نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*دعوتِ ایمان کا انکار*

وَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قِيلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  لَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمِنُوا 
اور جب ۔۔۔ کہا جاتا ہے ۔۔۔ ان سے ۔۔۔ تم ایمان لاؤ 
بِمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔أَنزَلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَالُوا 
اس پر جو ۔۔ اتارا اُس نے ۔۔ الله تعالی ۔۔ وہ کہتے ہیں 
نُؤْمِنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔أُنزِلَ ۔۔۔۔۔ عَلَيْنَا 
ہم ایمان لاتے ہیں ۔۔۔ اس پر جو ۔۔۔ اتارا گیا ۔۔۔ ہم پر 
وَيَكْفُرُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔بِمَا ۔۔۔۔۔ وَرَاءَهُ ۔۔۔ وَهُوَ ۔۔۔ الْحَقُّ 
اور وہ کفر کرتے ہیں ۔۔۔ جو ۔۔۔ علاوہ ۔۔۔ اور وہ ۔۔ سچ 
 مُصَدِّقًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لِّمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مَعَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَلِمَ  
وہ تصدیق کرتا ہے ۔۔۔ اس کی جو ۔۔ اُن کے پاس ہے ۔۔۔ فرما دیجئے ۔۔۔ پس کیوں 
تَقْتُلُونَ ۔۔۔۔۔۔۔ أَنبِيَاءَ ۔۔۔۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔ مِن ۔۔۔ قَبْلُ 
تم قتل کرتے ہو ۔۔۔ انبیاء ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ سے ۔۔ پہلے 
إِن ۔۔۔ كُنتُم ۔۔۔۔مُّؤْمِنِينَ۔ 9️⃣1️⃣
اگر ۔۔۔ ہو تم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان والے 

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنبِيَاءَ اللَّهِ
 مِن قَبْلُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ۔ 9️⃣1️⃣

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو الله تعالی نے بھیجا ہے اسے مانو تو وہ کہتے ہیں جو ہم پر اُترا ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہم نہیں ایمان لاتے جو اس کے علاوہ ہے ۔ حالانکہ وہ حق ہے ۔ اس کی تصدیق کرتا ہے جو ان کے پاس ہے ۔ کہہ دو پھر الله تعالی کے پیغمبروں کو پہلے کیوں قتل کرتے رہے ہو اگر تم ایمان رکھتے ہو ۔ 

نبی آخر الزماں نے جب یہودیوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے دل تو پہلے ہی الله تعالی کے ان احکام سے بھرے ہوئے ہیں ۔ جو ہماری آسمانی کتاب توریت میں موجود ہیں ۔ اس لئے ہمیں کسی نئی تعلیم اور وحی کی ضرورت نہیں ۔ 
الله جل شانہ نے اس آیت میں یہ ظاہر فرمایا ہے کہ ان لوگوں کا یہ دعوی بھی غلط ہے ۔ کیونکہ وہ اپنی آسمانی کتابوں کو بھی پوری طرح سے نہیں مانتے ۔اور اُن کے احکام کی پیروی نہیں کرتے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے نبیوں کو جھٹلاتےرہے  ہیں 
بلکہ بعض کو انہوں نے قتل ہی کر دیا ۔ کیونکہ  تورات میں حکم ہے کہ ۔۔۔ جو نبی تورات کو سچا کہنے والا آئے اس کی مدد کرنا اور اس پر ضرور ایمان لانا ۔
اگر اس کتاب اور اس کے احکام پر ان کا پختہ یقین ہوتا تو وہ ہرگز ایسے نافرمان نہ ہوتے ۔ اور قتل بھی اُن انبیاء کو کیا جو احکامِ تورات پر عمل کرتے تھے ۔ جو پہلے گزر چکے تھے ۔ جیسے حضرت زکریا اور یحیٰی علیھم السلام ۔ اور تورات کی ترویج کے لئے بھیجے گئے تھے ۔ اور تورات کی تصدیق کرنے والے تھے ۔ ہہ بات سب کو معلوم ہے ۔ 
یہ دلیل پیش کرکے الله تعالی انہیں یہ تنبیہ کرتا ہے کہ تم راہِ راست سے بالکل بھٹک چکے ہو ۔ اور دینِ حق کو چھوڑ چکے ہو ۔ اس لئے تمہاری بہتری اسی میں ہے کہ دین اسلام کو اختیار کر لو ۔ اور قرآن مجید کو مان لو ۔ یہ آخری آسمانی کتاب ہے ۔ یہ کتاب خود تمہاری کتابوں کی تصدیق کرتی ہے ۔ اور انہیں اصلاح شدہ شکل میں پیش کرتی ہے ۔ الله تعالی کی آخری کتاب پر ایمان لائے بغیر تمہارا اپنی کتابوں کو ماننے کا دعوٰی بالکل غلط ہے 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...