نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*مساجد کو ویران کرنے والے*

وَمَنْ ۔۔۔۔۔ ۔۔ أَظْلَمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ مِمَّن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مَّنَعَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مَسَاجِدَ 
اور کون ہے ۔۔۔ بڑا ظالم ۔۔۔ اس شخص سے ۔۔۔ منع کیا اس نے ۔۔۔ مساجد 
اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔ ۔ أَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔يُذْكَرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  فِيهَا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اسْمُهُ 
الله تعالی ۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔ ذکر کیا جائے ۔۔۔ اس میں ۔۔۔ اس کانام 
وَسَعَى ۔۔۔۔۔ ۔۔ فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ خَرَابِهَا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ أُولَئِكَ ۔۔۔ مَا
اور وہ کوشش کرتا ہے ۔۔۔ میں ۔۔۔ اس کی خرابی ۔۔۔ یہی لوگ ۔۔ نہیں 
 كَانَ ۔۔۔ لَهُمْ۔۔۔۔۔ ۔۔  أَن ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ يَدْخُلُوهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ إِلَّا 
ہے ۔۔۔ ان کے لئے ۔۔ یہ کہ ۔۔۔ وہ داخل ہوں اس میں ۔۔۔ مگر 
خَائِفِينَ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ لَهُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ الدُّنْيَا ۔۔۔ خِزْيٌ 
ڈرتے ہوئے ۔۔۔ ان کے لئے ۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ دنیا ۔۔۔ ذلت 
وَلَهُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ الْآخِرَةِ ۔۔۔ عَذَابٌ ۔۔۔ عَظِيمٌ۔ 1️⃣1️⃣4️⃣
اور ان کے لئے ۔۔۔ میں ۔۔۔ آخرت ۔۔۔ عذاب ۔۔۔ بڑا 

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ.  1️⃣1️⃣4️⃣

اور ان سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے الله تعالی کی مسجدوں میں روکا کہ وہاں اس کا نام لیا جائے ۔ اور ان کے اجاڑنے کی کوشش کی ۔ ایسے لوگوں کو لائق نہیں کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں ذلت ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے ۔ 

مَسٰجِدْ ۔ ( مسجدیں ) ۔ مسجد کی جمع ہے ۔ لفظی مطلب سجدہ کرنے کی جگہ ۔ یعنی مسلمانوں کی عبادت گاہ ۔ ایک قول کے مطابق اس سے مسجد حرام بھی  لی جاتی ہے ۔ 
اس آیت کے شان نزول کی وضاحت میں دو واقعے بیان کئے جاتے ہیں 
ایک یہ کہ عیسائیوں نے یہودیوں سے جنگ کی تورات کو جلایا اور بیت المقدس کو خراب کیا ۔ 
دوسرا یہ کہ مکہ کے مشرکوں نے ۶ ھجری میں حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو صرف تعصب کی بنیاد پر مسجدِ حرام یعنی بیت الله میں داخل ہونے سے روک دیا ۔ 
اہل کتاب کی مذہبی تعصب پرستی اور فرقہ بندی کی حد یہ ہوگی ۔ کہ دوسرے گروہوں کی عبادت گاہوں کا احترام دل سے اُٹھ گیا ۔ انہیں برباد کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ نہ کی ۔ اور خود اپنی عبادت گاہوں میں غیر فرقے کے لوگوں کو داخل ہونے سے روکا ۔ حالانکہ سب دعوٰی یہی کرتے ہیں کہ وہ ایک خدا کو مانتے ہیں ۔ 
عُلماء نے فرمایا ہے کہ جس طرح الله تعالی کے ذکر سے مسجد آباد ہوتی ہے ۔ بُرے کام اور بات کرنے سے مسجد کی بربادی سمجھی جائے گی ۔ اس کے علاوہ وہ تمام چیزیں جو نمازیوں کی کمی اور مسجد کی ویرانی کا باعث بنیں ۔ وہ سب اس آیت کے حکم میں داخل ہو جاتی ہیں ۔ اس لئے ایسی چیزوں سے پرھیز کرنا چاہئیے جن سے مسجدوں کی رونق کم ہو ۔ اور لوگوں کا مسجد میں آنا کم یا بند ہو جائے ۔ الله جل شانہ فرماتا ہے ان پر لازم ہے کہ جب وہ مسجد میں داخل ہوں تو ان کے دل الله کے خوف تواضح اور ادب و تعظیم سے لرزتے ہوں ۔ لیکن چونکہ وہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے اس لئے دنیا میں بھی انہیں رسواکن عذاب ملے گا  ۔ اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ان کا منتظر ہوگا ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...