نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*آخرت کے بدلے دُنیا*

أُولَئِكَ ۔۔۔۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔ اشْتَرَوُا ۔۔۔۔ الْحَيَاةَ 
یہی ہیں ۔۔۔۔ لوگ ۔۔۔۔۔۔ خرید لی ۔۔۔ زندگی 
الدُّنْيَا ۔۔۔۔۔۔ بِالْآخِرَةِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَلَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُخَفَّفُ 
دنیا ۔۔۔۔ بدلے آخرت کے ۔۔۔ پس نہیں ۔۔۔ کم کیا جائے گا 
عَنْهُمُ ۔۔۔۔۔ ۔ الْعَذَابُ ۔۔۔۔ وَلَا ۔۔۔۔۔۔۔ هُمْ
ان سے ۔۔۔۔ عذاب ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔ وہ 
 يُنصَرُونَ 8️⃣6️⃣
مدد دیے جائیں گے 

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ 
وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ. 8️⃣6️⃣

یہی ہیں جنہوں نے دنیا کی زندگی خرید لی آخرت کے بدلے  سو نہ ان سے عذاب ہلکا ہو گا  اور نہ انہیں مدد پہنچے گی ۔ 

بِالْاٰخِرَۃِ ۔ ( آخرت کے بدلے) ۔ یہود کی مذہبی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے ان میں آخرت کا ایمان باقی ہی نہ رہا تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ بے راہ روی اور غلط کاری سے روکنے والی بات صرف الله جل شانہ اور آخرت کا ڈر ہے ۔ اگر انسان کو دوسری ابدی زندگی اور جزاء و سزا کا خیال نہ رہے ۔ تو گناہ اور سرکشی سے اسے کوئی چیز ہٹا نہیں سکتی ۔ 
لاَ ھُمْ یُنْصَرُوْنَ ۔ ( وہ مدد نہ دئے جائیں گے ) ۔نصر اس کا مادہ ہے ۔ انصار   (مدد کرنے والے ) بھی اسی لفظ سے ہے ۔ اور منصور کا مادہ بھی یہی لفظ ہے ۔ ۔ اس پورے جملے کا مطلب ہے کہ اس عذاب سے رہائی کے لئے کسی طرف سے انہیں کوئی مدد نہ پہنچے گی ۔ 
یہودی اس گمانِ باطل میں مبتلا تھے کہ وہ خواہ کتنے بھی زیادہ گناہ کرتے جائیں ۔ آخرت میں ان کی مدد کے لئے ان کے بزرگ اور الله والے لوگ ان کی مدد کو پہنچیں گے ۔ اور انہیں آگ کے عذاب سے بچا لیں گے ۔ اب الله تعالی نے ان کا عقیدہ غلط اور باطل ٹھہرایا ہے ۔ اور فرمایا ہے کہ ان کی کسی طرف سے مدد نہ کی جائے گی ۔ 
اس آیت میں پچھلی آیات کا خلاصہ بیان کیا گیا ہے ۔ کہ وہ لوگ جنہوں نے الله جل جلالہ کے احکام کی خلاف ورزی کی ۔ اس سے اقرار باندھنے کے بعد پھر گئے ۔ اور دین کو دنیا کے فائدوں کے لئے قربان کر دیا ۔ وہ آخرت کے بے بہا ثواب اور نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی عارضی لذّتوں کے پیچھے پڑ گئے ۔ انہوں نے اُخروی فلاح کے بدلے دنیا کا عارضی آرام خرید لیا ۔ ان کے لئے آخرت میں سخت ترین عذاب ہے ۔ اور معاف ہونا تو دور کی بات اس میں کسی قسم کی کمی نہ کی جائے گی ۔ اور وہ لوگ یہ بھی جان لیں کہ اس عذاب سے انہیں نہ کوئی چُھڑا سکتا ہے اور نہ چُھڑانے میں مدد دے سکتا ہے ۔ 
مرنے کے بعد صرف انسان کے نیک اعمال ہی اس کا ساتھ دیں گے ۔ وہاں کوئی اور  انسان کو عذاب سے نہ بچا سکے گا ۔ 
اَللّٰھُمَّ اَجِرْنَا مِنَ النَّار ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...