نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*حضرت ابراھیم علیہ السلام کی قیادت و امامت*

وَإِذِ ۔۔۔۔ ابْتَلَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِبْرَاهِيمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رَبُّهُ 
اور جب ۔۔ آزمایا ۔۔۔  ابراھیم علیہ السلام ۔۔ اس کا رب 
بِكَلِمَاتٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَأَتَمَّهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَالَ 
کئی باتوں میں ۔۔۔ پس پورا کر دیا اس نے اُن کو ۔۔۔ فرمایا
إِنِّي۔۔۔۔۔۔۔۔  جَاعِلُكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لِلنَّاسِ ۔۔۔۔۔إِمَامًا
بے شک میں ۔۔۔ بنانے والا ہوں تجھ کو ۔۔۔ لوگوں کے لئے ۔۔۔ امام 

وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا

اور جب ابراھیم علیہ السلام کو آزمایا اُس کے رب نے کئی باتوں میں پھر اُس نے وہ پوری کیں۔ تب فرمایا بے شک میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بناؤں گا ۔

اِبْرَاھِیْمُ ۔ ( ابراھیم ) ۔  اس جلیل القدر نبی کے نام سے ہر شخص واقف ہے ۔ آپ ہمارے رسول صلی الله علیہ وسلم کے جد امجد تھے ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا وطن بابل تھا ۔ اور باپ کانام آزر تھا ۔ان کی نسل سے دو سلسلے چلے ۔ ایک ان کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے اور دوسرا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ۔ 
پہلے سلسلے کے نبیوں کو اسرائیلی انبیاء کہا جاتا ہے ۔ جن میں حضرت سلیمان ، داوود ، موسٰی اور عیسٰی علیھم السلام وغیرھم شامل ہیں ۔ دوسرے خاندان میں ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے ۔ 
حضرت ابراھیم علیہ السلام کو جد انبیاء کہا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی یہودی سبھی ان کی عزت کرتے ہیں ۔ 
اِذَا ابتَلٰی ۔ ( جب آزمایا ) ۔ یہ لفظ بلیہ سے نکلا ہے ۔ اس کے معنی مصیبت اور آزمائش کے ہوتے ہیں ۔ الله تعالی نے اپنے اس بزرگ نبی کو کئی طریقوں سے آزمایا ۔ مثلا بُت پرست اور بُت گر باپ نے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی ۔ قوم نے جلا وطن کرنے کا ڈراوا دیا ۔ بادشاہ نے آگ میں ڈال دیا ۔ مگر وہ اسلام سے باز نہ آئے ۔ اور حق پر قائم رہے ۔ پھر الله تعالی نے بیوی بچے کو جنگل میں چھوڑ آنے اور بچے کو قربان کرنے کا حکم دیا ۔ انہوں نے اس حکم کو بھی پورا کر دکھایا ۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی امتحان ہوئے اور وہ ہر ایک میں کامیاب رہے ۔ 
اِمَاماً ۔ ( پیشوا ۔ امام ) ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی یہ امامت فقط روحانی اور مذہبی پیشوائی نہ تھی ۔ بلکہ الله تعالی نے انہیں سیاسی طور پر بھی سرفرازی اور برتری عطا فرمائی ۔ وہ اپنے زمانے میں واقعی سردار اور پیشوا بنے ۔ لوگوں نے ان کی پیشوائی تسلیم کی ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...