عورت اور مرد کی نماز میں فرق

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
🌿حدیث مبارک 🌿
”نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو“
کا صحیح معنی و مفہوم
از متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گهمن حفظہ اللہ
بعض لوگ مرد و عورت کی نماز میں فرق نہیں کرتے اور اپنے موقف پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں: 
صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي۔
(بخاری)
کہ اس طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔
🔦🔦 عرض ہے کہ پہلے یہ حدیث مبارک مکمل دیکھ لی جائے تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔پوری حدیث یوں ہے۔
حَدَّثَنَا مَالِكٌ أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا أَوْ قَدْ اشْتَقْنَا سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا فَأَخْبَرْنَاهُ قَالَ ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لَا أَحْفَظُهَا وَصَلُّواكَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ۔
(صحیح البخاری: حدیث نمبر631)
ترجمہ: حضرت مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم چند نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں بیس دن قیام رہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحم دل اور رقیق القلب تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے گھر جانے کا اشتیاق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ اپنے گھر کیسے چھوڑ کر آئے؟ ہم نے آپ کی خدمت میں (جو بات تھی) عرض کر دی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھر جاو اور ان کے ساتھ قیام کرو انہیں دین سکھاو اور دین کی باتوں کا حکم کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی چیزوں کا ذکر فرمایا جن کے متعلق حضرت مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ مجھے یاد ہیں یا یہ کہا کہ یاد نہیں اور (پھر) فرمایا اس طرح نماز پڑھنا جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا اور جب نماز کا وقت ہوجائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔
 حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ صحبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیس دن تک رہے اور جلدی واپس جانے کا اشتیاق ظاہر کیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ احکام بیان فرمائے۔ حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان حضرات کو سات احکامات ارشاد فرمائے تھے:
🔆 1: ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ [اپنے گھروں کو جاو]
🔆 2: فَأَقِيمُوا فِيهِمْ [ان کے پاس جا کر قیام کرو]
🔆 3: وَعَلِّمُوهُمْ [ان کو دین سکھاو]
🔆 4: وَمُرُوهُمْ [انہیں دن کی باتوں کا حکم دو]
🔆 5: وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي [اس طرح نماز پڑھنا جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا]
🔆 6: فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ [کوئی ایک اذان دے]
🔆 7: وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ [تم میں سے جو بڑا ہو وہ نماز پڑھائے]
 اس حدیث مبارک کے ایک ایک حکم میں غور کیا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ان احکامات کا تعلق صرف مردوں کے ساتھ ہے، عورتوں کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے۔ قارئین کرام! ”صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي“ سے پہلے چار اور اس کے بعد دو احکامات پر غور کریں۔
1⃣ حکم نمبر1: ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ [اپنے گھروں کو جاو]
ظاہر ہے کہ یہ حکم مردوں کو ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ان حضرات کے گھر والے نہیں گئے تھے بلکہ یہ حضرات اکیلے گئے تھے۔
2⃣ حکم نمبر 2: فَأَقِيمُوا فِيهِمْ [ان کے پاس جا کر قیام کرو]
اس حکم کا مردوں کے لیے ہونا ظاہر ہے۔
3⃣ حکم نمبر 3: وَعَلِّمُوهُمْ [ان کو دین سکھاو]
یہ حکم بھی ان مرد حضرات کے لیے ہے جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے تھے۔
4⃣ حکم نمبر 4: وَمُرُوهُمْ [انہیں دن کی باتوں کا حکم دو]
اس کا مردوں کے لیے ہونا ظاہر ہے۔
6⃣ حکم نمبر 6: فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ [کوئی ایک اذان دے]
اذان کا حکم بھی بالاتفاق مردوں کے لیے ہے۔ عورت اذان نہیں دے سکتی۔
7⃣ حکم نمبر 7: وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ [تم میں سے جو بڑا ہو وہ نماز پڑھائے]
اس قافلے میں مرد تھے اور انہیں خطاب تھا کہ تم میں سے جو بڑا ہو وہ امامت کرائے۔ ظاہر ہے کہ یہ خطاب بھی مردوں کو ہے، ظاہر ہے کہ کوئی عورت مردوں کی امامت نہیں کرا سکتی۔
 اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ پہلے چار احکامات ، اسی طرح چھٹے اور ساتویں حکم کا تعلق بالاتفاق مردوں کے ساتھ ہے
اور وہ لوگ جو فرق کے قائل نہیں وہ بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں…… تو یقینی بات ہے کہ درمیان کے حکم وَصَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي [اس طرح نماز پڑھنا جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا] کا تعلق بھی صرف مردوں کے ساتھ ہو گا۔ کیونکہ کوئی وجہ نہیں کہ سات احکامات میں سے چھے احکام تو مردوں کے ساتھ خاص کر لیے جائیں اور ایک حکم میں مرد و عورت دونوں کو شریک سمجھا جائے۔
💮 یہ بات بھی واضح رہے کہ اس خطاب میں مرد و عورت دونوں کے شامل ہونے کو جناب البانی صاحب کی کتاب ”صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم“ سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی کتاب میں صفحہ نمبر165 میں مرد کے لیے نماز میں سر ننگا کرنے کی گنجائش اور سر ڈھانپ کر نماز پڑھنےکو افضل قرار دیا گیا ہے لیکن صفحہ نمبر171 پر عورت کے لیے سر ڈھانپ کر نماز پڑھنے کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور بغیر اوڑھنی کے نماز پڑھنے پر ”نماز نہ ہونے“ کا حکم لگایا گیا ہے۔
معلوم ہوا خود اسی کتاب میں فرق موجود ہے۔
 مزید عرض ہے کہ شریعت میں مرد و عورت کی نماز میں واضح فرق موجود ہیں، مثلاً
 1: نماز میں سر ڈھانپنا مرد کے لیے سنت و مستحب ہے، مرد اگر سر ڈھانپے بغیر نماز پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی لیکن عورت اپنا سر ڈھانپے بغیر نماز ادا کرے تو اس کی نماز نہیں ہو گی۔
 2: مردوں کے لیے فرض نماز کے لیے مسجدوں میں آنا ضروری ہے لیکن عورت کی نماز گھر پر افضل ہے۔
 3: نماز کے لیے اذان مرد دے گا، عورت اذان نہیں دے سکتی۔
 4: اقامت مرد کہتا ہے، عورت نہیں۔
 جو لوگ جو مرد و عورت کی نماز میں فرق کے قائل نہیں، انہی میں سے ایک اور صاحب نے یہی دلیل (صحیح البخاری والی روایت) پیش کی لیکن صد حیر ت کہ وہ بھی فرق کا ذکر کیے بغیر نہ رہ سکے، چنانچہ اپنی کتاب ”مرد و زن کی نماز میں فرق؟“ کے صفحہ نمبر7 اور صفحہ نمبر8 پر رقمطراز ہیں:
”اسی طرح اگر عورت عورتوں کی امامت کرائے تو وہ صف کے درمیان کھڑی ہو گی مردوں کی طرح آگے نہیں۔ (بیہقی ج1 ص131) لیکن مرد امامت کراتے وقت آگے کھڑا ہو گا۔ (بخاری و مسلم و سنن اربعہ) اسی طرح مرد نماز میں امام کے بھولنے پر سبحان اللہ کہے اور عورت ایک ہاتھ پر دوسرے ہاتھ کی پشت مارے (مسلم ج1 ص180)“
 انہی صاحب نے اپنی اسی کتاب ”مرد و زن کی نماز میں فرق؟“ کے صفحہ نمبر38 پر لکھا ہے:
”عورتیں جمعہ کی فرضیت سے مستثنیٰ ہیں“
 اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ روایت ”صلّواکما رایتمونی اُصلّی“ س ے ”مرد و عورت کی نماز میں کوئی فرق نہزدیں“ کا استدلال کرنا کسی طرح بھی درست نہیں۔

پھر نہ کہنا حشر میں 
ہمیں خبر نہ تھی

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں