نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*جھوٹی آرزوئیں*

وَمِنْهُمْ  ۔۔۔۔۔۔ أُمِّيُّونَ ۔۔۔۔۔۔۔ لَا يَعْلَمُونَ ۔۔۔۔۔۔الْكِتَابَ 
اور ان میں ۔۔۔ ان پڑھ ۔۔۔ نہیں وہ جانتے ۔۔۔ کتاب 
إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَمَانِيَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَإِنْ ۔۔۔۔۔۔هُمْ 
سوائے ۔۔۔ جھوٹی آرزوئیں ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔ وہ 
 إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔   يَظُنُّونَ7️⃣8️⃣۔  
مگر ۔۔۔ جھوٹے خیال رکھنے والے 
فَوَيْلٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّلَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَكْتُبُونَ ۔۔۔۔ الْكِتَابَ 
پس خرابی ہے ۔۔۔ ان لوگوں کے لئے ۔۔۔ وہ لکھتے ہیں ۔۔۔ کتاب 
بِأَيْدِيهِمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔ يَقُولُونَ ۔۔۔۔۔۔ هَذَا 
اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔ پھر ۔۔۔ وہ کہتے ہیں ۔۔۔ یہ 
مِنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عِندِ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِيَشْتَرُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِهِ 
سے ۔۔۔ الله کی طرف سے ۔۔۔ تاکہ خرید و فروخت کریں ۔۔۔ اس پہ 
ثَمَنًا ۔۔۔۔۔۔ قَلِيلًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَوَيْلٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَّهُم
قیمت ۔۔۔ تھوڑی ۔۔۔ پس خرابی ہے ۔۔۔ ان کے لئے 
 مِّمَّا ۔۔۔۔۔۔۔ كَتَبَتْ ۔۔۔۔۔۔۔ أَيْدِيهِمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَوَيْلٌ 
اس سے جو ۔۔۔۔ لکھا ۔۔۔ ان کے ہاتھ ۔۔۔ اور خرابی 
لَّهُم ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔  مِّمَّا ۔۔۔۔۔يَكْسِبُونَ۔ 7️⃣9️⃣
ان کے لئے ۔۔۔ اس سے جو ۔۔۔ وہ کماتے ہیں 

وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ 7️⃣8️⃣
اور ان میں بعض ان پڑھ ہیں کہ کتاب کی خبر نہیں رکھتے  جھوٹی آرزوؤں کے سوا اور وہ صرف جھوٹے خیال رکھنے والے ہیں 
فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ 
وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ۔ 7️⃣9️⃣
پس ھلاکت ہے ان کے لئے جو اپنے ہاتھ سے کتاب لکھتے ہیں پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ الله تعالی کی طرف سے ہے تاکہ اس پر تھوڑی سی قیمت لے لیں  سو ھلاکت ہے ان کے لئے اپنے ہاتھوں کے لکھے سے اور ھلاکت ہے ان کے لئے اس کی وجہ سے جو انہوں نے کمایا ۔ 

اَمَانِیَّ ۔ ( آرزوئیں ۔ جھوٹی خواہشیں ) ۔ اس کا واحد  اُمنِیَّه ہے ۔ یہ لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے 
ایسی آرزو جس کی کوئی حقیقت نہ ہو ۔ اور کوئی شخص محض خام خیالی میں مگن رہے ۔ -۱
کوئی شخص جھوٹی روایات اور خرافات میں مگن رہے ۔۲ 
یہودیوں کی تاریخ میں اس قسم کی روایات کی بے شمار مثالیں موجود ہیں ۔ مثلا ان کی یہ خام خیالی کہ جنت میں ان کے سوا کوئی اور نہ جائے گا ۔ 
ثَمَناً ۔ ( قیمت ) ۔ اس لفظ کے معنی صرف نقد یا پیسوں ، رقم کے نہیں بلکہ جو چیز بھی کسی چیز کے معاوضہ یا بدلہ میں حاصل ہو اس کا ثمن ہے ۔ اس آیت میں ثمن سے مراد دنیا کا معاوضہ ہے ۔ 
مِمّا یَکْسِبُونَ ۔ ( اس میں سے جو وہ کماتے ہیں ) ۔ اس کے یہاں دو معنی ہیں ۔ ایک اُن کے گناھوں کا ڈھیر ۔ کیونکہ وہ لوگ اپنی ان حرکتوں کی وجہ سے اپنے گناھوں میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں ۔ 
دوسرے وہ مالی نفع جو کتاب الله میں تبدیلی یا تحریف کر کے یہ لوگ حاصل کرتے ہیں ۔ 
یہودیوں کے جاہل طبقے کو معلوم ہی نہ تھا کہ تورات میں کیا لکھا ہوا ہے ۔ وہ بس چند جھوٹی آرزوؤں سے واقف تھے جو انہوں نے اپنے بزرگوں سے سُن رکھی تھیں ۔ مثلا جنت میں ان کے سوا کوئی نہیں جائے گا ۔ اور یہ کہ ان کے بزرگ ان کو بخشوا لیں گے ۔  اور ان کے یہ خیالات بے اصل ہیں ۔ جن کی کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ۔ 
الله جل جلالہ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے سخت خرابی اور ہلاکت ہے جو الله تعالی کے احکام بدل ڈالتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ یہ الله تعالی کا حکم ہے ۔  یہ وہ لوگ ہیں جو جاہل عوام کے موافق باتیں اپنی طرف سے بنا کر لکھ دیتے ہیں ۔ اور الله جل شانہ کی طرف ان باتوں کو منسوب کر دیتے ہیں 
مثلا ۔۔ تورات میں لکھا تھا کہ
" پیغمبر آخر الزماں خوبصورت ،  گھنگرالے بال ، سیاہ آنکھیں ، میانہ قد ، گندمی رنگ  پیدا ہوں گے " 
انہوں نے بدل کر یوں لکھا 
لمبا قد ، نیلی آنکھیں ، سیدھے بال " 
تاکہ عوام آپ کی تصدیق نہ کر لیں ۔ اور ہمارے دنیوی منافع میں خرابی نہ پیدا ہو ۔ 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر  عثمانی ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...