نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*آخرت کا توشہ*

وَأَقِيمُوا ۔۔۔  الصَّلَاةَ ۔۔۔۔۔ وَآتُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ الزَّكَاةَ 
اور تم قائم کرو ۔۔۔ نماز ۔۔۔ اورتم ادا ۔۔۔ کرو زکوۃ 
وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ تُقَدِّمُوا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ لِأَنفُسِكُم ۔۔۔ ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔۔۔۔  خَيْرٍ 
اور جو ۔۔ تم آگے بھیجو گے ۔۔ اپنی جان کے لئے ۔۔۔ سے ۔۔ بھلائی 
تَجِدُوهُ ۔۔۔۔۔ ۔۔ عِندَ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ إِنَّ 
تم پاؤ گے اسے ۔۔ پاس ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ بےشک 
اللَّهَ ۔۔۔ بِمَا ۔۔۔۔۔ ۔۔ تَعْمَلُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ بَصِيرٌ۔ 1️⃣1️⃣0️⃣
الله تعالی ۔۔۔ اس کو جو ۔۔۔ تم کرتے ہو ۔۔۔ دیکھنے والا ہے 

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ
إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ. 1️⃣1️⃣0️⃣

اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو  اور جو کچھ بھلائی تم آگے بھیج دو گے وہ الله تعالی کے پاس پاؤ گے ۔ بے شک الله تعالی جو کچھ تم کرتے ہو اسے دیکھتا ہے 

جیسا کہ ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ یہودیوں کے اسلام نہ قبول کرنے کی بڑی وجہ ان کا حسد تھا ۔ وہ اس بات سے سخت تکلیف میں تھے کہ نبوت بنی اسرائیل سے نکل کر بنو اسماعیل میں کیوں چلی گئی ۔ اور صرف اس تعصب اور حسد کی آگ کی وجہ سے حق قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے 
وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو بھی ان کے دین سے پھیر کر اپنے ساتھ ملا لیں ۔ اور انہیں بھی کافر بنا لیں ۔ اس لئے وہ مسلمانوں کے دلوں میں طرح طرح کی بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ۔ دین اسلام اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پاک ذات پر اعتراض کرتے ۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمان اپنا دین نہ چھوڑیں گے تو کم از کم اپنے مذہب کی طرف سے بددل ضرور ہو جائیں گے ۔ اور اس طرح اسلام میں کمزوری پیدا ہو جائے گی ۔
یہودیوں کے اس حملے اور کوششوں کو دُور کرنے کے لئے الله تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم ان کی طرف توجہ نہ دو ۔ بلکہ الله تعالی کے آخری حکم جہاد کے اعلان کا انتظار کرو ۔ اپنی کمزوری کی وجہ سے شک میں نہ پڑو ۔ الله تعالی تمہیں غالب اور یہودیوں کو ذلیل کرے گا ۔
 اور اس دوران دو بنیادی اُصولوں پر جم جاؤ ۔ اوّل یہ کہ نماز قائم کرو ۔ دوم زکوۃ ادا کرتے رہو ۔ یہ دونوں اُصول ایسے ہیں ۔ جن سے فرد اور جماعت دونوں کی قوت بڑھتی ہے ۔ اور وہ دین سے منہ نہیں پھیر سکتی ۔ 
دوسرے بے شمار فوائد کے علاوہ نماز قائم کرنے سے قوم کی تنظیم مضبوط ہوتی ہے ۔ لوگوں کا آپس میں تعلق گہرا ہوتا ہے ۔ اور وہ ایک دوسرے کے لئے متحد ہوتے ہیں ۔ زکوۃ سے دولت کی تقسیم ہوتی ہے غریب لوگ امیر بن جاتے ہیں اور اپنی مالی کمزوری کی وجہ سے کسی لالچ میں آکر دین سے متنفر نہیں ہوتے ۔ 
اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ اگرتم نیک اعمال کرتے رہو گے تو ان کا اجر تمہارے رب کے پاس موجود ہوگا ۔ کیونکہ وہ تمہارے ہر عمل کو دیکھتا ہے ۔ الله تعالی تمہارے کاموں سے غافل ہرگز نہیں تمہاری کوئی نیک بات ضائع نہیں ہو سکتی  اور معمولی سی کوشش بھی بے کار نہیں جاسکتی ۔
ہمیں چاہئیے کہ اپنے دشمنوں کے حملوں اور سازشوں سے بچنے کے لئے ان دو اُصولوں کو مضبوطی سے تھام لیں ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...