نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*جنت اور دوزخ*

بَلَى ۔۔۔ مَن ۔۔۔۔۔۔ كَسَبَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سَيِّئَةً 
کیوں نہیں ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ اس نے کمایا۔۔۔۔  گناہ 
وَأَحَاطَتْ ۔۔۔۔۔۔۔    بِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  خَطِيئَتُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَأُولَئِكَ 
اور گھیر لیا ۔۔۔۔ اس کو ۔۔۔۔ اسکی خطاؤوں نے ۔۔۔۔ پس یہی لوگ 
أَصْحَابُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ النَّارِ ۔۔۔۔ هُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  فِيهَا 
ساتھی ۔صاحب ۔۔۔۔۔۔ آگ ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ اس میں 
خَالِدُونَ 8️⃣1️⃣
ہمیشہ رہنے والے 
وَالَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔وَعَمِلُوا ۔۔۔۔۔۔الصَّالِحَاتِ 
اور جو لوگ ۔۔۔۔ ایمان لائے ۔۔۔ اور عمل کئے ۔۔۔ ۔۔ نیک 
أُولَئِكَ ۔۔۔۔أَصْحَابُ ۔۔۔۔۔۔الْجَنَّةِ   8️⃣2️⃣
یہی لوگ ۔۔۔۔  صاحب ۔۔۔۔ جنت 
هُمْ ۔۔۔۔۔۔۔فِيهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خَالِدُونَ
وہ ۔۔۔ اس میں ۔۔۔۔ ہمیشہ رہنے والے 

بَلَى مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ
 هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ.  8️⃣1️⃣
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ
هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ.   8️⃣2️⃣

کیوں نہیں جس نے گناہ کمایا اور اسے اس کے گناہ نے گھیر لیا  سو وہی دوزخ کے رہنے والے ہیں  وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے  وہی جنت میں رہنے والے ہیں  وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ 

اَحَاطَتْ بِہِ خَطِیْئَتُهُ ۔ ( اس کو اس کے گناہ نے گھیر لیا ) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے جان بوجھ کر بدی کی راہ اختیار کی ۔ اور پھر گناہوں کے اندر اس طرح گھر گئے کہ ایمان کے لئے کوئی گنجائش باقی نہ رہی ۔ یہ حالت اہلِ کفر کی ہے ۔  مفسرین نے یہاں کافر مراد لئے ہیں ۔ 
عَمِلُوا الصّالِحَاتِ ۔ ( انہوں نے اچھے عمل کئے ) ۔الله کی رضا اور آخرت میں حصولِ جنت کے لئے اور  دُنیا میں کامیابی و کامرانی 
کے لئے ایمان کے ساتھ اچھے و نیک اعمال کو لازمی شرط قرار دیا گیا ہے ۔
 اچھے اعمال سے مراد وہ کام ہیں جو انسان الله تعالی کے حکم کے مطابق بجا لائے ۔ 
بنی اسرائیل نے بہت سے جھوٹے عقیدے گھڑ لئے تھے ۔ اور یہ عقیدے نسل در نسل چلے آرھے تھے ۔ مثلا یہ کہ وہ الله تعالی کے پیارے اور لاڈلے ہیں  ۔ انہیں ان کے گناہوں کی سزا نہیں ملے گی ۔ اگر ملی بھی تو صرف چند دن کے لئے ۔ نیز یہ کہ ان کے بزرگ بخشوا لیں گے ۔ 
ان عقیدوں کی آڑ میں یہ لوگ ہر ناجائز اور حرام عمل و کردار  کر گزرتے تھے ۔ اور اس خام خیالی اور دھوکے میں مبتلا تھے کہ ان کے لئے نبی آخر الزماں کی تعلیمات کو ماننا ضروری نہیں ہے ۔ 
الله جل جلالہ نے اس آیت میں انکے اس غلط خیال و گمان کی تردید کی ہے ۔ اور بتایا کہ نجات کا دارومدار صرف دو باتوں پر ہے ۔ پہلی یہ کہ انسان الله تعالی پر ایمان رکھتا ہو ۔ اور دوسری یہ کہ وہ نیک عمل کرتا ہو ۔ 
یعنی الله تعالی کے احکام کو سچے دل سے ماننے اور ان کی تعمیل  کرنے پر جزاء و سزا کا دارو مدار ہے ۔ 
خلود فی النار* ۔ ( ہمیشہ دوزخ میں رہنا ) ۔ کا ضابطہ* 
ایمان والوں کے لئے اوّل تو ایمان خود ایک بہت بڑا عمل صالح ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے نیک اعمال بھی نامۂ اعمال میں درج ہوتے رہتے ہیں اس لئے وہ نیکی کے اثر سے خالی نہیں ۔ گناہوں کا احاطہ ہونا یا گناہوں کے گھیر لینے سے خلود فی النّار ان کی حالت پر ثابت نہیں ہوتا ۔ 
کفر کے ساتھ نیک اعمال ضائع اور بے کار ہو جاتے ہیں ۔ اس لئے کفار میں سراپا بدی ہی بدی ہوگی جس کی سزا ہمیشہ کے لئے جہنم ہے ۔کیونکہ حضرت موسٰی علیہ وسلم آخری نبی نہیں ۔ بلکہ ان کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام  ہیں اور حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم  نبی بھی ہیں اور خاتم الانبیاء ہیں ۔۔۔ تو یہودی ان کا انکار کر کے کافروں میں شامل ہوگئے ۔  ۔ جب اس قاعدے کے مطابق کافر کا ابدی جہنمی ہونا ثابت ہو گیا تو  اسی  قانون کے مطابق یہودی بھی ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے شمار ہوں گے ۔
درس قرآن مرتبہ ۔۔۔ درس قرآن  بورڈ 
معارف القرآن ۔۔ از مفتی محمد شفیع رحمہ الله 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...