نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*کُن فیکون*

بَدِيعُ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ السَّمَاوَاتِ ۔۔۔  وَالْأَرْضِ ۔۔۔۔۔ ۔۔ وَإِذَا
ابتداء سے پیدا کرنے والا ۔۔۔ آسمانوں ۔۔۔ اور زمین ۔۔۔ اور جب
 قَضَى ۔۔۔۔۔۔ أَمْرًا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَإِنَّمَا
فیصلہ کرتاہے ۔۔۔ کام ۔۔۔ پس بے شک 
يَقُولُ ۔۔۔ لَهُ ۔۔۔۔ ۔۔ كُن ۔۔۔۔۔۔  فَيَكُونُ۔ 1️⃣1️⃣7️⃣
وہ کہتا ہے ۔۔۔ اس سے ۔۔۔ ہو جا ۔۔۔ پس وہ ہو جاتا ہے 

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ.  1️⃣1️⃣7️⃣

ابتدا سے زمین اور آسمان کا پیدا کرنے والا ہے  جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ فرماتا ہے کہ ہو جا۔ پس وہ ہو جاتا ہے ۔

بَدِیْعٌ ۔ ( بغیر مادے کے اور بغیر نمونے کے پیدا کرنے والا ) یہ لفظ  "بدع "سے  بنا ہے ۔ لفظ۔ ابداع " بھی اسی سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں نئے سرے سے بنانا ۔ مادے کے بغیر نیست سے ہست کرنا ۔ نمونے کے بغیر کوئی چیز بنا دینا ۔ 
بدیعٌ سے مراد ہے ایسا موجد اور صنّاع جو حقیقی معنی میں پیدا کرنے والا اور ایجاد کرنے والا ہے ۔ جسے نہ کسی آلے کی ضرورت ہے نہ کسی مال و مسالہ کی ۔ نہ وہ کسی نمونے کا محتاج ہے نہ کسی استاد کا ۔ ہر چیز خواہ اس کا وجود اور نمونہ پہلے موجود ہو یا نہ ہو ۔ وہ اسے وجود بخشنے والا ہے ۔زمین و آسمان اور کائنات کی ہر شے اسی نے پیدا کی ہے ۔ 
اس آیت میں مشرک قوموں کے غلط عقیدوں کو رد کیا گیا ہے ۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ مادہ پہلے سے کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا ۔بس اسے الله نے ترتیب و ترکیب دے کر کائنات کو پیدا کیا ہے ۔
الله جل شانہ نے یہاں اپنی صفت  بدیع۔ بتا کر فرمایا ہے کہ صرف اسی کی ذات قدیم ، ازلی و ابدی ہے ۔اس نے تمام موجودات کو ایجاد کیا ہے ۔ جن کا پہلے بالکل کوئی نمونہ موجود نہ تھا ۔ زمین و آسمان اور کائنات کی ہر شے کو اسی نے نیست سے ہست کی شکل دی ہے ۔ اس کے لئے ہر چیز کو بغیر نمونہ کے اور بغیر مادے کے پیدا کرنا بہت آسان بات ہے ۔  سبحان الله 
کُن فَیَکُوْنَ  - ( ہو جا ۔ پس وہ ہو جاتا ہے ) ۔ الله تعالی کو کائنات کی تخلیق اور ایجاد میں اسباب اور وسائل کی ضرورت نہیں ۔ صرف اس کا حکم اور اشارہ کافی ہے ۔ اسی حقیقت کو اس مختصر سے جملے میں بیان کیا گیا ہے ۔ 
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ الله تعالی ہی قدیم ہے ۔ ایک وقت ایسا تھا جب اسی کا وجود تھا اور باقی کچھ بھی موجود نہ تھا ۔ اسی نے اپنے ارادے سے ان سب کو ایجاد کیا ۔ اسے نہ کسی شریک کار کی ضرورت ہوئی اور نہ کسی معاون اور مددگار کی ۔ وہی تمام چیزوں کو نئی شکلیں دیتا ہے ۔ 
مادہ پرست لوگوں کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ وہ کسی کا محتاج ہے یا اسے کسی کی ضرورت ہے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...