نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*نفس پرستی اور قتلِ انبیاء*

أَفَكُلَّمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جَاءَكُمْ ۔۔۔۔۔۔  رَسُولٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِمَا 
کیا پھر جب کبھی ۔۔۔ آیا تمہارے پاس ۔۔۔ رسول ۔۔۔ ساتھ اس کے 
لَا تَهْوَى ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ أَنفُسُكُمُ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اسْتَكْبَرْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    فَفَرِيقًا
نہ پسند آیا تم کو ۔۔۔ تمہاری جانیں ۔۔۔ تکبر چاہا تم نے ۔۔۔ پس ایک  جماعت 
 كَذَّبْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔    وَفَرِيقًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تَقْتُلُونَ۔ 8️⃣7️⃣
جٹھلایا تم نے ۔۔۔۔ اور ایک جماعت ۔۔۔۔ تم قتل کرتے تھے 

أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ 
وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ۔  8️⃣7️⃣

پھر بھلا جب کوئی رسول تمہارے پاس وہ حکم لایا جو تمہارے جی کو نہ بھایا تو تم تکبر کرنے لگے  پھر ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو تم نے قتل کر دیا ۔ 

الله تعالی نے انسان کو دو قوتیں دی ہیں ۔ ایک ایمان اور یقین کی قوت اور دوسری عمل کی قوت ۔ اگر یہ دونوں قوتیں صحیح اور درست ہوں تو مقصد کا راستہ آسان ہو جاتا ہے ۔ پچھلی آیات میں الله جل شانہ نے بنی اسرائیل کی وہ خرابیاں بیان کی ہیں جو ان کے قوت عمل سے تعلق رکھتی ہیں ۔ یعنی وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے ۔ کمزور لوگوں کو جلا وطن کر دیتے تھے ۔ اب اس آیت میں ان کے ایمان اور یقین کی قوت کی کمزوریاں ظاہر کی گئیں ہیں ۔ 
الله تعالی فرماتا ہے ۔ کہ ان کی راہنمائی کے لئے ہم نے حضرت موسی علیہ السلام کو کتاب دی ۔ لیکن جب بنی اسرائیل اس کتاب کے احکام کو بدلنے اور ان کی نافرمانی کرنے لگے ۔ تو ہم نے موسی علیہ السلام کے بعد بھی بہت سے نبی بھیجے ۔ لیکن ان لوگوں نے ان نبیوں میں سے بھی بعض کی نافرمانی کی اور بعض کو قتل کر دیا ۔ 
پھر ہم نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو انجیل دے کر بھیجا ۔ اور ان کی سچائی ثابت کرنے کے لئے انہیں بہت سے معجزے بھی دیئے ۔ اور ان کی مدد کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو مقرر کیا ۔ لیکن یہودی  عادت سے باز نہ آئے اور آپ کے قتل پر تُل گئے ۔ 
اب الله جل شانہ ان سے فرماتا ہے ۔ کہ تمہاری بھی عجیب حالت ہے ۔ جب کبھی کوئی رسول ( تمہاری ) نفسانی خواہشات اور ذاتی اغراض کے خلاف الله تعالی کا کوئی حکم لایا ۔ تم نے غرور کے ساتھ اس سے منہ موڑ لیا ۔ اور بعض نبیوں کو جھٹلایا اور بعض کو قتل کیا ۔ 
حضرت عیسٰی علیہ السلام کو الله تعالی نے متعدد معجزے عطا فرمائے ۔ مثلا اندھوں کو بینا ۔ کوڑھیوں کو چنگا  ۔ بیماروں کو صحت مند کرنے کی طاقت دی ۔ بچپن میں بات کرنے کی قوت عطا کی  وغیرہ ۔ مگر ان تمام باتوں کے باوجود بنی اسرائیل ان پر ایمان نہ لائے ۔ اور مسلسل مخالفت اور ایذا رسانی کرتے رہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...