نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*کتاب الله کی مخالفت*

وَلَمَّا ۔۔۔۔۔۔۔ جَاءَهُمْ ۔۔۔۔ ۔۔۔ رَسُولٌ ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  عِندِ اللَّهِ 
اور جب ۔۔۔ آیاان کے پاس ۔۔۔ رسول ۔۔ سے ۔۔۔ الله کی طرف 
مُصَدِّقٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔ مَعَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    نَبَذَ
تصدیق کرنے والا ۔۔۔ اس کی جو ۔۔۔ پاس ہے ان کے ۔۔۔ پھینک دیا اس نے 
فَرِيقٌ ۔۔۔۔ ۔ مِّنَ ۔۔۔ ۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔ ۔ أُوتُوا ۔۔۔۔۔۔۔  الْكِتَابَ
ایک جماعت ۔۔۔ سے ۔۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ وہ دئیے گئے ۔۔۔ کتاب 
كِتَابَ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَرَاءَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظُهُورِهِمْ
الله تعالی کی کتاب ۔۔۔ پیچھے ۔۔۔ ان کی پشتیں 
كَأَنَّهُمْ ۔۔۔۔۔ لَا يَعْلَمُونَ۔  1️⃣0️⃣1️⃣
گویا کہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ نہیں وہ جانتے 

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.   1️⃣0️⃣1️⃣

اور جب ان کے پاس الله تعالی کی طرف سے رسول پہنچا  اُس کی تصدیق کرنے والا جو ان کے پاس ہے ۔ تو اہلِ کتاب کی ایک جماعت  نے پھینک دیا الله تعالی کی کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے گویا وہ جانتے ہی نہیں ۔

رَسُولٌ ( رسول ) ۔ اس کے لفظی معنی پیغام رساں کے ہیں ۔ عبارت کے طرزِ بیاں سے ظاہر ہے کہ یہاں نبی آخر الزماں مراد ہیں اور محقق مفسرین نے یہی مراد لی ہے ۔ 
مَعَھُم ۔ ( ان کے پاس ) ۔ اس سے مراد تورات ہے ۔ جو یہودیوں کی آسمانی کتاب تھی اور جس کی تصدیق نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے کی ۔ 
کتابُ الله  ( الله کی کتاب ) ۔ یہاں اس سے مراد بھی تورات ہے ۔ جس کی ہدایت کو یہودیوں نے نہ مانا ۔ یہ لوگ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر بھی ایمان نہ لائے ۔ حالانکہ ان کی کتاب میں کی کُھلی نشانیاں اور پیشین گوئیاں موجود تھیں ۔ یہودی عالموں نے ان پیشین گوئیوں کو چھپانے کی انتہائی کوشش کی اور یہودی عوام نے اسلام اور مسلمانوں کی حد درجہ مخالفت کی ۔ حالانکہ ان کی نجات اسلام کے ماننے سے وابستہ تھی ۔ 
وَرَآ ءَ ظُہُوْرِھِمْ ۔ ( اپنی پیٹھ پیچھے ) ۔ یہ ایک محاورہ ہے ۔ جس سے مراد ہے کہ انہوں نے بے پرواہی برتی اور اس کی عملی مخالفت کی ۔ 
اس آیت میں یہودیوں کو بتایا جاتا ہے کہ نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم اس لئے تشریف نہیں لائے کہ تمہارے دین کو مٹا دیں ۔ بلکہ اسے تازگی بخشنے اور نئی زندگی دینے آئے ہیں ۔ اس لئے ان کی بات نہ ماننا سراسر خود اپنے دین کی جڑ کھود کر اسے برباد کرنا ہے ۔ 
ان تمام باتوں کے باوجود یہودیوں نے اسلام کی کھلم کھلا مخالفت شروع کر دی ۔ اور توریت میں نبی آخر الزماں کے آنے کے متعلق جو بشارتیں موجود تھیں ۔ اور نشانیاں بیان کی گئیں تھیں انہیں چھپانے کے لئے انہوں نے توریت کو بھی بدل ڈالا اور بظاہر بالکل انجان بن گئے ۔ گویا انہیں معلوم ہی نہیں کہ اس میں آخری نبی صلی الله علیہ وسلم کی تائید اور تصدیق موجود ہے ۔ پس اگر انہیں اپنی کتاب توریت پر ہی ایمان اور یقین نہیں تو ان سے آئیندہ کے لئے کیا امید کی جائے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...