نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*الله جل شانہ کے حکم میں حجت بازی*۔۔۔ (ب)

قَالُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادْعُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رَبَّكَ 
کہا انہوں نے ۔۔۔ تو دعا کر ۔۔۔ ہمارے لئے ۔۔۔ اپنے رب سے 
يُبَيِّن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَّنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَوْنُهَا 
خوب بیان کر دے ۔۔۔ ہمارے لئے ۔۔۔ کیا ۔۔ رنگ اس کا 
قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔إِنَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَقُولُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔إِنَّهَا 
اس نے کہا ۔۔۔ بے شک وہ ۔۔۔ وہ کہتا ہے ۔۔۔ بے شک وہ 
بَقَرَةٌ ۔۔۔۔صَفْرَاءُ ۔۔۔۔۔ فَاقِعٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَّوْنُهَا
گائے ۔۔۔ زرد  ۔۔۔ گہرا ۔۔۔ رنگ اس کا 
 تَسُرُّ ۔۔۔النَّاظِرِينَ۔  6️⃣9️⃣
خوشی پاتے ہیں ۔۔۔ دیکھنے والے 

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا
تَسُرُّ النَّاظِرِينَ.    6️⃣9️⃣
انہوں نے کہا (  اے موسٰی ) ۔ ہمارے لئے دعا کیجئے کہ وہ ( الله ) ہمیں بتا دے کہ اس گائے کا رنگ کیسا ہے ۔ اس نے کہا  وہ ( الله ) فرماتا ہے کہ وہ گائے زرد رنگ کی ہے  اس کی زردی خوب گہری ہے دیکھنے والوں کو اچھی لگتی ہے ۔ 

پچھلے سبق میں ہم نے پڑھ لیا کہ بنی اسرائیل نے موسٰی علیہ السلام سے اس گائے کے بارے میں خوامخواہ فضول سوال پوچھنے شروع کر دئیے ۔  پہلے عمر کے بارے میں سوال کیا ۔ جب بتایا گیا کہ وہ گائے نہ تو بوڑھی ہو اور نہ بچہ ۔ گویا سوال کرنے کی وجہ سے ان پر  ایک شرط لگا دی گئی 
وہ پھر بھی باز نہ آئے ۔ اور دوسرا سوال اٹھا کھڑا کیا ۔ کہ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ 
اب حضرت موسٰی علیہ السلام نے الله تعالی سے پوچھنے کے بعد انہیں بتایا ۔ کہ اس گائے کا رنگ زدر ہو اور یہ رنگ بھی خوب شوخ اور کھلتا ہوا ہو ۔ کہ دیکھنے والوں کا دیکھتے ہی دل خوش ہو جائے ۔ 
گویا اگلے سوال کی وجہ سے ایک آسان سے حکم کی تعمیل میں ایک مشکل شرط  لگا دی ۔ اور یہ سب کچھ بنی اسرائیل کی اپنی حرکتوں کا نتیجہ تھا ۔ کہ ایک اچھے بھلے سیدھے سادے اور آسان حکم کو خود اپنے ہاتھوں اس قدر مشکل اور پیچیدہ بنا رہے ہیں ۔ 
ان سوالات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ حد درجہ کام چور اور چالاک تھے ۔ وہ الله تعالی کے حکم میں ٹال مول کرنا چاہتے تھے ۔ انہیں اس بات کا احساس نہ تھا کہ اس حکم میں کس قدر حکمت پوشیدہ ہے ۔ جس کام کو اپنے لئے دشوار سمجھ رہے تھے اس میں ہزار مصلحتیں پوشیدہ تھیں ۔
بنی اسرائیل کے ایسے واقعات سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہئیے اور یہ بات ہمیشہ پلّے باندھ لینی چاہئیے کہ الله تعالی کے کسی حکم میں کسی قسم کی حجت کرنا اور بال کی کھال اتارنا اس حکم کی مصلحت ڈھونڈھنا ہرگز ہرگز مفید نہیں ہوتا ۔ اس سے پرہیز کرنا چاہئیے ۔اور بغیر کسی تنگی کے الله جل جلالہ کے احکام کو مان کر ان پر عمل کرنا چاہئیے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...