نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*کلام الله میں تحریف*

أَفَتَطْمَعُونَ ۔۔۔۔۔۔   أَن ۔۔۔۔۔۔  يُؤْمِنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَكُمْ
کیا پس تم طمع رکھتے ہو ۔۔۔ کہ ۔۔۔ وہ ایمان لائیں ۔۔۔ تمہارے لئے 
 وَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔ كَانَ ۔۔۔۔۔۔  فَرِيقٌ ۔۔۔۔۔۔ مِّنْهُمْ ۔
اور تحقیق ۔۔۔ وہہیں ۔۔۔۔ ایک گروہ ۔۔۔ ان میں 
يَسْمَعُونَ ۔۔۔۔۔۔ كَلَامَ ۔۔۔۔۔  اللَّهِ ۔۔۔۔ ثُمَّ 
وہ سنتے ہیں ۔۔۔۔۔ کلام ۔۔۔۔ الله ۔۔۔۔ پھر 
يُحَرِّفُونَهُ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ مِن ۔۔۔۔ بَعْدِ۔۔۔۔۔   مَا
وہ بدل ڈالتے ہیں اس کو ۔۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ بعد ۔۔۔۔ جو 
 عَقَلُوهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔   وَهُمْ ۔۔۔۔۔۔   يَعْلَمُونَ۔ 7️⃣5️⃣
سمجھا انہوں نے ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔۔ جانتے ہیں 

أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ
 مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ.  7️⃣5️⃣
اب کیا تم توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری بات مانیں گے اور ان میں سے ایک گروہ الله تعالی کا کلام سنتا تھا  پھر وہ جان بوجھ کر اسے بدل ڈالتے تھے  اور وہ اصل بات جانتے تھے ۔

تَطْمَعُوْنَ ۔ ( تم توقع رکھتے ہو ) ۔ یہ لفظ طمع سے نکلا ہے ۔ اس کے عام معنی لالچ کرنے اورحرص رکھنے کے ہیں ۔ اور دوسرے معنی امید اور توقع کے بھی ہیں ۔ اور یہاں یہی معنی مراد ہیں ۔
یُحَرِّفُوْنَہُ۔ ( وہ اسے بدل ڈالتے ہیں ) ۔ اس لفظ کا مادہ حرف ہے ۔ اور مصرد تحریف ہے ۔ جس کے معنی ہیں بدل ڈالنا ۔ یہ تبدیلی دو طریقوں سے ہوتی ہے ۔ 
*تحریف لفظی* ۔ 
لفظوں کو بدل دینا ۔ ان کا تلفّظ بدل دینا کہ لفظ کی حقیقت بد ل جائے ۔ 
مثلا یہودیوں نے *"حِطَّہٌ "* کی جگہ *حِنْطَۃ*    اور۔ راعِنَا* کی جگہ *راعینا* کہا ۔ 
*تحریف معنوی* 
الفاظ کے معنی بدل دینا ۔  ترجمہ اور تشریح کو کچھ سے کچھ کر دینا ۔
الله تعالی نے یہودیوں کی تاریخ کے اہم واقعات سنا کر پچھلی آیت میں یہ بتایا کہیہ لوگ ان باتوں سے کوئی عبرت قبول کرنے والے نہیں ۔ کیونکہ ان کے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوچکے ہیں ۔ ان کے دلوں پر عبرتناک واقعات کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ 
اس آیت میں الله تعالی مسلمانوں کو سمجھاتا ہے کہ کیا تم اس بات کی آرزو کرتے ہے کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے ۔ حالانکہ ان کے بڑوں میں حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانے میں اور ان کے بعد بھی ایک فریق ایسا تھا ۔ جو الله تعالی کا کلام سننے کے بعد جان بوجھ کر اس میں تحریف کرتا تھا ۔ ۔ جب اُن کے بڑوں کا یہ حال تھا تو پھر ان سے بعد آنے والوں سے کس طرح امید ہو سکتی ہے ۔ یہ بد نیت لوگ ہیں ۔ یہ ہرگز ایمان نہیں لا ئیں گے ۔ 
الله تعالی کے اس اعلان سے پتہ چلتا ہے ۔ کہ یہودیوں کے  اسلام لانے کی مسلمانوں کو کچھ زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہئیے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...