نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*بنی اسرائیل کا تعصب*

وَقَالُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قُلُوبُنَا ۔۔۔۔ غُلْفٌ ۔۔۔۔۔۔۔  بَل 
اور وہ کہتے ہیں ۔۔۔ ہمارے دل ۔۔۔۔ غلاف ۔۔۔۔ بلکہ 
لَّعَنَهُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِكُفْرِهِمْ 
لعنت کی اس نے ان پر ۔۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔۔ ان کے کفر کی وجہ سے 
فَقَلِيلًا۔۔۔۔۔۔۔   مَّا ۔۔۔   يُؤْمِنُونَ۔  8️⃣8️⃣
پس تھوڑے ہیں ۔۔۔۔ جو ۔۔۔ وہ ایمان لاتے ہیں 

وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ
فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ. 8️⃣8️⃣

اور وہ کہتے ہیں ہمارے دلوں پر غلاف ہے ۔ بلکہ الله تعالی نے ان کے کفر کے سبب لعنت کی ہے ۔ سو بہت کم ایمان لاتے ہیں ۔

غُلْفٌ ۔ ( غلاف ) ۔ اس کا واحد اَغْلَفْ  ہے ۔ اور اس کے معنی ہیں ڈھکی ہوئی چیز ۔ یعنی وہ چیز جو غلاف میں لپٹی ہوئی اور پردوں میں چھپی ہوئی ہو ۔ یہودی اس بات کے دعوے دار تھے کہ ہمارے دل تو ڈھکے ہوئے ہیں ۔ اور حضرت موسٰی علیہ السلام کی تعلیمات سے بھرے ہوئے ہیں ۔ اس لئے ہمیں کسی نئی تعلیم کو قبول کرنے کی ضرورت نہیں ۔ 
لَعَنَھُمُ اللهُ ۔ ( الله تعالی نے ان پر لعنت کی ) ۔ لعنت کے معنی ہیں۔ بُعد عن الرحمہ  ( رحمت سے دوری ) ۔ یعنی کسی کا الله تعالی کے لطف و کرم اور رحمت سے محروم ہوجانا ۔ اسے پھٹکار بھی اسی لئے کہتے ہیں کہ ایسے شخص کی طرف پھر منہ نہیں کیا جاتا ۔ 
قَلِیْلاً ۔ ( تھوڑے ) ۔ بہت کم ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ کبھی کبھی دھندلا سا رجحان ، لگاؤ ایمان کی طرف ظاہر کرتے ہیں اور ان میں سے بہت کم لوگ ایمان لاتے ہیں ۔ اکثریت سر کشی اور بے ایمانی کیطرف مائل تھی ۔ 
جب الله تعالی نے یہودیوں کے من گھڑت عقیدوں کو باطل قرار دے دیا اور انہیں واضح طور پر غلط ثابت کر دیا تو یہودیوں کے پاس اب کوئی دلیل باقی نہ رہی ۔ انہوں نے یہ بہانہ بنانا شروع کر دیا کہ ہمارے دل غلاف کے اندر محفوظ ہیں ۔ اور ہمارے اپنے دین کے علاوہ ہم پر کوئی چیز اثر نہیں کر سکتی ۔ ہم کسی کے سمجھنے اور سمجھانے سے ہرگز اس کی اطاعت یا فرمانبرداری نہیں کریں گے ۔ 
یہودی اپنی اس جھوٹی دلیل کو بڑے فخر سے پیش کرتے تھے ۔ لیکن الله تعالی نے صاف صاف الفاظ میں بتا دیا کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں ۔ کوئی غلاف وغیرہ کچھ نہیں ۔ بلکہ ان کے مسلسل کفر کی وجہ سے الله تعالی نے ان پر لعنت بھیج دی ہے ۔ جس کے پردے ان کے دلوں پر پڑے ہوئے ہیں ۔ انہیں اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے اس لئے وہ سچے دین کو نہیں مانتے ۔ ان میں سے بہت کم آخری نبی صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائے ہیں ۔ 
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اگر انسان الله تعالی کی آیات کا کفر کرے یا ان کو اپنی مرضی سے بدل دے یا مسلسل نافرمانی کرے ۔ تو الله تعالی اس پر لعنت بھیج دیتا ہے ۔ ایسا آدمی ایمان دین اور نیکی کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو سکتا ۔ 
الله رحیم و کریم ہمیں دل و جان سے اپنی فرمانبرداری اور اطاعت کی توفیق عطا فرمائے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...