے بھی گزرتا ہے۔

لیکن اس سب کے باوجود اس دور کی پر آشوبی میں دین کی اگر کوئی علامت ہے تو اس بوسیدہ سی مسجد کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہنے والا مولوی۔ اسلام مولوی کا نہیں ہم سب کا ہے۔ اللہ قیامت کے روز مولوی سے نہیں پوچھے گا کہ تم نے دین کا علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں اپنی ذمے داری ادا کی بلکہ ہر مسلمان سے یہ سوال ہو گا۔

اس سے بھی جو مسلمان کہلاتا ہے لیکن مسلمان بنتا نہیں اور اس سے بھی جو مسجد میں چندہ دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ دین کا فرض ادا ہو گیا۔ یہ رویہ جو گزشتہ دو سو سال سے انگریز نے اس معاشرے میں پیدا کیا ہے جس نے مولوی کو تمسخر کا نشانہ بنایا ایسے معاشرے میں جب ایک خاتون عالم دین اور پابند شرع شخص کو اوئے، ابے، جاہل اور ایسے ذلت آمیز الفاظ سے بلاتی ہے تو تعجب کیسا۔ ایسا وہ معاشرے کے کسی اور طبقے سے کر کے دکھائے۔ زندگی جہنم نہ بنا دیں اس کی، کسی پارٹی کے لیڈر کو اس طرح ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے۔ ہر کسی کا زور مولوی پر چلتا ہے۔

حالیہ اشاعتیں

آیت الحجاب

 آیۃ الحجاب سورۂ احزاب کی آیت نمبر 53 آیتِ حجاب کہلاتی ہے۔  اس کا آغاز  ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النّ...

پسندیدہ تحریریں