نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*نبی سے سوالات*

أَمْ ۔۔۔۔۔۔ تُرِيدُونَ ۔۔۔۔ ۔۔۔ أَن ۔۔۔۔۔۔۔ تَسْأَلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ رَسُولَكُمْ 
کیا ۔۔۔ تم ارادہ کرتے ہو ۔۔۔ یہ ۔۔ تم سوال کرو ۔۔۔ اپنے رسول سے 
كَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سُئِلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُوسَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِن قَبْلُ 
جیسا کہ ۔۔۔ سوال کیا گیا ۔۔۔ موسٰی علیہ السلام ۔۔۔ اس سے پہلے 
وَمَن ۔۔۔۔۔۔ ۔۔  يَتَبَدَّلِ ۔۔۔۔۔۔ ۔ الْكُفْرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ بِالْإِيمَانِ 
اور جو شخص ۔۔۔ وہ تبدیل کرتا ہے ۔۔۔ کفر ۔۔۔ بدلے ایمان کے 
فَقَدْ ۔۔ ضَلَّ ۔۔۔ سَوَاءَ ۔۔۔ السَّبِيلِ۔  1️⃣0️⃣8️⃣
پس تحقیق ۔۔۔ وہ گمراہ ہو گیا ۔۔۔ سیدھا ۔۔ راستہ 

أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِن قَبْلُ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ.  1️⃣0️⃣8️⃣
کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے سوال کرو  جیسے اس سے پہلے موسٰی علیہ السلام سے سوال ہو چکے ہیں  اور جو کوئی ایمان کے بدلے کفر اختیار کرے وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا 

پچھلے سبق میں آیات کے منسوخ ہونے کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ الله تعالی جو کوئی حکم منسوخ کرتا ہے یا لوگوں کو بُھلا دیتا ہے تو اس سے بہتر یا اس جیسا حکم ضرور نازل فرماتا ہے ۔ واقعات اور تاریخ کی روشنی میں یہ بات ثابت شدہ ہے ۔ کہ جب بھی کوئی کتاب انسانوں کے ذہن سے فراموش ہوئی یا منسوخ قرار پائی تو دوسری کتاب اس جیسی یا اس سے بہتر نازل ہوگئی ۔ اور الله کے بندے ہدایت سے محروم نہ رکھے گئے ۔
اس آیت میں ایک اور اہم مسئلے پر روشنی ڈالی گئی 
یہودی مسلمانوں کے دلوں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور قرآن مجید کے بارے میں طرح طرح کے شک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ۔ اور انہیں کہتے کہ انہیں دور کرنے کے لئے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم سے جواب معلوم کرو ۔ دراصل ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اگر مسلمان ہمارے مذہب کو قبول نہیں کرتے تو کم از کم وہ اپنے دین ہی سے بد دل ہو جائیں گے اور اپنی مذہبی تعلیمات سے بدگمان ہو جائیں گے ۔ بعض مسلمان ان کی اس سازش اور چال سے بے خبر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے آکر بے مقصد سوال کرتے ۔ الله تعالی نے انہیں اس چیز سے منع فرمادیا ۔ 
یعنی یہودیوں کی باتوں پر ہرگز اعتماد نہ کرو ۔ جس کسی کو یہودیوں کے شک  ڈالنے سے دین میں شبہ پیدا ہوگیا  اس کا ایمان جاتا رہا ۔
 اور یہودیوں کے کہنے میں آکر تم اپنے نبی کے پاس شبہے نہ لاؤ جیسے وہ اپنے نبی کے پاس لے کر جاتے تھے 
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے سوال کرنے کی ممانعت ایک اور مقصد سے بھی ہوئی ہے ۔ بار بار سوال کرنے سے انسان اپنے اوپر خود پابندی اور مشکلات کے اضافہ  کا سبب بنتا ہے ۔ آسان حکم مشکل ہو جاتے ہیں ۔ جن باتوں میں آزادی ہوتی ہے ۔ حکم آنے سے ان باتوں میں بھی پابندی لگ جاتی ہے ۔ یہودیوں کے ساتھ یہی ہوا تھا  ۔ گائے کا واقعہ بطورِ مثال ہمارے سامنے موجود ہے ۔ 
اور آج بھی کفار طرح طرح سے کم علم  مسلمانوں کو دین کے معاملات میں شک اور شبہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ اس معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔جب تک حقیقی مسلمان علماء سے مسئلہ کا صحیح جواب معلوم نہ ہو جائے اس وقت تک اس میں شک کرنا بھی منع ہے ۔ چہ جائیکہ کہ اس پر فضول بحث و مباحثہ شروع کر دیا جائے ۔
الله رحیم و کریم ہمیں ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ رکھے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...