نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*خونریزی اور جلا وطنی*

وَإِذْ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَخَذْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ مِيثَاقَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَا ۔۔۔۔۔۔۔۔تَسْفِكُونَ 
اور جب ۔۔۔۔ ہم نے لیا ۔۔۔ پکا وعدہ تم سے ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ تم بہاؤ گے 
دِمَاءَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَا ۔۔۔۔۔۔۔ تُخْرِجُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَنفُسَكُم ۔۔۔۔۔۔۔مِّن 
خون اپنے ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔۔ تم نکالو گے ۔۔۔۔ اپنی جانوں کو ۔۔۔۔ سے 
دِيَارِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَقْرَرْتُمْ 
اپنے گھروں سے ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ اقرار کیا تم نے 
وَأَنتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ تَشْهَدُونَ۔ 8️⃣4️⃣
اور تھے تم ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم شھادت دیتے 

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ
ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ.  8️⃣4️⃣
اور جب ہم نے تم سے پکا وعدہ لیا کہ آپس میں خون نہ بہاؤ گے  اور اپنوں کو اپنے وطن سے نہ نکالو گے  پھر تم نے اقرار کر لیا اور تم مانتے ہو ۔ 

تَسْفِکُوْنَ ۔ ( نہیں تم خون بہاؤ گے ) ۔ تسفکون ۔۔۔ سفک سے نکلا ہے جس کے معنی بہانا اور خاص طور پر 
خون بہانا ہیں ۔ محاورہ کے طور پر اس جملہ کے معنی قتل کرنا بھی ہوتے ہیں ۔ 
اس سورۃ کے پانچویں رکوع سے مسلسل یہود کا ذکر ہو رہا ہے ۔ یہودی اپنے اصل دین سے بھٹک چکے تھے ۔الله تعالی کی دی ہوئی کتاب  تورات میں تحریف و تبدل کرتے تھے ۔ الله جل شانہ کے احکام سن کر اور ان کی تعمیل کا وعدہ کرکے اس سے پھر جاتے تھے ۔ اور جھوٹے اور من گھڑت عقیدوں میں مبتلا تھے ۔ انہیں یہ گمان تھا کہ وہ خواہ کتنے ہے گناہ کریں اور معصیت کے مرتکب ہوں ۔ انہیں ہرگز سزا نہ ہو گی ۔ بلکہ ان کے بزرگ انہیں آگ سے بچا لیں گے ۔ 
یہود کے ان غلط عقائد کی تردید کرتے ہوئے الله تعالی نے قرآن مجید کے ذریعے ظاہر کر دیا کہ نجات کا اصل قانون کیا ہے ۔ صرف وہی لوگ جو الله تعالی پر ایمان رکھتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ۔ جنت کے مستحق ہوں گے ۔ اُن کے علاوہ جو شخص معصیت میں گِھر گیا ۔ وہ دوزخ میں داخل ہو گا ۔ 
نجات کا قانون بیان کرنے کے بعد الله جل جلالہ نے صالح اور نیک بندے بننے کا طریقہ بتایا ۔ اور ان کے میثاق کی طرف ان کی توجہ دلائی ۔ 
الله جل شانہ نے یہودیوں سے دو اور باتوں کا وعدہ بھی لیا تھا کہ ایک تو وہ آپس میں خونریزی نہیں کریں گے اور دوسرے یہ کہ اپنی قوم کو ناحق جلا وطن نہیں کریں گے ۔ کیونکہ قوم کا اجتماعی رُعب ختم ہو جائے گا ۔ مخالفوں کو موقع ملے گا ۔ اور وہ حملہ کر کے ان پر تسلّط جما لیں گے اور حاکم بن بیٹھیں گے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...