نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*یہود و نصارٰی کی خواہش*

وَلَن ۔۔۔۔۔۔  تَرْضَى ۔۔۔۔۔۔ عَنكَ ۔۔۔۔۔۔۔الْيَهُودُ 
اور ہرگز نہیں ۔۔۔ راضی ۔۔۔تجھ سے ۔۔۔ یہودی 
 وَلَا ۔۔۔ النَّصَارَى ۔۔۔۔۔۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔ تَتَّبِعَ 
اور نہ ۔۔۔ عیسائی ۔۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔  تو پیروی کرے 
مِلَّتَهُمْ ۔۔۔۔۔ قُلْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ هُدَى اللَّهِ 
ان کا دین ۔۔۔  تو کہہ ۔۔۔ بے شک ۔۔۔ الله تعالی کی ہدایت 
هُوَ ۔۔۔ الْهُدَى ۔۔۔۔۔۔ وَلَئِنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اتَّبَعْتَ 
وہ ۔۔ ہدایت ۔۔۔ اور اگر ۔۔۔ پیروی کی تُو نے 
أَهْوَاءَهُم ۔۔۔ بَعْدَ ۔۔۔ الَّذِي ۔۔۔ جَاءَكَ 
ان کی خواہشات ۔۔۔ بعد ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ آچکا 
مِنَ ۔۔ الْعِلْمِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَكَ ۔۔۔۔۔۔۔ مِنَ ۔۔۔اللَّهِ 
سے ۔۔۔ علم ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ تیرے لئے ۔۔۔ سے ۔۔۔ الله 
مِن ۔۔۔ وَلِيٍّ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔نَصِيرٍ۔ 1️⃣2️⃣0️⃣
سے ۔۔۔ دوست ۔۔۔ اورنہ ۔۔۔ مدگار 

وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ.  1️⃣2️⃣0️⃣

اور آپ سے یہودی ہرگز نہ راضی  ہوں گے اور نہ ہی نصارٰی جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کریں  تو آپ فرما دیجئے کہ الله تعالی جس راہ کی ہدایت دے وہی سیدھی راہ ہے ۔ اور اگر  ( بالفرض ) آپ ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے اس علم کے بعد جو آپ کو مل چکا ۔ تو الله تعالی کے نزدیک آپ کا کوئی حمایت کرنے والا اور مددگار نہیں ۔ 

مِلَّتَھُمْ ۔ ( ان کا دین ) ۔ اُردو میں لفظ ملت قوم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ عربی میں اس کے معنی مسلک ، دین اور طریقہ کے ہوتے ہیں ۔ 
اَھْوَاءَھُمْ ۔ ( اُن کی خواہشات ) ۔ اھوا سے مراد وہ خیالات اور آراء ہیں جن کی بنیاد علم اور حقیقت پر نہ ہو ۔ بلکہ نفسانی خواہشات پر ہو ۔ اھواء کا واحد   ھواء ہے ۔ 
یہودی اور عیسائی اس قدر متعصب تھے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم خواہ ان سے کتنا ہی ہمدردی کا برتاؤ کرتے یا ان کی کتنی ہی رعایت کرتے ۔ وہ ہرگز آپ کی بات ماننے یا سننے کے لئے تیار نہ ہوتے ۔ وہ صرف اس صورت میں آپ سے خوش ہو سکتے تھے ۔ جب آپ ان کا دین قبول کر لیتے ۔ 
الله جل شانہ فرماتا ہے کہ حقیقی راہ ھدایت اور سچا دین وہی ہے جو اس نے اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کو دیا ۔ یعنی الله کی اطاعت اور صالح اعمال ۔ جتنی الگ الگ گروہ بندیاں کر لی گئی ہیں یہ سب انسانی گُمراہی کی پیداوار ہیں ۔ جو شخص الله تعالی کی بتائی ہوئی سیدھی راہ سے جان بوجھ کر منہ موڑے گا اس کے لئے سخت سزا مقرر ہے ۔اور اس سزا سے بچانے والا اس کا کوئی حامی اور مددگار نہیں ہوگا ۔ 
اس آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہو جاتی ہیں ۔۔۔ 
اول ۔۔۔ یہ کہ اہل کتاب کا دین اس قدر بدل چکا ہے کہ اس میں ان کی جھوٹی خواہشات اور آرزوؤں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا ۔ 
دوسرا ۔۔۔ یہ کہ حقیقی راستہ وہی ہے جو الله تعالی نے حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے سے انسانوں پر اچھی طرح واضح کر دیا ہے ۔ کیونکہ ہر زمانے میں وہی ہدایت معتبر ہے جو اُس زمانے کا نبی لائے ۔ اس لئے وہ اسلام کا طریقہ ہی ہے ۔ یہود و نصارٰی کا طریقہ نہیں ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...