*کتب سابقہ میں تائید*

الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔ آتَيْنَاهُمُ ۔۔۔۔۔۔ الْكِتَابَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ يَتْلُونَهُ
وہ لوگ ۔۔۔ ہم نے اُن کو دی ۔۔۔ کتاب ۔۔۔ وہ تلاوت کرتے ہیں اُس کی 
حَقَّ ۔۔۔ تِلَاوَتِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أُولَئِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُؤْمِنُونَ 
حق ۔۔ تلاوت اس کی ۔۔۔ یہی لوگ ۔۔۔ وہ ایمان لاتے ہیں 
بِهِ۔۔۔۔۔۔۔۔   وَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ يَكْفُرْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ بِهِ 
اس پر ۔۔۔ اور جو شخص ۔۔۔ وہ کفر کرتا ہے ۔۔۔ اس کا 
فَأُولَئِكَ ۔۔۔ هُمُ ۔۔۔۔ الْخَاسِرُونَ۔ 1️⃣2️⃣1️⃣
پس یہی لوگ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ خسارہ پانے والے 

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ.  1️⃣2️⃣1️⃣

وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے پڑھتے ہیں  جیسے اسے پڑھنے کا حق ہے  وہی اس پر ایمان لاتے ہیں  اور جو کوئی اس کا انکار کرے گا تو وہی لوگ نقصان پانے والے ہیں ۔ 

حَقَّ تِلاَوَتِہِ ۔ ( اس کے پڑھنے کا حق ) ۔ تلاوت کے معنی پڑھنے کے ہیں ۔ لفظ۔ تُلو  اس کا مادہ ہے ۔ اس کے لفظی معنی پیچھے چلنے کے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اس جملے کے معنی یہ ہوں گے ۔ کہ وہ لوگ الله تعالی کی کتاب کو ایسے پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے ۔ یعنی اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ اس کی بتائی ہوئی راہ پر چلتے ہیں اور اس میں کمی بیشی نہیں کرتے ۔ 
اَلَّذینَ اٰتینٰھُمُ الکِتٰبَ ۔ ( جنہیں ہم نے کتاب دی ) ۔ مراد یہودی اور عیسائی ہیں ۔ 
پچھلی آیت میں مذہبی گروہ بندی کا نتیجہ بتایا گیا تھا ۔ یعنی یہ کہ حق پسندی اور حقیقت بینی کی جگہ گروہ پرستی کی روح کام کر رہی ہے ۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک انسان کا اعتقاد اور عمل کیسا ہے ۔ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے گروہ میں داخل ہے یا نہیں ۔ جب لوگوں کی ذہنیت ایسی ہو جائے تو ظاہر ہے کہ دلائل کچھ کام نہیں دے سکتے ۔ کتنی ہی سچی اور معقول باتیں کیوں نہ کہی جائیں ان لوگوں کے لئے سب بے کار ہوتی ہیں ۔ 
آج کے سبق میں بتایا گیا ہے کہ اگر اہل کتاب ضد ، نفسانیت اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر اخلاص اور نیک نیتی سے کام لیں ۔ اور اپنی کتابوں کو خلوص سے پڑھیں ۔ تو وہ قرآن مجید  اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہو جائیں گے ۔ اور آپ پر ایمان لے آئیں گے ۔ یہودیوں میں کچھ لوگ انصاف پسند بھی تھے جو اپنی کتاب کو سمجھ کر پڑھتے تھے وہ قرآن مجید پر ایمان لے آئے ۔ جیسے حضرت عبد الله بن سلام اور ان کے ساتھی ۔ اور یہ آیت انہی لوگوں کے بارے میں ہے ۔ یعنی انہوں نے تورات کو غور سے پڑھا ہے اس لئے انہی کو ایمان نصیب ہوا ۔ 
اور جو  لوگ اپنی کتابوں میں بھی تبدیل و تحریف کرتے رہے  اور ان کے احکام میں نیک ارادے سے غور نہیں کیا ۔ وہ کبھی قرآن مجید کی صداقت کے قائل نہیں ہوں گے ۔ وہ تعصب ، ہٹ دھرمی ، نفس پرستی اور گروہ بندی میں مبتلا ہیں ۔ اور اگر یہی طور طریقے رہے تو وہ ہمیشہ کفر میں مبتلا رہیں گے ۔ وہ لگاتار حق سے انکار ہی کرتے رہیں گے ۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ دنیا میں بھی نقصان اُٹھائیں گے اور آخرت میں بھی تباہ و برباد ہوں گے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں