نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*ہر طرف الله ہی کا جلوہ ہے*

وَلِلَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ الْمَشْرِقُ ۔۔۔۔۔۔  وَالْمَغْرِبُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَأَيْنَمَا 
اور الله ہی کے لئے ہے ۔۔۔ مشرق ۔۔۔ اور مغرب ۔۔ پس جہاں کہیں ہوتم 
تُوَلُّوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَثَمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وَجْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    اللَّهِ 
تم پھیر لو ۔۔۔ پس وہاں ہی ۔۔۔ متوجہ ہے ۔۔۔ الله تعالی 
إِنَّ ۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔ وَاسِعٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلِيمٌ۔ 1️⃣1️⃣5️⃣
بے شک ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ وسعت والا  ۔۔۔ سب کچھ جاننے والا ہے 

وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ.  1️⃣1️⃣5️⃣

اور مشرق اور مغرب الله تعالی ہی کا ہے ۔ سو جس طرف تم منہ کرو الله تعالی وہاں ہی متوجہ ہے ۔ بے شک الله تعالی بے انتہا بخشش کرنے والا سب کچھ جاننے والا ہے ۔ 

وَجْہُ ۔ ( چہرہ ) ۔ لفظی معنی ہیں چہرہ ۔ اس کے دوسرے معنی ذات کے بھی ہوتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ تم جس طرف بھی رُخ کرو الله تعالی کی ذات وہاں موجود ہے ۔اور تم جہاں بھی جاؤ الله تعالی کو موجود پاؤ گے ۔ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب اُس کے ہیں ۔ 
جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ الله تعالی بھی زمان و مکان کی قید میں ہے ۔ اس لئے اس کی طرف منہ کرنے کے لئے ہمیں بھی کسی خاص سمت میں مڑنا چاہئیے ۔ وہ یہ سمت خود ہی فرض کرکے اسکی طرف منہ کر کے پوجا کیا کرتے تھے ۔ یہود و نصاری میں بھی آپس میں اس بات کا جھگڑا تھا ۔ ہر ایک نے ایک سمت مقرر کر رکھی تھی ۔وہ اسی سمت کو بہتر تصور کرتے تھے ۔ 
قرآن مجید میں الله تعالی نے اس باطل عقیدے کی تردید کی ۔ اور بتایا کہ الله تعالی کسی خاص عبادت گا ہ کی چار دیواری کے اندر محدود نہیں ہے ۔ اور نہ وہ کسی مکان اور سمت میں قید ہے ۔بلکہ جہاں کہیں بھی اخلاص کے ساتھ اسے یاد کیا جائے گا وہ متوجہ ہو گا ۔ وہ کسی خاص مقام ، کسی خاص شہر یا سمت کے ساتھ مخصوص اور وابستہ نہیں ۔ 
الله تعالی تمام کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اس کی کوئی حد نہیں ۔ وہ ہر جگہ ہے ۔اس لئے جس جگہ ، جس وقت جس رُخ بھی اسے خلوص سے پکارا جائے ۔ وہ ضرور متوجہ ہوگا ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون سچے دل سے مجھے پکارتا ہے اور کون محض دکھاوے کے لئے ۔ 
اس آیت کا ایک شان نزول یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مسافر اور سوار کو  قبلہ رُخ معلوم کرنا کیونکہ مشکل  ہوتا ہے اس لئے حکم ہوا کہ اس وقت جس طرف بھی رُخ کر کے نماز پڑھو گے وہ قبول ہو گی ۔ کیونکہ الله جل شانہ ہر سمت اور ہر جگہ پر حاوی ہے ۔چنانچہ مسئلہ یہ ہے کہ نماز کے لئے اگر قبلہ کا صحیح رُخ معلوم نہ ہو سکے تو جس طرف ظن غالب ہو اور دل گواہی دے ۔ اسی طرف رُخ کرکے نماز ادا کر لو ۔ اور نفل نماز اگر سواری پر ہو تو خواہ سواری کی سمت بدل جائے ۔ تم اپنی نماز جاری رکھو ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...