نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*سحر یعنی جادو کی حقیقت*

سحر یا جادو ہر اس عمل کو کہتے ہیں جس کی وجہ واضح نہ ہو  
 خواہ وہ وجہ معنوی ہو جیسے خاص خاص کلمات کا اثر 
یا غیر محسوس چیزوں کا ہونا ہو ۔۔۔ جیسے جنات یا شیاطین  کا اثر 
یا مسمریزم میں قوت خیالی کا اثر 
یا محسوسات کا اثر ہو خواہ وہ محسوسات چھپے ہوئے ہوں  جیسے مقناطیس کا اثر لوہے کے لئے ۔ 
جبکہ مقناطیس نظروں سے پوشیدہ ہو ۔
یا دواؤں کا اثر جب کہ وہ دوائیں ظاہر نہ ہوں پوشیدہ ہوں 
یا نجوم و ستارے ، سیارے وغیرہ کا اثر 
اسی لئے جادو کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ لیکن عام طور پر جادو ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جن میں جنات اور شیطانوں وغیرہ کا عمل دخل ہو ۔ یا خیال کی قوت ٹیلی پیتھی ۔ مسمریزم ۔ یا پھر کچھ الفاظ و کلمات کا ۔ یا ایسی تاثیرات جو انسانی بالوں ، ناخنوں وغیرہ اعضا یا استعمال شدہ کپڑوں کے ساتھ دوسری چیزیں شامل کر کے پیدا کی جاتی ہیں ۔ جن کو ٹونہ ٹوٹکا کہا جاتا ہے اور جادو میں شامل سمجھا جاتا ہے ۔
کیونکہ یہ بات عقلا بھی ثابت ہے اور تجربہ اور مشاہدہ سے بھی ثابت ہے ۔ 
اور قرآن و سنت کی اصطلاح میں ہر ایسے عجیب کام کو جادو کہا جاتا ہے جس میں شیاطین کو خوش کرکے ان کی مدد حاصل کی جائے ۔
پھر شیطان کو راضی کرنے کے مختلف طریقے ہیں ۔ 
کبھی ایسے منتر اختیار کئے جاتے ہیں جن میں کفر و شرک کے کلمات ہوں ۔ اور شیطان کی تعریف ہو 
یا ستارے ، سیاروں کی عبادت اختیار کرے جن سے شیطان خوش ہوتا ہے ۔ 
کبھی ایسے اعمال کئے جاتے ہیں جو شیطان کو پسند ہیں ۔ مثلا کسی کا ناحق قتل کرکے اس کا خون استعمال کرنا ۔ جنابت و نجاست کی حالت میں رہنا ۔ پاکیزگی سے اجتناب کرنا ۔
اور جادو یا سحر اُن لوگوں کا ہی کامیاب ہوتا ہے جو گندے اور نجس رہیں ۔ پاکی اور الله تعالی کے نام سے دور رہیں ۔ خبیث کاموں کے عادی ہوں ۔ 
*جادو کی اقسام*
امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ سحر کی مختلف اقسام ہیں ۔ 
📌
ایک قسم تو محض نظر بندی اور تخیل ہوتی ہے جس کی کوئی حقیقت اصلی نہیں جیسے بعض شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی چالاکی سے ایسے کام کر لیتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظریں اس کو دیکھ نہیں پاتی ۔ 
خیالی قوت یا مسمریزم ، ٹیلی پیتھی سے کسی کے دماغ پر ایسا اثر ڈالا جائے کہ وہ ایک چیز کو آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے مگر حقیقت میں اس چیز کا کوئی وجود نہیں ہوتا
فرعون کے جادوگروں کا جادو یہی تھا 

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے
سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ 
اعراف ۔۔ ۱۱۶ 
انھوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا 
اور فرمایا ۔۔۔ 
يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى
طٰہٰ ۔ ۶۶ 
 تو یکایک انکی رسیاں اور لاٹھیاں موسٰی علیہ السلام کے خیال میں ایسی آنے لگیں کہ وہ میدان میں ادھر ادھر دوڑ رہی ہیں۔
 
اس میں  یخیُّل کے لفظ سے بتا دیا گیا کہ رسیاں اور لاٹھیاں جو ساحروں نے ڈالی تھیں نہ درحقیقت سانپ بنی اور نہ انہوں نے حرکت کی ۔ بلکہ لوگ اور حضرت موسی علیہ السلام کی قوت متخیلہ متاثر ہو کر انہیں دوڑنے والے سانپ سمجھنے لگی ۔ 
📌 
چنانچہ دوسری قسم اس طرح کے اثرات ہیں جو شیاطین کی وجہ سے ہوتے ہیں اور ان میں شیطان کا پورا عمل دخل ہوتا ہے 

جیسا کہ قرآن مجید میں الله کریم کا ارشاد ہے ۔

هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ
تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ
الشعراء ۔ ۱۲۱-۱۲۲ 
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان یعنی جنات کس پر اترتے ہیں۔
وہ ہر جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں
اور فرمایا 
وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ 
بقرہ ۔۱۰۲ 
 بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے
📌
*سحر اور معجزے میں فرق* 
جادو اور معجزے میں فرق ایک تو حقیقت کے اعتبار سے ہے کہ جادو یا سحر سے جو چیزیں یا باتیں واقع ہوتی ہیں وہ دائرہ اسباب سے الگ کوئی چیز نہیں ۔ بس یہ کہ ان کے اسباب چھپے رہتے ہیں اسی لئے عوام اس کا سبب نہ جاننے کی وجہ سے حیران ہوتے ہیں ۔ اور اسے عادت کے خلاف اور انوکھی چیز سمجھتے ہیں ۔
مثلا ایک خط مشرقِ بعید سے آج کا لکھا ہوا اچانک سامنے آکر گر جائے تو حیرت ہوگی ۔ حالانکہ جنوں اور شیاطین کو اس بات کی طاقت دی گئی ہے 
اس کے برعکس معجزے میں اصل حق تعالی کا فعل ہوتا ہے اور اسباب کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔
مثلا ۔۔ ابراھیم علیہ السلام کے لئے نمرود کی  آگ کو الله تعالی نے حکم دیا کہ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا ۔ پس حکم الہی سے آگ ٹھنڈی ہو گئی ۔ 
آج بھی بعض لوگ بدن پر کچھ دوائیں وغیرہ استعمال کرکے آگ کے اندر چلے جاتے ہیں ۔ وہ معجزہ نہیں بلکہ دواؤں کا اثر ہوتا ہے ۔ اور لوگوں کو علم نہ ہونے کی وجہ سے دھوکا  خرقِ عادت کا ہوتا ہے 
جیسا کہ قرآن مجید میں الله جل شانہ نے فرمایا 

وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى 
کنکریوں کی مٹھی جو آپ نے پھینکی ۔ درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی بلکہ الله تعالی نے پھینکی ۔

اور یہ ایک مٹھی خاک تمام مجمع کی آنکھوں میں پہنچ جانا خالص حق تعالی کا فعل ہے ۔ یہ معجزہ غزوہ بدر میں پیش آیا 
اب یہ تو ظاہر ہوگیا کہ معجزہ بغیر اسباب کے الله تعالی کی طرف سے واقع ہوتا ہے ۔ اور جادو کے اسباب موجود ہوتے ہیں اگرچہ وہ نگاہوں سے پوشیدہ ہوں ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کو پہچانا کیسے جائے ۔ 
اول یہ کہ معجزہ یا کرامت ایسے شخص سے ظاہر ہوتی ہے جو متقی ، پرھیز گار ، پابند شریعت و سنت اور پاک صاف ہو ۔
اور جادو کا اثر صرف ان لوگوں سے ظاہر ہوتا ہے جو گندے ، ناپاک ، الله کے نام سے دور اور اس کی عبادت سے کوسوں پرے رہتے ہیں ۔ 
استفادہ ۔۔۔ معارف القرآن 
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله 



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...