نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*عہد شکنی اور نا فرمانی*

ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔۔ أَنتُمْ ۔۔۔۔ هَؤُلَاءِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    تَقْتُلُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أَنفُسَكُمْ 
پھر تم ۔۔۔۔ ہو تم ۔۔۔ وہی لوگ ۔۔۔ تم قتل کرتے ہو ۔۔۔ اپنی جانوں کو 
وَتُخْرِجُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَرِيقًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِّنكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔  مِّن 
اور تم نکالتے ہو ۔۔۔۔۔ ایک فریق ۔۔۔۔۔ تم میں سے ۔۔۔۔ سے 
دِيَارِهِمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  تَظَاهَرُونَ ۔۔۔۔۔   عَلَيْهِم ۔۔۔۔۔۔۔۔    بِالْإِثْمِ 
ان کے گھر ۔۔۔۔ تم چڑھائی کرتے ہو ۔۔۔ ان پر ۔۔۔ گناہ سے 
وَالْعُدْوَانِ 
اور زیادتی 

ثُمَّ أَنتُمْ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ 

پھر تم وہ لوگ ہو کہ آپس میں تم خون کرتے ہو اور اپنے ایک گروہ کو ان کے وطن سے نکال دیتے ہو  ان پر گناہ اور ظلم سے چڑھائی کرتے ہو ۔ 

بِا لْاِثْمِ وَالْعُدْوَان ۔ ( گناہ اور ظلم ) ۔ اثم کے معنی گناہ ہیں ۔ چنانچہ  اٰثِمٌ گناہگار کو کہتے ہیں ۔ عدوان۔  کے لفظی معنی سرکشی اور بغاوت کے ہیں ۔ اعتدا ۔۔۔ حد سے بڑھنے کو کہتے ہیں ۔ یہاں یہ لفظ طلم کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔
 اس جملے سے پتا چلتا ہے کہ بنی اسرائیل آپس میں جو قتل و خونریزی کرتے تھے  اور اپنے ہم وطنوں کو جلا وطن کر دیتے تھے ۔ وہ اصولوں کی خاطر نہیں بلکہ محض گناہ اور ظلم وستم کے طور پر ہوتا تھا ۔ جو قوم اپنوں سے یہ سلوک کرتی ہے وہ دوسروں سے کیا نیکی کر سکتی ہے ۔ 
اس آیت میں الله تعالی یہودیوں کو جتلاتا ہے کہ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ نہ تو تم آپس میں خونریزی کرو گے اور نہ ایک دوسرے کو جلا وطن کرو گے ۔ لیکن تم اس وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہو ۔ ایک دوسرے کا خون بہاتے ہو اور اپنے بھائیوں میں سے ایک دوسرے کو گھروں سے بھی نکال دیتے ہو ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں بنی اسرائیل کے جو دو قبیلے بنو نضیر اور بنو قریضہ مدینہ اور اس کے آس پاس آباد تھے ۔ ان کی عادت تھی کہ ہمیشہ آپس میں  جنگوں میں مصروف رہتے تھے ۔ مشرکینِ مکہ کے بھی دو قبیلے اوس اور خزرج وہاں آباد تھے ۔ یہودیوں کا ایک قبیلہ مشرکوں کے ایک جتھے کے ساتھ ہو جاتا اور دوسرا دوسرے گروہ کے ساتھ ۔ اور جب جنگ شروع ہوتی تو تو وہ سب کچھ ہوتا جو جنگ میں ہوتا ہے ۔ یعنی  قتل اور جلا وطنی وغیرہ ۔ 
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے بارہ فرقوں میں سخت اختلاف پیدا ہوا ۔ ان کی آپس میں بہت خونریزیاں ہوئیں ۔جس کے نتیجے میں ان کی حکومت برباد ہو گئی ۔ وہ دوسروں کے غلام بن گئے ۔ اور انتہائی ذلت اور رسوائی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...