نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*جنت کے ٹھیکیدار*

وَقَالُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ تَمَسَّنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ النَّارُ 
اور وہ کہتے ہیں ۔۔۔ ہرگز نہیں ۔۔۔ چھوئے گی ہمیں ۔۔۔۔ آگ 
إِلَّا ۔۔۔۔ أَيَّامًا ۔۔۔۔ مَّعْدُودَةً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ
مگر ۔۔۔۔  دن ۔۔۔ گنے ہوۓ ۔۔۔ فرما دیجئے 
أَتَّخَذْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عِندَ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ عَهْدًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَلَن
کیا تم لے چکے ہو ۔۔۔ الله تعالی سے ۔۔۔ وعدہ ۔۔۔ پھر ہرگز نہیں 
يُخْلِفَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ عَهْدَهُ ۔۔۔ أَمْ ۔۔۔۔۔۔ تَقُولُونَ
وہ خلاف کرے گا ۔۔۔۔ الله ۔۔۔ وعدہ اُس کا ۔۔ یا ۔۔ تم کہتے ہو 
عَلَى ۔۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔ مَا لَا ۔۔۔۔۔تَعْلَمُونَ۔ 8️⃣0️⃣
پر ۔۔۔۔ الله ۔۔۔ جو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تم جانتے ہو 

وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ.  8️⃣0️⃣
اور وہ کہتے ہیں ہم کو ہرگز آگ نہیں چھوئے گی مگر گنتی کے چند دن  کہہ دو کیا تم الله تعالی کے ہاں اقرار لے چُکے ہو کہ الله تعالی اب اپنے اقرار کے خلاف کچھ نہیں کرے گا یا الله کے بارے میں کہتے ہو ایسی باتیں جو تم نہیں جانتے ۔ 

اَلنَّارُ ۔ ( آگ ) ۔ یہاں اس لفظ سے مراد دوزخ کی آگ ہے ۔ جس کا ذکر قرآن مجد میں کثرت سے آیا ہے ۔ اور دنیا کی تمام آسمانی کتابوں میں انسانوں کو خبردار کیا گیا ہے ۔ جہنم کے عذاب سے نہ کسی کی سفارش بچا سکے گی ۔ نہ کوئی معاوضہ کام کرے گا ۔ نہ وہاں کسی کا زور چل سکے گا ۔ 
اَیَّاماً مَّعْدُوْدَۃً ۔ ( گنے چُنے چند دن ) ۔ یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ انہیں بُرے اعمال کے بدلے میں صرف چند دن کے لئے دوزخ میں ڈالا جائے گا ۔ اس کے بعد وہاں سے نکال لئے جائیں گے ۔ ان کی روایتوں میں یہ تعداد مختلف بتائی گئی ہے ۔
 بعض سات دن بتاتے ہیں ۔ بعض چالیس دن ۔ یعنی جتنے دن انہوں نے بچھڑے کی پوجا کی ۔ اور بعض کہتے ہیں ہر گنہگار کو اس کی عمر کے برابر  دوزخ میں رکھا جائے گا ۔ 
بنی اسرائیل اپنے آپ کو الله تعالی کا لاڈلا اور محبوب سمجھتے تھے ۔ اس کی دلیل میں وہ الله تعالی کے وہ انعامات بیان کرتے تھے جو الله تعالی نے ان پر وقتاً فوقتاً کئے ۔ اس کے لئے انہوں نے کئ روایتیں اپنے پاس سے گھڑ لی  تھیں ۔ جن کا ثبوت ان کی کتاب میں بالکل نہ ملتا تھا ۔ انہیں من گھڑت اور جھوٹی روایتوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ الله تعالی نے گناہوں کے بدلے اگر سزا دی تو وہ گنتی کے چند روز ہوں گے ۔ وہ ہمشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے ۔ 
الله جل جلالہ اپنے آخری نبی صلی الله علیہ وسلم کی معرفت ان سے پوچھتا ہے کہ کیا تم نے اس بات کا الله تعالی سے کوئی عہد یا قول  یا قرار لے لیا ہے ۔ جس کی پابندی کرنے پر وہ مجبور ہے ۔ 
یاتم نے خود اپنے پاس سے یہ باتیں بنا لیں ہیں ؟
اس کا جواب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اُن کے یہ سب دعوے من گھڑت ہیں ۔ ان باتوں کے لئے ان کے پاس  اپنے مذہب میں کوئی ثبوت یا سند موجود نہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
غور کرنے کا مقام ہے کہ آج ہم مسلمانوں میں بھی یہی عقیدہ جگہ پا رہا ہے ۔ بلکہ مسلمانوں کو بھی اس بات کا یقین ہے کہ ہم اگر اپنے اعمال کے سبب پکڑے گئے تو جلد ہی چھوڑ دئیے جائیں گے ۔ ہمیشہ دوزخ میں نہیں رہیں گے ۔ اور اسی عقیدے کی وجہ سے گناہوں پر دلیری بڑھتی جاتی ہے ۔ 
الله کریم ہمیں سیدھے راستے کی ھدایت دے ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...